آنکھیں بند کرنے سے کبوتربلی کے وار سے بچ نہیں سکتا اور
حقائق سے چشم پوشی حالات کو بدل نہیں سکتی ۔خود فریبی ، خود پرستی ،خوشامدی
ایسی بلائیں ہیں جو مسلم امہ کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ چکی
ہیں۔’پاکستان نے کشمیر معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرکے بڑا معرکہ
سر کر لیا ،چین پاکستان کی مدد کو آن پہنچا، ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی
کی پیش کش کر دی ،بھارت کا دہائیوں پرانا دوست روس بھی بھارت کے خلاف کھڑا
ہو گیا ،کشمیریوں کی آزادی کا وقت آن پہنچا، اب توبھارت کو کشمیر کا قبضہ
چھوڑنا ہی پڑے گا۔۔وغیر ہ وغیرہ ۔۔پاکستان کی تشفی کے لیے تو یہ جملے کافی
ہو سکتے ہیں لیکن کیا یہ فقرات سات دہائیوں سے غاصب ہندو بنئے کے اعتاب کا
شکار کشمیریوں کی تسلی کے لیے کافی ہیں؟
میرا ماننا ہے کہ جب تک حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ نہیں لیا جاتا تب تک
مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ، مرض کی تشخیص کیے بغیر علاج ممکن
نہیں،راستے کی نشاندہی کے بغیرمنزل کا حصول ممکن نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ
بھارت طاقت کے بل بوتے پر متنازعہ خطے پر قابض ہو چکا ہے ،کشمیری اپنے اپنے
گھروں میں قید کر دیئے گئے ہیں، آر ایس ایس کے غنڈے وادی میں ظلم و ستم کی
داستانیں رقم کر رہے ہیں ، وادی کی دیواریں عصمت دری اور آبرو ریزی کی
کہانیاں سنا رہی ہیں، جنت میں وحشت کے ڈیرے ہیں، شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ
مذہبی آزادی بھی صلب کی جا چکی ہے غرض یہ کہ کشمیر فلسطین کا دوسرا روپ
دکھائی دے رہا ہے ۔
ادھر پاکستان سمیت مسلم امہ سراپا احتجاج ہے ، دنیا بھر میں مظاہرے ،
احتجاج اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ، مودی کے پتلے جلائے جا رہے ہیں۔ذمہ
دار ان کے رویوں پر بھی نظر دوڑا لیں مذمت سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں سوجھ
رہا ۔او آئی سی کی طرف سے Oh..I..Seeکا جواب ملاہے ، عرب شہزادوں کی توجہ
اپنے تیل کی فروخت پر ہے ، یو اے ای نے تو کھل کر مسئلہ کشمیر کو بھارت کا
اندرونی مسئلہ کہہ دیا ہے حتی کہ اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے دو طرفہ مذاکرات کی پھکی تھما دی ہے ۔
موجودہ حالات میں پاکستان اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردوں کے تحت
چاہتا ہے جبکہ اقوام عالم کے بیشتر ممالک دو طرفہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہیں
، امریکہ نے سہ فریقی حل تجویز کرتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کی ہے اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت کی دنیا میں یہ کس قدر ممکن ہے ؟ سب سے پہلے اقوام
متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اقوام
متحدہ کی جن قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا مطالبہ کیا
جاتا ہے وہ اقوام متحدہ کے با ب ششم کے تحت پاس کی گئی ہیں اور اس باب کے
مطابق اقوام متحدہ کسی بھی فریق پر اقتصادی و عسکری دباﺅ نہیں ڈال سکتا
۔ایسی قراردادیں محض اخلاقی نوعیت کی ہوتی ہیں،فلسطین مسئلہ پر اسرائیل کے
خلاف ایسی کئی قراردادیں اسی چیپٹر کے تحت درج کی گئی ہیں۔اگر یہ قراردادیں
باب ہفتم کے تحت درج کی گئی ہوتیں تو اقوام متحدہ عسکری و اقتصادی آپشنز
استعمال کرسکتا تھا جیسا کہ عراق پر حملے کی صورت میں ہوااور کویت پر عراق
کے قبضے کے جواب میں کیا گیا۔لہٰذا اقوام متحدہ کی طرف سے کسی بڑے اقدام کی
امید لگانا محض حماقت ہے جس کاذکروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب بھی کر
چکے ہیں۔
اگر مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلہ کی بجائے پاکستان اور بھارت کے مابین دو
طرفہ مسئلہ سمجھا جائے اور اسکے حل کے لیے دو طرفہ مذاکرات پر توجہ دی جائے
توپاکستان سفارتی و اقتصادی دباﺅ بڑھا کربھارت کو مذاکرات کی ٹیبل پر لا
سکتا ہے لیکن ایسا کیونکر ناممکنات میں نظر آتا ہے ،ہمارے پاس ایسا ہے ہی
کیا کہ دنیا ہمارے ساتھ آکھڑی ہو ، ہماری ایسی کونسی ایجاد ہے کہ دنیا کو
ہماری ضرورت ہو ، ہم کس طرح بھارت کو کشمیر میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر
سکتے ہیں؟
ہم سعودی عرب سے ادھار تیل خریدتے ہیں ، ادائیگیوں میں توازن کے لیے تین
ارب ڈالر قرض لیتے ہیں جبکہ سعودی عرب بھارت کو سالانہ28ارب ڈالر کا تیل
فروخت کرتا ہے ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھارت میں100 ارب ڈالر سرمایہ
کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سعودی تیل کمپنی آرامکو اوربھارتی کمپنی ریلائنس
پٹرولیم کے کاروبار میں شراکت دار بن چکے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کا بھارت
سے تجارت کا حجم 50ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ بھارت کی متحدہ عرب امارات
میں 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اس کے برعکس پاکستان یوا ے ای سے تین ارب
ڈالر ڈپازٹ توازنِ ادائیگی بہتر بنانے کے نام پر لیتا ہے وہ کیونکر کشمیر
پر پاکستان کی آواز بنیں گے ۔
بالفرض ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے ذریعے بھار ت پر
دباﺅ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا یہ ممالک مظلوم کشمیریوں کی آہ و بکاہ
پر کان دھریں گے ۔سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور بھارت کے دیرینہ دوست روس
کو ہی لے لیں،یہ آج بھی بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اگلے
برس وہ پانچ ارب ڈالر مالیت کا S-400میزائل سسٹم فراہم کرنے جا رہا ہے ۔
فرانس کی بھارت کے ساتھ رفال لڑاکا طیاروں کی مہنگی ڈیل چل رہی ہے ،
برطانیہ کے بھی بھارت کے ساتھ سالانہ 25ارب ڈالر کے تجارتی تعلقات
ہیں،چوتھے اہم ترین رکن امریکہ کے بھارت کے ساتھ مظبوط تجارتی روابط تو ایک
طرف ، اس کے لیے بھارت اور چین کی دشمنی ہی کافی ہے جو خطے میں امریکی
مفادات کی ضامن ہے ،پاکستان کے دیرینہ دوست چین اور بھارت کا بھی آپس میں
سالانہ 100ارب ڈالر کا تجارتی حجم ہے ۔اقتصادی مفادات کی بنا ءپر یہ ممالک
کیونکر بھارت سے کھلی محاذآرائی چاہیں گے اور کیوں کر پاکستان کے ساتھ کھل
کر کھڑے ہوں گے ؟ اس صورتحال میں کیا عالمی طاقتیں کشمیریوں کو ان کا حق
دلا پائیں گی ۔نہیں ، ہر گز نہیں.
ہمیں پہلے خود کو دنیا کی ضرورت بننا پڑے گا، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا
پڑے گا۔ہمیں یہ حقائق اپنی عوام کو بتانا ہوں گے کہ ہم بحثیت قوم معاشی ،
تجارتی ، سیاسی ، علمی ،ثقافتی ، اخلاقی غرضیکہ ہر لحاظ سے دنیا سے کوسوں
پیچھے رہ گئے ہیں،ہمیں اپنی عوام میں یہ شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ جب تک
زندگی کے ہر پہلو میں خود انحصاری حاصل نہیں کی جاتی تب تک اقوام عالم میں
ہماری پکار کوئی نہیں سنے گا۔آج کی دنیا للکار پر توجہ دیتی ہے التجا کو
کوئی نہیں سنتا ۔آج کشمیری عوام کی نگاہیں ہماری بے بسی کو جان چکی ہیں اور
مجبوریوں سے بھی آگاہ ہیں لیکن سلام ہے ان ماﺅں بہنوں ، بچوں ، بزرگوں اور
نوجوانوں پر جو آج بھی ہم سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور آج بھی خود کو
پاکستان کے پرچم میں دفنایاجانا قابل فخر سمجھتے ہیں لیکن ہم ۔۔۔ہم ان پر
ڈھائے جانے والے مظالم کو کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں ، ان کے کرب کی آوازیں
سن رہے ہیں لیکن ان کی مدد کو نہیں پہنچ پارہے ۔۔کیوں ؟ کیونکہ ہم معاشی و
عسکری لحاظ سے دنیا کے ہم پلہ نہیں ، ہم نے فطرت کے اسباق کو پس پشت ڈال
دیا، حقائق سے چشم پوشی اختیار کر لی، تعلیم و ہنر پر توجہ نہیں دی ، سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی کو کفر جانا، جھوٹ کو جھوٹ نہیں لکھا ، سچ کو سچ نہیں جانا،
ہم نے تاریخ کے اس سبق کو بھی بھلا دیا کہ انسانوں اور حیوانوں کے معاشرے
میں آ ج بھی لاٹھی کو ہی مظبوط دلیل سمجھا جاتا ہے ۔۔اندھی تقلیداور محض
کھوکھلے نعروں اور دعووں کے پیچھے ہم نے دہائیاں گزار دیں اور نتیجہ آج ہم
سب کے سامنے کشمیر میں ہونے والے مظالم کے آگے ہماری بے بسی ہے ۔
آ ج ہمارے معاشرے کے ہر فرد کواصلاح کی ضرورت ہے ، ایک نئے عزم اور ولولے
کی ضرورت ہے ، منزل کا تعین تو ہمارے قائد کر گئے صرف راستہ اور
راہنماءبدلنے کی ضرورت ہے ۔حقائق سے چشم پوشی کی بجائے ان کا سامنا کرنے کی
ضرورت ہے ،ماضی کے بچھائے ہوئے خود فریبی اور خود پسندی کے جال سے نکل کر
حال کی آزاد فضاﺅں میں اڑنے کی ضرورت ہے ۔یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے
اوریہی زندہ رہنے کا طرز ہے ۔
|