سپہ سالار پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ جن کی مدت ملامت
نومبر2019ء کو مکمل ہورہی تھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے علاقائی
سلامتی کی صورتحال کے پیش نظر ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے
احکامات جاری فرمادئے ۔ وزیر اعظم کا جو حکم جاری ہوا ، سوشل میڈیا اور ٹی
وی چینلز نے دکھایا اس میں کہا گیا ہے کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی
موجودہ مدت کی تکمیل کی تاریخ سے مزید 3سال کی مدت کے لیے چیف آف اسٹاف
مقر کیا جاتا ہے ۔ یہ فیصلہ علاقائی سلامتی ماحول کے پیش نظر کیا گیا ہے‘ ۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے 16ویں سپہ سالار ہیں جو 29نومبر2016ء کو
جنرل راحیل شریف کے ریٹا ئر ہوجانے کے بعد اس عہدہ پر اقامت پذیر ہوئے تھے
۔
سرکاری ملازمت میں ریٹائرمنٹ ایک معمول کا مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے
قانون ابتدا سے بنا ہوا ہے جس کے تحت ہر سرکاری ملازم کو مدت ملازمت پوری
ہوجانے کے بعد اپنے عہدہ سے ریٹائر ہونا ہوتا ہے ۔ البتہ پہنچ رکھنے والے ،
اثر رسوخ والے ، با اثر سرکاری ملازمین مختلف طریقوں سے اپنے مدت ملازمت
میں توسیع دلوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ایسی مثالیں بے شمار ہیں کہ اہم
شخصیات نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کی یا اُسے اُس کے با اعتماد
ہونے کی بنا پر اس عہدہ پر برقرار رکھا گیا ۔ قانون میں بھی اس کی گنجائش
موجود ہے ۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے توسیع لینے سے انکار کردیا
تھا جب کہ ان سے پہلے والے سپہ سالار نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لی تھے
یا انہیں دی جاتی رہی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں ہیں سرکاری
ملازمین کی کہ جن کی مدت ملازمت میں توسیع دی جاتی رہی ۔ قانون میں یہ
گنجائش ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہو ئے
، موجودہ حالات کے پیش نظر جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں
توسیع دی ۔
موجودہ کشیدہ حالات کے تناظر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا سپہ سالار کی
حیثیت میں برقرار رہنا ملک اور قوم کے اعلیٰ تر مفاد میں ہے ۔ سرحدوں کی
صورت حال، بھارت کی ہٹ دھرمی ، بھارتی وزیر دفاع کے زہر آلود بیانات، مودی
کی میں نہ مانو والی گردان ، روائیتی جنگ کے ساتھ ساتھ جوہری جنگ کے خدشات
اور امکانات ، بھارتی کی جانب سے اس قسم کے اشاروں کے پیش نظر اس وقت حالات
کا تقاضہ یہی تھا کہ سپہ سالار موجودہ حالات سے نمٹنے کی یقینا کوئی نہ
کوئی حکمت عملی ان کے ذہن میں ہوگی، پاکستان کی افواج پر اس وقت بہت زیادہ
دباو ہے، انہیں بھارت جیسے موذی دشمن کے لیے ہردم ہر گھڑی تیار رہنا ہے
اوروہ تیار ہیں ۔ سیاسی قیادت بھی دشمن کو بہت واضح پیغام دے چکی ہے کہ
بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے
ہر دم تیار ہیں ، اس کا عملی مظاہرہ پاکستان کر بھی چکا ہے، بھارتی پائیلٹ
کو پکڑ کر واپس کردینا پاکستان کی بڑائی تھی، بھارت نے اسے بھی احسان تصور
نہ کیا بلکہ اسے بھی پاکستان کی کوئی چال قرار دیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے ریٹائر منٹ کا فیصلہ بانگِ
دھل کر کے ایک اعلیٰ مثال قائم کی تھی ، اُس وقت حالات مختلف تھے، دہشت
گردی سے تو فوج نمٹ ہی رہی تھی لیکن دشمن اس وقت اس قدر آپے سے باہر نہیں
تھا اس وجہ سے ان کا مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ درست تھا، اس
سے ان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا تھا، جنرل راحیل کا فیصلہ ملک میں مدت
ملازمت میں توسیع کلچر کے خاتمے کاباعث بھی ہوا تھا ۔ عوام الناس کے علاوہ
ملک کی بعض اہم سیاسی جماعتوں نے بھی سپہ سالار کے اس فیصلہ کو سراہا اور
اسے ایک صائب فیصلہ قرار دیاتھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ادارہ کا
سربراہ اگر وقتِ مقرہ پر ریٹائر ہو جا ئے تو اس کے نیچے خدمات انجام دینے
والوں کے لیے ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں ، وہ مہینوں ، سالوں اس بات کے
منتظر ہوتے ہیں کہ اوپر والے اپنی مدت ملازمت پوری ہوجانے کے بعد گھر جائیں
تو نیچے خدمت کرنے والے بھی ترقی پاسکیں ۔ جب ایسا نہیں ہوتا توان میں بد
دلی، افسردگی، مایوسی، دل شکستگی اور قنوطیت کا پید اہونا قدرتی عمل ہے ۔
مختلف شعبوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں
، چاہے ان کی کارکردگی کچھ بھی ہو ، ایسے لوگ عزت سے رخصت نہیں ہوا کرتے،
اسی قسم کی صور حال سیاسی جماعتوں میں بھی پائی جاتی ہے ، پارٹی بنانے والا
سیاست داں پارٹی کی رہنمائی کو اپنا جدی پشتی حق تصور کرتا ہے، نتیجہ یہ
ہوتا ہے کہ وہ پارٹی وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑجا تی ہے،بے شمار سیاسی
پارٹیاں اپنے بنانے والوں کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں ، ان کا نام و نشان مٹ گیا
۔ ماضی میں ہمارے بعض حکمراں ایسے رہے ہیں کہ وہ بات کرتے ہوئے ، تقریر
کرتے ہوئے ٹی وی پر بار بار رومال سے اپنی رال صاف کیا کرتے تھے لیکن اپنے
آپ کو سب سے بہتر حکمراں تصو ر کیے ہوئے تھے ۔ گئے تو !پر اپنے پیروں چلتے
نہیں ، ایسی حکمرانی سے کیا فائدہ ، ایسے عہدہ سے کیا فائدہ ۔ وزیر اعظم
پاکستان کے اس فیصلے کو ملک کے بیشتر طبقے نے سراہا ہے، اسے وقت اور حالات
کے مطابق درست سمت میں حکمت عملی قرار دیا ہے ۔ لیکن بعض احباب نے تنقید
بھی کی ۔ جہاں تنقید کامعیار تنقید برائے تنقید ہو ، تنقید برائے اصلاح نہ
ہو ، بعض لوگ عمران خان کے سابقہ بیانات کی مثال دیتے نظر آتے ہیں کہ
انہوں جب وہ حکومت میں نہیں تھے مدت ملازمت میں توسیع کو غلط کہا تھا اور
یہ کہ وہ کسی کو توسیع نہیں دیں گے ۔ حالات اور وقت کے مطابق جس نے فیصلے
نہیں کیے اسے پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ پاکستان میں دونوں
مثالیں ملتی ہیں ، سپہ سالار کو اس کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی بھی
اور اس کے از خود توسیع نہ لینے کی بھی ۔ اگر عمران خان صاحب نے یہ کہا بھی
تھا تو اُس وقت حالات ایسے نہیں تھے ۔ موجودہ حالات میں ان کا فیصلہ صائب
ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی صلاحیتوں ، بہادری ، سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی
سے کسی کو انکار نہیں ۔ انہوں نے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جو کارہائے
نمایاں انجام دئے ان کے باعث پاکستان مشکل ترین حالات سے نکل سکا ہے ۔ وہ
ایک مثبت سوچ کے انسان ہیں ، سابقہ حکومتوں میں اکثر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ
عسکری قیادت اور سول قیادت ایک پیچ پر نہیں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس
تاثر کو یکسر بدل دیا ۔ اس قسم کی بحث کا وجود موجودہ دور میں ابھی تک نہیں
ابھری جو ایک اچھی روایت ہے ۔ اس بحث کو طول نہیں پکڑنا چاہیے پاکستان کی
سرحدوں کی صورت حال ایسی نہیں کہ پاکستان اندرونی اعتبار سے غیر ضروری بحث
و مباحثہ میں پڑے، اگر ہم باہم دست و گریبان رہے، باہم ایک دوسرے کو برا
بھلا کہتے رہے تو کہیں دشمن اس سے فائدہ اٹھا کر ہ میں نقصان نہ پہنچادے ۔
پاکستان کا واسطہ ایک عیار اور مکار دشمن سے ہے ۔ حکومت کو گرانے کا پلان
کچھ وقت کے لیے ملتوی کردیں ، اتحاد کا عملی مظاہرہ کریں ۔ حکومتیں گرتی
رہی ہیں ، اب بھی گرسکتی ہے، لیکن زمینی حقائق کیا ہیں ان کا ادراک کریں ۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا احساس کریں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و
زیادتی کے بارے میں دنیا کا آگاہ کریں ، سیاسی لیڈروں کے بیانات میں اثر
ہوتا ہے، ان پر لوگ توجہ دیتے ہیں ، باہر کی دنیا ان پر اعتبار کرتی ہے ۔
حکومت بھی اس وقت مخالفین کے بارے میں اپنے رویے میں تبدیلی لائے اور حزب
اختلاف بھی ۔ یاد رکھیں پاکستان ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں ۔
|