نعیم صدیقی
دنیا کے ہر مہذب،طاقتور ،۔جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبردار اور امن کی
خواہش رکھنے اور کوششیں کرنے والے ملک پر لازم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی مظالم کا سختی کے ساتھ نوٹس لیا جائے۔کشمیر کی وادی میں بھارت کی
مسلح قابض افواج جو کہ جدید ترین مہلک ہتھاروں سے لیس ہے اس کے ہاتھوں
کشمیری جوانوں کا کا قتل ہو رہا ہے۔خواتین کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔پانچ اگست
سے لیکر آج تک ظلم و جبر کی سیاہ رات ہے جو ختم نہیں ہو رہی۔کرفیو کی وجہ
سے مقبوضہ وادی کے لاکھوں لوگوں کی زندگی درد ناک عذاب کا شکار ہو کر رہ
گئی ہے۔عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ بھارت کی انتہا پسند حکومت کو
انسانیت سوز مظالم سے روکنے کیلئے کسی تاخیر کے بغیر اقدامات کرے اور بھارت
کو سختی کے ساتھ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے احترام پر مجبور کیا
جائے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا جو فرض اور دائرہ
کار ہے اس پر عمل دروآمد اگر ابھی نہیں ہوگا تو پھر ساری دنیا کے امن پسند
لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان بین لاقوامی اداروں کی کوئی حیثیت
نہیں رہی بلکہ دنیا میں طاقتور ہی جو چاہے کر سکتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہ
جہالت اور انسانیت دشمنی کی بدترین مثال ہو گی کہ بھارت کشمیر میں خون ناحق
بہاتا رہے اور عالمی برادری تمام تر معلومات سے باخبر ہونے کے باوجود خاموش
تماشائی بنی رہے۔ ہم ساری دنیا سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی قتل غارتگری کو روکا جائے۔مسائل کم ہیں یا
زیادہ ان کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے۔ طاقت اور اسلحہ کے زور
پرمعصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانا اور لوگون پر عرصہ حیات تنگ کر
دیناساری انسانیت کی تذلیل ہے۔مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان پاک
و ہند کی تقسیم کے وقت سے چلا آرہا ہے۔یہ ایک سرحدی اور زمین کا مسئلہ ہے
جس کے حل کے لیے ہمیشہ مذاکرات پر زور دیا گیا ہے۔تیسری پارٹی کی حیثیت سے
چائنا بھی اس میں شامل ہے۔ چین کا جن علاقوں میں مسئلہ ہے ان میں عکسائی چن
وادی اور شخص غم وادی شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام جنگیں
بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں لڑی گئی ہیں۔اس کے علاوہ بھی سرحدی
جھڑپوں کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ہتھیاروں کے دوڑ اور اس کا آخری انجام
ایٹم بم بھی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بنانا پڑا کیونکہ بھارت کے عزائم انسانی
نہیں شیطانی رہے ہیں۔کشمیر کا 55 فیصد رقبہ 70 ستر فیصد ٓبادی کا قبضہ
بھارت کے پاس ہے جس میں جموں،لداخ،کشمیر ویلی اور سیاچن گلیشئر شامل ہیں
اور 30تیس فیصدپر پاکستان کا کنٹرول ہے۔ یہ علاقے آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان ہیں جبکہبقیہ پندرہ فیصد علاقے پر چین کا کنٹرول ہے۔ 1947 اس لحاظ
سے دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ چین
بھی ایک فریق ہے۔بھارت چین کے خلاف جنگ لڑ کر رسوا ہو چکا ہے چین نے مسئلہ
کشمیر پر ہمیشہ ہاکستان کی حمایت کی ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کے
مسئلے پر قبائلی جنگجوؤں کی جانب کشمیر کی آزادی کیلیے جنگ شروع ہوئی جس
میں اقوام متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی اور سیز فائر لائن کا فیصلہ کیا
گیا۔جسے اب لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے۔بعد ازاں1965 اور 1971 کی دونوں
جنگوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ طے پا یا جس کے تحت
اس مسئلہ کو دونوں مملک نے بات چیت کے ذریعے حل کرنا تھا تاہم 1999میں
کارگل کی جنگ کے باعث شملہ معاہدہ کی اہمیت پر حرف آیا تھا۔قبل ازیں 1989
میں کشمیری جوانوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد آزادی شروع کی۔2010 میں
جعلی مقابلوں میں کشمیری جوانوں کو بھارتی مسلح فوج نے شہید کیا اور بھارت
کی جانب سے یہ پرپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے
حالانکہ مقبوضہ وادی کے عوام بھارتی ناجائز تسلط سے آزادی چاہتے ہیں جس کے
جواب میں بھارتی فوج کشمیری عوام پر ظلم کرتی ہے۔نوجونوں کو قتل کر دیا
جاتا ہے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔بھارت کے سفاکانہ اقدامات کی بدولت مقبوضہ
وادی میں شدید نفرت پھیل گئی ہے۔ہڑتالیں اور مظاہرے ایسے شروع ہوئے کہ ابھی
تک جاری ہیں۔آزادی اور احتجاج کی آواز مسلسل گونج رہی ہے۔2016میں حزب
المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعدجدوجہد آزادی میں مزید شدت
آگئی ہے اور اب جب کہ کشمیری اپنی آزادی اور بھارتی تسلط کو توڑنے کے لیے
میدان میں نکل آئے تو بھارت کی جانب سے آخری کارڈ کھیل دیا گیا ہے۔ رواں
مہینے یعنی اگست کی پانچ تاریخ سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ
کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا ہے اور اس غیر
اخلاقی غیر انسانی اور غیر آئینی اقدام کے بعد مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ
کر دیا ہے جو کہ تاحال جاری ہے اس کے بعد سے اب تک مقبوضہ وادی کے اسی لاکھ
سے زائد عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔پوری وادی جیل میں
تبدیل کر دی گئی ہے۔ایمبولینس تک دستیاب نہیں ہے۔بچے بوڑھے اور خواتین ذلت
آمیز زندگی گذارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔بھارتی درندہ صفت فوجی گھروں
میں گھس جاتے ہیں۔جس کے بعد اﷲ تعالی ان کا مددگار ہے۔دنیا اس بدترین ظلم
اور بربریت پر خاموش ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔
وجہ کیا ہے؟ دنیا کے امن پسند لوگ حیران اور پریشان ہیں۔نریندر مودی کی
قیادت میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ کشمیر میں انتہائی غیر آئینی اقدام
کے بعد جنوبی ایشیا کا خطہ ایٹمی فلیش پوانٹ بن چکا ہے۔جنوبی ایشیا سب سے
زیادہ آبادی والا خطہ ہے جس کے ساتھ تمام ترقی یافتہ ممالک کے مفادات
وابستہ ہیں۔اس علاقے میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ روس اور چین اور ایران
جیسی ایٹمی قوتیں بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کونیوکلئیر فلیش
پوانٹ کہا جاتا ہے۔لہذا بھارت کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ بندوق اور
طاقت کے زور پر نہتے کشمیریوں کو زبردستی اپنا غلام بنا لے اور اقوام متحدہ
کی قراردادوں کو پاؤں تلے روند کر مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ جما لے۔
بھارت کو یہ اقدام بہت مہنگا پڑے گا اور رد عمل کے طور پر کوئی بہت بڑا
جنگی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے جسے
بھارت طاقت کے زور پر ختم نہیں کر سکتا اس کی ضمانت اقوام متحدہ نے دی ہے
اور بھارت کا یہ دعوہ رہا ہے اس لیے اپنے وعدوں سے مکرنا بھارت کے لیے آسان
نہیں ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری دنیا کو مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت سے
آگاہ کیا جائے اور بھارت کے مہابھارت والے شیطانی منصوبے کو ناکام بنانے
اور اس انسان دشمن نظریے کو خاک میں ملانے کے لیے پاکستان کو بھرپور جوابی
اور انتہائی دانشمندی کے ساتھ اقدامات کرنا ہوں گے۔بھارت کا مکار اور سفاک
چہرہ ساری دنیا کو دکھانا ہوگا تاکہ مہذب دنیا بھارت کی شیطانی سیاست اور
کردار سے آگاہ ہو سکے۔پاکستان آرمی کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت
ملازمت میں تین سال کی توسیع اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ ان کی قیادت میں
پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے حوالے سے جو اہم ترین اقدامات اٹھائے گئے
ہیں ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سد باب کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں،
افغانستان اور کشمیر کے گھمبیر مسائل کو جس انداز سے حل کرنا ہے اور امریکہ
کے ساتھ جو حل طلب معاملات ہیں ان کاسب سے بہتر ادراک جنرل قمر جاوید باجوہ
کو ہی ہو سکتا ہے اس لیے ان تمام اہم ترین امور کو کامیابی کے ساتھ پایہ
تکمیل تک پہنچانے کیلیے ان کا اپنی ذمہ داریوں پر رہنا ضروری تھا۔ امید ہے
کہ وہ اپنے آئندہ دور میں پاکستان کے لیے اہم ترین خدمات انجام دنے کی
بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے۔
|