لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

 وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے موقع پر تحریک انصاف کے کارکنان کوامریکہ میں مودی کیخلاف بھرپور احتجاج کی ہدایت کی اور کہاکہ وہ ہرفورم پرکشمیریوں کیلئے آوازاُٹھائیں گے ،وزیراعظم پاکستان کے اس بیان کے بعد احتجاج کی طویل تاریخ سے ایک اہم احتجاجی صفحہ نکال کرآج اپنے کالم میں شامل کررہاہوں جس کے بعد چاہوں گاکہ پاکستانی قوم احتجاج سے آگے کی سوچ اپنائے،ہمیں اب یہ سمجھ لیناچاہیے کہ بھارت احتجاج یاامن کی زبان نہیں سمجھتایعنی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے،پاکستان صدرٹرمپ کی ثالثی پربھی زیادہ دھیان نہ ہی دے توبہترہے کیونکہ امریکہ اوراسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اسرائیل کے بھارت کے ساتھ تعلقات کسی تعارف کے محتاج نہیں اس سے بھی زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ عرب ریاستیں مسلم ہونے کے باوجودکھل کربھارت کی مخالفت نہیں کریں گی،یاد رہے کہ فقط احتجاج کرنے سے بھارت کشمیریوں کو آزادی نہیں دینے والا،ہم کشمیرکی آزادی کیلئے احتجاج کررہے ہیں تودوسری جانب بھارت نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کیخلاف سنگین سازشوں میں مصروف عمل ہے جن میں اہم ترین سازش بھارت کی جانب سے مسلسل آبی جارحیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے،سب سے پہلے ہم معاہدہ سندھ طاس پر ایک نظرڈال لیتے ہیں، سندھ طاس کے نام سے پہچانا جانے والا معاہدہ درحقیقت پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کی یادداشت ہے جس پر دونوں ملکوں نے 1960 میں اتفاق کیا،1948 میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کر دیا گیا،جس کے بعد انسانی ضرورت سے متعلق بنیادی معاملہ کو چھیڑنے پر دونوں ملکوں میں موجود کشیدگی میں مزیداضافہ ہوگیاکئی برس تک معاملات گشیدہ رہے، ستمبر 1960 میں کراچی میں سندھ طاس معاہدہ طے پاگیا، جس کا ضامن عالمی بینک تھا،معاہدے کے تحت تین دریاجن میں دریاسندھ ،جہلم اور چناب شامل ہیں سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، جبکہ پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس،راوی اور ستلج کا کنٹرول بھارت کو دے دیا گیا،پاکستان کی جانب سے صدرایوب خان اوربھارت کی جانب سے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے معاہدہ پر دستخط کیے،سندھ طاس معاہدہ طے پانے کے بعد سے پاکستان اوربھارت کے درمیان باقاعدہ کئی جنگیں ہوئیں تاہم یہ معاہدہ آج بھی اپنی اصل حالت میں برقرار ہے،حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے یہی کہاجاسکتاہے کہ معاہدہ اپنے جگہ جبکہ بھارتی ہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم ہے اورپاکستان،بھارت کی جانب سے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتاآیاہے،معاہدے کی شدیدترین خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت پاکستانی دریاؤں پر پاکل دول نامی ایک بڑا اسٹوریج ڈیم اور سب سے بڑابجلی گھر جس کے ڈیزائن پرپاکستان خدشات کااظہارکررہاہے تعمیرکرنے میں مصروف ہے،ماہرین کے مطابق بھارت اس ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے چناب کے ایک لاکھ آٹھ ہزار ایکڑ فٹ پانی کوپاکستان آنے سے روکنے کی صلاحیت حاصل کرلے گایاکرچکاہے جو سند طاس معاہدے کی بنیادی شقوں کی خلاف ورزی ہے،یاد رہے کہ پاکستان گزشتہ سات سال سے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے اور اس کے آپریشن سے متعلق ڈیٹا فراہم نہ کرنے پربھارت سے احتجاج کر رہا ہے،یہ توہیں بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیاں اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم نے اپنے وطن کی بہتری کیلئے احتجاج کے علاوہ کچھ کیاکہ نہیں؟بھارت نے ہمارے دریاؤں پرڈیم بناکرہمارے حصے کاپانی روک لیا،بھارت نے سندطاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیراطلاع دئیے سیلابی پانی چھوڑدیا،ٹھیک ہے سب کچھ تو بھارت نے کیاسوال یہ ہے کہ ہم نے کیاکیا؟جب بھارت ہمارے دریاؤں پرڈیم بنارہاتھاتب ہم نے کیاکیا؟کیاڈیم کسی بندکمرے میں بنائے گئے جن کی ہمیں خبرتک نہ ہوئی؟بھارت نے ڈیم بناکرہمارے حصے کاپانی بھی روک لیااورہم نے پانی کی شدید قلت کے باوجودڈیم بناکرپانی محفوظ کرنے کاکوئی انتظام نہیں کیاجس کے باعث بھارت کی جانب سے اضافی پانی چھوڑنے پرہمارے گھراورکھیت تیارفصلوں سمیت زیرآب آکرتباہ وبرباد ہوگئے،سوال یہ ہے کہ بھارت اضافی پانی چھوڑنے سے قبل معلومات فراہم کردیتاتوہم کیاکرلیتے سوائے اس کہ متاثرہ علاقوں سے وہاں کے رہائشیوں کو مال مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پرمنتقل کرنے کی کوشش کرتے؟کھیت اورفصلیں توپھربھی تباہ ہوجاتیں،لاکھوں کیوسک اضافی پانی توپھربھی ضائع ہوجاتا،یہ بھارت نے کردیاوہ بھارت نے کردیا،یہ چین کردے،وہ امریکہ کردے،کچھ سعودیہ دے دے کچھ یواے ای سے مانگ لیتے ہیں پھربھی کام نہ چلے تو آئی ایم ایف زندہ باد،عوام جمہوریت کے ساتھ ہیں،عوام اداروں کے ساتھ ہیں،عوام عدلیہ کے ساتھ ہیں،عوام صحافیوں کے ساتھ ہیں،عوام کھلاڑیوں کے ساتھ ہیں،عوام کیلئے پارلیمنٹ اوراس کے مکین مقدس گائے ہیں،عوام کیلئے عدالتیں پاکیزہ مقامات جبکہ جج صاحبان پاک دامن فرشتے ہیں،اداروں کے مزاج کیخلاف بات کرناگناہ کبیرہ ہے،عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں پھربھی مہنگائی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی چلی جارہی ہے،ملک میں کاروبارنام کی کوئی چیزنہیں،تین سونوکریوں کیلئے دس لاکھ نوجوان لائن میں لگ جاتے ہیں،سکول،کالج اوریونیورسٹیاں بزنس مین پیداکرنے کی بجائے فقط ملازمین بنانے کی مشینیں بن کے رہ گئی ہیں،ضروریات زندگی کے ساتھ جان بچانے والی ادویات بھی بیماروں کی پہنچ سے دورہوچکی ہیں ایسے میں میڈیابتارہاہے بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی پاسداری نہیں کی بغیراطلاع دیئے فلاں فلاں دریاؤں میں اضافی پانی چھوڑدیاہے اور مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم میں شدیداضافے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں ،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں اُن کاساتھ دینے کیلئے پاکستانیوں کاصحت مندہوناضروری ہے جبکہ اس وقت حالات و واقعات یہ بتارہے ہیں کہ 95فیصدپاکستانی انتہائی بیماریعنی ذہنی طورپرمفلوج ہوچکے ہیں وہ نہیں جانتے کہ ان کی زندگی کے معاملات کیسے چلیں گے،نوکری ملے گی نہیں ملے گی،کاروبارچلے گانہیں چلے گا،یہ مان لیاجائے کہ بھارت نے بغیراطلاع دیئے پانی چھوڑدیاجس کی وجہ سے ہم بروقت احتیاطی انتظامات نہیں کرسکے توکراچی شہرمیں پھیلے کچرے،کیچڑاورسیوریج کے خراب نظام کی ذمہ داری بھی بھارت پرہی ڈال دینی چاہیے تاکہ عوام بھارت اورمودی کودی جانے والی گالیوں میں کچھ اوراضافہ کرکے اپنی حکومت،سیاستدانوں،عدالتوں اوراداروں پرفخرجاری رکھنے کی کوشش کرتے رہیں،وہ کون سادور ہے جس میں عام شریف شہریوں سے ٹیکس ہی نہیں بلکہ مختلف بہانوں سے فنڈنہیں لئے گئے؟کیاحکومتیں،عدلیہ اورادارے یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں سب شہری بجلی،گیس سمیت تمام وسائل چوری کریں؟کاروباری ملاوٹ،دونمبراورناپ تول میں کمی کریں،ملازمین رشوت لیتے رہیں یاکوئی نظام عدل ایسابھی قائم کیاجاسکتاہے جوچوروں کوسزادے کرشریف شہریوں کوسہولیات فراہم کرے؟حکومتیں بھارت سازشوں اورعوام اپنے حکمرانوں کیخلاف سراپااحتجاج ہیں جبکہ احتجاج کسی بھی مسئلے کاحل نہیں،بھارتی سازشوں اورمسئلہ کشمیرمتعلقہ ادارے دیکھیں اوراندورنی مسائل کے حل کیلئے منتخب حکمران سنجیدہ ہوں توبہتری آسکتی ہے،یہ سچ ہے کہ پاکستانی قوم کابچہ بچہ کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کاحامی اورسپورٹرہے اورقوم مشکل حالات کے باوجود بھارت کیخلاف اپنی حکومت اوراداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے،نہ ہم لڑنے سے گھبراتے نہ مرنے سے پراب ہمیں یہ جان لیناچاہیے کہ بھارت احتجاج یاامن کی زبان نہیں سمجھے گااسے آنکھیں دیکھاناپڑیں گی یعنی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے-
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.