آج بہت کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا
ہے لیکن دماغ اور ہاتھ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے ۔بار بار ان کے
درمیان رابطہ منقطع ہورہا ہے۔اس منحوس ساعت کا اثر ختم ہونے کا نام نہیں لے
رہا جب یہ سنا کہ دو پاکستانیوں کا باضابطہ اور سینکڑوں کو غیر سرکاری طور
پر قاتل ریمنڈ ڈیوس رہا کر کے ملک سے باہر پہنچا دیا گیا ہے۔اس ٹھیلے والے
کی آواز لگتا ہے کانوں میں آکر رک گئی ہے جس نے یہ خبر سنائی تھی۔ ابھی
کینو لینے کیلئے رکا ہی تھا کہ وہ اپنے ساتھی ٹھیلے والے سے مخاطب ہوا اور
کہا کچھ سنا تم نے وہ امریکی کو چھوڑ دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی اس کی
آنکھوں میں آنسو امڈ آئے جیسے وہ امریکی اس کے کسی قریبی عزیز کا قاتل ہو
۔جیسے اس کا عمر بھر کا سرمایہ لٹ گیا ہو۔اس کے الفاظ سن کر تو میرے حواس
نے بھی لگتا تھا کہ کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ
پوچھتا موبائل بجا۔ایک دوست کا ایس ایم ایس تھا جس میں اس نے بھی پوری قوم
پر بجلی بن کر گرنے والی یہ خبر بھیجی تھی۔ اس تصدیق کے بعد اب اس ٹھیلے
والے سے سوال کرنے کا ارادہ ترک کردیا ۔ میں سوچنے لگا اس ملک نے اس ٹھیلے
والے کو کیا دیا ہے۔یہ تو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی صحیح کھلا پاتا
ہوگا۔ایک پیٹی خراب نکل آئے۔ہنگامہ میں ٹھیلہ الٹا جائے یا ہڑتال کے باعث
وہ روڈ پر نہ نکل سکے تو اس روز اسے فاقے کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ اس کے
بچے اسکول کے بجائے کسی ورکشاپ میں اوزاروں سے ’کھیلتے ‘ ہوں گے۔لیکن پھر
بھی اسے اس ملک سے اتنی محبت ہے کہ ریمنڈ کی رہائی کی خبر ساتھی کو سناتے
ہوئے وہ آبدیدہ ہوگیا ۔دوسری طرف وہ طبقہ ہے جسے اس ملک نے فیتے لگائے
۔جنہیں بڑے بڑے ایوانوں تک پہنچایا۔جو بڑے بڑے پروٹوکول میں گھومتے ہیں ۔
جنہیں ان کی مدت سے بھی زیادہ اس قوم نے برداشت کیا ۔جو ابھی کہیں جانے
کیلئے تیاری ہی شروع نہیں کرتے لیکن پہلے سے ان کیلئے سڑکیں بند کردی جاتی
ہیں ۔ جن کے اٹھنے بیٹھنے لیٹنے تک کے اخراجات یہ قوم برداشت کرتی ہے۔
جنہوں نے اس ملک کے وسائل پر ہاتھ صاف کر کے بیرون ملک محلات کھڑے کر لئے
ہیں ۔جن کے اکاوئنٹس میں ڈالروں کے انبار جمع ہیں ۔جو بار بار دھوکہ دیتے
ہیں۔لوٹتے ہیں لیکن پھر بھی یہ قوم انہیں بار بار مو قع دیتی ہے ۔ کیا
انہیں اس ملک سے اتنی بھی محبت نہیں کہ وہ ایک امریکی قاتل پر ہی سودے بازی
نہ کرتے ۔ اس قوم کا کوئی تو بھرم رکھ لیتے ۔کوئی تو ایسی چیز چھوڑ دیتے جس
پر یہ قوم بھی ناز کرسکتی ۔
پھر ذہن میں مختلف بیانا ت گردش کرنے لگے ۔وزیراعظم گیلانی کے وہ جملے کہ
ہم سے بڑا کوئی محب وطن نہیں۔ریمنڈ کو رہا کرنے کیلئے کوئی آؤٹ آف دا وے
طریقہ نہیں اپنائیں گے۔وہ شہباز شریف کے میز پر مکے مار کر قومی غیرت پر
لیکچر دینا ۔پاکستانیوں کے خون کے سودے نہ ہونے دینے کے دعوے۔وہ قومی
اداروں کے سربراہان کے خطاب جن میں وہ ملک اور ہم وطنوں کی عزت اور وقار کے
تحفظ کی باتیں کرتے ہیں، وہ امریکی سفیر کی عمران خان اور چوہدری نثار سے
ملاقاتوں کے کلپس،نواز شریف اور شہباز شریف کا اچانک لندن چلے جانا
،وزیراعظم کا کرغزستان کے دورے پر ہونا یہ سب ذہن کی اسکرین پر ایک کے بعد
ایک کرکے آرہی تھیں ۔لگ رہا تھا کہ اس قوم کو سب نے مل کر دھوکہ دیا
ہے۔امریکی خوشنودی حاصل کرنے پر سب میں مفاہمت ہے۔کیر ی لوگر بل کا معاملہ
ہو یا ریمنڈ کا اگر ان میں کوئی اختلاف تھا بھی تو اس پر کہ امریکہ سے کون
ڈیل کرے۔اس کی قربت زیادہ کسے حاصل ہو۔یہ قومی مفاد ،ملی غیرت سب ڈھکوسلے
ہیں ۔اس قوم کو دئیے گئے لالی پو پ ہیں۔ پھر ذہن ان بزرگوں کی باتوں کی طرف
چلا گیا جنہوں نے اپنی عمر کا ایک حصہ برطانوی نوآبادی کی حیثیت سے گزارا
تھا ۔نہ جانے کیوں مجھے آج ان بزرگوں جن میں سے ایک کے سوا سب اب اپنی آخری
آرامگاہوں میں جاچکے ہیں کی ان زندگیوں پر رشک آنے لگا جو انہوں نے برطانوی
نو آبادی میں گزاری تھیں۔ان کی باتیں یاد آنے لگیں کہ انگریز بہت انصاف
پسند تھے ۔ان کے دور میں بہت امن تھا ۔خوشحالی نہ بھی سہی تو اتنی بدحالی
بھی نہیں تھی کہ کوئی بھوکا سوئے ۔کوئی روٹی نہ ملنے پر اپنے بچوں سمیت
خودکشی کر لے۔مجھے لگا کہ ہم پر مسلط کالے انگریزوں سے تو وہ گورے انگریز
اچھے تھے۔وہ منافقت تو نہیں کرتے تھے ۔انہوں نے ہمارے اور اپنے لئے برملا
الگ قانون بنا رکھے تھے۔ وہ یہ دعوے تو نہیں کرتے تھے کہ سب کا خون برابر
ہے۔وہ جب وائسرائے بھیجتے تھے تو ان کے بچے بھی ساتھ آتے تھے لیکن ہمارے
کالے وائسراوں نے تو بچے بھی باہر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یہاں کی دولت لوٹتے
تھے تو کچھ حصہ یہاں بھی تو لگاتے تھے ۔یہ ان کے جانشین تو سب کچھ باہر لے
جانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنی رعایا کا خون ان کیلئے سستا ہی ہوتا
ہوگا لیکن وہ کسی دوسرے ملک کو تو یوں اپنی نوآبادی کے شہری مارنے کی اجازت
نہیں دیتے ہوں گے ۔اور اگر کوئی مار دے تو اسے اتنا سستے میں تو نہیں
چھوڑتے ہوں گے۔
کیا قیمت لگائی ہے ہماری اشرافیہ نے تین پاکستانیوں کے خون کی ۔امریکی
میڈیا کے مطابق صرف ۶ کروڑ روپے یعنی زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ بیس ہزار
ڈالر فی کس ۔اس حساب سے توہ م پندرہ کروڑ پاکستانیوں کی کیا قیمت بنتی
ہے۔صرف چند ٹریلین ڈالر ۔ اور اگر امریکہ ہول سیل ریٹ پر آیا تو اس سے سستے
میں بھی ہمیں بیچا جاسکتا ہے ۔ایمل کانسی کی حوالگی کے وقت ایک امریکی
رہنما نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالر کیلئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔اس وقت
اس کی بات پر بڑا غصہ آیا تھا لیکن ہماری اشرافیہ نے اس کے کہے کو صحیح
ثابت کردیا ہے۔پہلے افغان سفیر ملا ضعیف کو امریکہ کے حوالے کر کے اس قوم
کی منہ پر کالک ملی گئی تھی اور اب ریمنڈ کو رہا کر کے اس سیاہی کو مزید
پختہ کردیا گیا ہے۔
کیا کسی کو پتہ ہے کہ اس سودے بازی پر قوم کیا کہہ رہی تھی۔ہمارے ایک دوست
کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے ملکی مسائل کے حل کیلئے سیاستدانوں ،عدلیہ
اور فوج کے ایک ہونے کی جو تجویز دی تھی ،اس پر عمل ہی تو ہوا ہے،ایک طرف
سے آواز آئی کہ بھائی ملازمتوں میں توسیع ایسے تھوڑی ملتی ہے ۔ایک اور بولا
یہ این آر او کی انشورنس ایسے تھوڑی ہوئی ہے ۔اس کا پھل جس جس کو ملا ہے وہ
امریکہ کا شکر گزار ہے۔کسی کو آزاد عدلیہ سے شکایت تھی کہ سپریم کورٹ نے اس
اہم معاملے کا نوٹس کیوں نہ لیا۔کوئی کہہ رہا تھا کہ ریمنڈ کو بگرام ہی تو
لے جایا گیا ہے ۔ضروری نہیں کہ اسے امریکہ لے جایا جائے ۔اس نے پاکستان میں
دہشت گردی اور جاسوسی کا جو نیٹ ورک بنایا تھا ۔ وہ سرمایہ کاری امریکہ
ضائع تھوڑی ہونے دے گا۔ اسے پاکستان سے ملحقہ کسی افغان صوبے میں بھی تو
بٹھایا جاسکتا ہے جہاں سے وہ آسانی کے ساتھ اپنا نیٹ ورک چلا سکتا ہے۔اب اس
کی رہائی کے بعد تو اس کے ساتھیوں کے حوصلے بھی بلند ہوگئے ہوں گے ۔اب تو
وہ زیادہ دیدہ دلیری کے ساتھ ہم پاکستانیوں کا شکار کرنے نکلیں گے۔ایک طرف
سے آواز آئی شہباز شریف نے سچ ہی تو کہا ہے کہ یہ نہ کہا جائے کہ وہ بھاگ
کر لندن آگئے ہیں۔ان کی حکومت نے تو کچھ نہیں کیا۔واقعی وہ بے چارے تو بے
قصور ہیں ۔انہوں نے تو کچھ نہیں کیا ۔جو کچھ ہدایت کار نے انہیں بتایا تھا
وہ تو اس کے مطابق فلم بناتے رہے ۔اب قوم کو انجام پسند نہیں آیا تو ان سے
گلا نہ کرے۔ہمارے ایک سینئر کا کہنا تھا کہ ریمنڈ کی رہائی تصویر کا ایک رخ
ہے ۔ایسے ہی اسے نہیں چھوڑا گیا ہوگا ۔ضرور ملکی مفاد میں کوئی ڈیل ہوئی
ہوگی۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈیل میں پاکستانیوں کی اشک شوئی کیلئے عافیہ
کی رہائی بھی شامل ہوگی۔لیکن سابقہ تجربات کی روشنی میں دل نہیں مان رہا
تھا۔ وکی لیکس کے انکشافات آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ پھر وہ جنرل ضیا
الحق ،اختر عبدالرحمن اب قبروں میں جا کر سو چکے ہیں جو امریکیوں کو ہانکتے
تھے ۔جو ڈکٹیشن لیتے نہیں دیتے تھے ۔جو امریکیوں کو ملاقات کا وقت دینے
کیلئے بھی بسا اوقات ایک ایک ہفتہ انتظار کرواتے تھے ۔اب تو ہم راہیں کشادہ
کئے ان کا انتظار کرتے ہیں ۔وہ نہ آئیں تو پریشان ہوجاتے ہیں اور خود بن
بلائے چل پڑتے ہیں۔وہ عالمی ویژن رکھتے تھے ،ہمارا پالا اب ایسی قیادت سے
ہو جو سیلف ویژن رکھتی ہے۔جن کا سب سے بڑا مقصد اپنی کرسیوں کا تحفظ ہے۔
مایوسی کے اس عالم میں تھا کہ یکدم خیال آیا کہ ریمنڈ کو رہا کرانے والوں
کی مہلت عمل کتنی رہ گئی ہے ۔ان میں سے زیادہ تو ساٹھ کے پیٹے میں ہیں ۔اور
کتنا یہ جی لیں گے۔دس ،بیس برس زیادہ سے زیادہ چالیس برس بس ۔پھر تو ہم بھی
ان سے حساب لینے کے قابل ہوجائیں گے ۔خالق کائنا ت کے حضور تو انہوں نے بھی
ہماری طرح چند گز کپڑے میں ہی جانا ہے ۔وہاں ہم پندرہ کروڑ عوام جب ان کا
گریبان پکڑیں گے تو کون انہیں چھڑائے گا۔یہ ہلیری کو پکاریں گے یا اوباما
کو ،مائیک مولن کو آواز لگائیں گے یا پٹریاس کو ۔وہاں ان کے یہ دوست ان کے
کام آسکیں گے اور نہ بیرونی اکاؤئنٹس میں چھوڑی ہوئی دولت ۔ وہاں قوم کے ان
سوداگروں کو پورا پورا حساب دینا ہوگا۔وہ رب العالمین تو ان سے اپنے بندوں
کو ناحق قتل کرنے والوں کو چھوڑنے کا حساب لے گا ہی لیکن اس کے ساتھ انہیں
قوم کو بھی وہاں جواب دینا پڑے گا۔پھر وہ مرحلہ تو مرنے کے بعد آنا ہے
زندگی میں ہی انہیں دنیا کس نام سے یاد کرے گی ۔وہ اپنی اولادوں کو کون سا
افتخار دے رہے ہیں ۔لوگ ان کی طرف اشارے کر کے کیا کہیں گے کہ یہ فلاں
شخصیت کی اولاد ہے جس نے ریمنڈ کی رہائی کا سودا کیا تھا ۔تاریخ ان کا نام
کس فہرست میں ڈالے گی۔آئندہ آنے والی نسلیں ان کا نام کن لفظوں میں پکاریں
گی۔افسوس اس ڈیل میں شامل ہونے والوں نے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے اس قوم
کا دل توڑ دیا ۔وہ جو ایٹمی دھماکے کرنے کا فخر سینے پر سجائے گھومتے تھے
۔جنہیں تاریخ نے اچھے لفظوں سے یاد کرنا تھا انہوں نے بھی اپنے ہاتھ اس
سیاہی میں کالے کرلئے۔اب تاریخ میں ان کی شناخت ریمنڈ کی رہائی کیلئے ڈیل
کا حصہ بننے والوں میں ہوگی۔
کیا ریمنڈ کو رہا کرنے والوں نے یہ سوچا ہے کہ قوم کو انہوں نے کتنے بڑے
صدمے سے دوچار کیا ہے۔ لوگوں کا ریاست پر اعتماد متزلزل کر نے کے اثرات
کتنے خطرناک نکل سکتے ہیں۔ ملک کو اربوں ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ فراہم
کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانی کس طرح دوسرے ملکوں کے شہریوں کا سامنا
کریں گے۔ بھارتی باشندے جب انہیں بکاؤ مال ہونے کے طعنے ماریں گے تو ان کے
دل پر کیا گزرے گی ۔سی آئی اے کے ایک سابق عہدیدار نے کہا ہے کہ ریمنڈ کی
رہائی پر امریکیوں قہقہے ضرور بلند کرنے چاہیں لیکن اس کے طویل المدت اثرات
امریکہ کیلئے اچھے نہیں ہوں گے کیوں کہ امریکہ کیخلاف پاکستانی عوام میں
ردعمل مزید بڑھے گا ۔۰۹ فیصد پاکستانی پہلے ہی امریکہ کو پسند نہیں کرتے
۔لیکن میرا خیال ہے انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔۰۹ کیا ۸۹ فیصد
پاکستانی بھی امریکہ کیخلاف ہوجائیں تو ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیوں
کہ انہوں نے ہمارے دو فیصد حکمران طبقے کو اپنی جیبوں میں ڈالا ہوا ہے۔رہی
ردعمل کی بات تو اس کا فائدہ بھی امریکہ کو ہی ہونا ہے۔ریاست کیخلاف مایوسی
سے جو ردعمل پیدا ہوگا جو انتہا پسندی بڑھے گی ،اس کا فائدہ ملک میں موجود
ریمنڈ ڈیوس کے ساتھیوں کو ہی ہوگا ۔ انہیں مزید پاکستانی نوجوان اپنے مقاصد
کیلئے دستیاب ہوجائیں گے۔ جس کا نتیجہ مزید دھماکوں اور پھر ان کے جواب میں
مزید آپریشنز کی صورت میں نکلے گا ۔دونوں طرف پاکستانیوں کا خون بہے گا۔ملک
میں استحکام نہیں آسکے گا۔لہٰذا امریکیوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
۔ریمنڈ نے جتنے دن جیل میں گزارے ہیں اس کا انہیں نقصان نہیں بلکہ فائدہ
ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیوں کہ ہم بدقسمت پاکستانی بے قیادت ہوچکے ہیں۔ہماری
کوئی سمت نہیں رہی۔ |