روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ
لگاکر برسر اقتدر آنے والی پی پی حکومت نے عوام پر 53 ارب کے نئے ٹیکس
لگاکر ثابت کردیا ہے کہ وہ شہریوں کے منہ سے لقمے کا آخری نوالہ بھی چھیننے
کا تہیہ کیے ہوئے ہے، صدر آصف زرداری کی جانب سے 15 مارچ کو جاری کیے گئے 3
آرڈیننسوں کے تحت انکم ٹیکس پر 15 فیصد فلڈ سرچارج، پر تعیش اشیاء پر
ایکسائز ڈیوٹی ایک فیصد سے بڑھاکر ڈھائی فیصد عائد جبکہ ٹیکسٹائل مصنوعات،
کھیلوں کے سامان، سرجیکل آلات اور قالین پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی
ہے۔ اس کے علاوہ ٹریکٹروں ، مشینری اور کرم کش ادویہ پر بھی 17 فیصد ٹیکس
لگا دیا گیا ہے۔ فلڈ ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے موبائل فون انڈسٹری پر لاگو
”ود ہولڈنگ ٹیکس“ بھی 15 فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ جبکہ ٹیکس میں اضافے کا
اطلاق 16 مارچ سے ہوچکا ہے۔ ٹیلی کام انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق انکم ٹیکس
ترمیمی آرڈیننس 2011ء کے تحت موبائل فون کمپنیوں پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس 10
فیصد سے بڑھاکر ساڑھے 11 فیصد کردیا گیا ہے۔ اس طرح فلڈ ٹیکس کے اطلاق کی
وجہ سے 10 فیصد ٹیکس کا 15 فیصد مزید وصول کیا جائے گا۔ جبکہ موبائل فون
کمپنیاں پری پیڈ کارڈ پر پہلے ہی 5فیصد سروس چارجز لے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ
19فیصد ایکسائز ڈیوٹی بھی وصول کی جارہی ہے۔ اب ود ہولڈنگ لگانے سے مجموعی
طور پر 31 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ 100 روپے کا کارڈ خریدنے پر صارف کے
36 روپے کٹ جائیں گے یوں 100 روپے کے کارڈ پر صارف کو محض 64روپے کا کریڈٹ
ملے گا۔
لاہور ہائیکورٹ میں اس صدارتی حکم نامے کو چیلنج کردیا گیا ہے اور مسلم لیگ
(ن ) نے بھی فلڈ سرچارج کی منسوخی کے لیے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں قرار
داد جمع کرا دی ہے۔ حکومت نے منی بجٹ پیش کرنے کا جواز دیتے ہوئے کہا ہے کہ
اس وقت چونکہ قومی اسمبلی اوربجٹ کے اجلاس منعقد نہیں ہورہے ہیں اس لیے ان
آرڈیننسوں کے ذریعے نئے ٹیکسوں کا فوری طور پر نفاذ کیا جارہا ہے۔ اس اقدام
سے حکومت کو ایک کھرب 20 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ پہلے سے ٹیکس دینے والے
غریب عوام پر مزید ٹیکسوں کے نفاذ سے حکومت کی عوام دشمنی ثابت ہوگئی ہے۔
حکمران اپنے شاہانہ اخراجات پر پابندی عائد کرتے اور زرعی پالیسیوں میں
بہتری لاکر عوام کو ریلیف دیتے تو اس ظالمانہ اقدام سے بچا جاسکتا تھا مگر
ان مفاد پرست سیاست دانوں کو اپنے اللّوں تللوں سے فرصت نہیں اور نہ ہی وہ
شاہانہ طرز زندگی چھوڑنے کو تیار ہیں کہ مہنگائی تلے دبی قوم کے زخموں،
دکھوں اور محرومیوں کا ازالہ کرسکیں۔ جی ایس ٹی اور آر جی ایس ٹی کی
پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد حکومت نے جس بھونڈے طریقے سے صدارتی
حکم نامے کے ذریعے عوامی حقوق پر ڈاکا مارا ہے۔ اس سے اس کے عوامی اور
جمہوری ہونے کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے۔ جمہوری نظام کا کمال تو دیکھیے
کہ عوام پر 53 ارب کے ناروا ٹیکس عائد کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور عوامی
نمائندوں سے مشاورت تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ تو پھر پارلیمنٹ،
انتخابات اور عوامی نمائندوں کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ
جمہوری دور حکومت میں صدارتی آرڈیننس کے اجراء نے دورِ آمریت کی یاد تازہ
کردی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر قوم کا خون نچوڑنے کے
لیے کمر کس لی ہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوگئی ہے کہ حکمران اپنے ہی
شہریوں کو دیوار سے لگانے کے لیے غیروں کے پے رول پر کام کر رہے ہیں۔
صدارتی آرڈیننسوں کا اجراء عین اس وقت کیا گیا جب صوبہ سندھ میں صوبائی
وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے تندو تیز بیانات اور پیپلزپارٹی امن کمیٹی کی
سرپرستی کے اعلان کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کی دھمکیوں
سے پیدا ہونے والی صورتحال پر مذاکرات کامیابی کے آخری مراحل میں تھے۔ اس
صورتحال پر بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلقات بحال
ہوتے ہی پیپلزپارٹی کی حکومت نے عوام کو 53 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کا
”تحفہ“ دیا۔
متحدہ قومی موومنٹ ماضی میں فلڈ سرچارج، ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس اور
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کرتی رہی ہے اور کئی نکاتی
میثاق معیشت بھی حکومت کو پیش کرچکی ہے لیکن اس بار ایم کیو ایم نے بھی ”پر
اسرار“ طور پر ہونٹ سی رکھے ہیں۔ متحدہ کے سربراہ الطاف حسین نے یوم تاسیس
کے جلسے میں اپنے خطاب کو امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس، ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ڈرون
حملوں اور بلوچستان کی صورتحال تک محدود رکھا۔ انہوں نے بھی عوام میں پائے
جانے والے امریکا مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن نئے ٹیکسوں
کا معاملہ حیرت انگیز طور پر ان کے خطاب میں کہیں نظر نہیں آیا۔ جس سے عوام
میں یہ تاثر تقویت پارہا ہے کہ ایم کیو ایم نے حکومت سے اس معاملے پر
احتجاج نہ کرنے کا سمجھوتا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد
حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے کہا ہے ایم کیو ایم جواب دے کہ ایسے
حالات میں وہ حکومت سے کیوں راضی ہوئی جب حکومت نے 53ارب روپے کے نئے ٹیکس
لگائے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ نواز، ق لیگ، جے یو آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی
طرف سے بھی صدارتی آرڈیننسوں کے خلاف کوئی قابل ذکر احتجاج سامنے نہیں آیا۔
یا یوں کہیے کہ ان ظالمانہ اور عوام دشمن اقدامات سے کسی بھی جماعت کی
قیادت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تو کیوں؟ سب نے اتنے اہم معاملے پر
یوں چُپ سادھ رکھی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں یا یہ معاملہ اہمیت کا حامل ہی
نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے سیاست دان آپس میں چاہے
ایک دوسرے کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں لیکن بات جہاں ذاتی مفاد یا قوم کو
لوٹنے کی آئے پھر یہ سارے ایک ہوجاتے ہیں۔ بظاہر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا
جارہا ہوتا ہے مگر درون خانہ حکمرانوں سے ڈیل کر کے اپنے ووٹروں اور عوام
کو دھوکا دیا جارہا ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت نے نئے
ٹیکسوں کے اعلان کے لیے بھر پور پلاننگ کی اور اس کے لیے ایک ایسے وقت کا
انتخاب کیا کہ صدارتی حکم نامے کے اجراء کے اگلے ہی روز امریکی دہشت گرد
اور سی آئی اے کے کنٹریکٹر کو رہا کردیا۔ اب پوری قوم ریمنڈ کے معاملے پر
ماتم کناں ہے اور کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ ایک بار پھر معاشی قیامت ٹوٹ
چکی ہے۔ یوں ٹیکسوں کا معاملہ دب کر رہ گیا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
حکمرانوں نے عوام کو لوٹنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے زبردست منصوبہ بندی
کی تھی۔ شاید اسی بنا پر نئے ٹیکسوں کے اعلان کے بعد وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی مطمئن ہوکر کرغیزستان کے دورے پر نکل گئے تھے۔
ہمارے حکمران ڈانوا ڈول ہوتے اقتدار کے استحکام کے لیے اتحادی جماعتوں کے
در کے چکر تو کاٹتے ہیں، جب بھی انہیں اپنا اقتدار غیر محفوظ لگنے لگتا ہے
تو اندرون و بیرون ملک دوڑ لگ جاتی ہے اور مذاکرات کے دور پر دور شروع
ہوجاتے ہیں۔ لیکن قوم کو ریلیف پہنچانے یا مالی بحران پر قابو پانے کے لیے
یہ اپنے اللے تللے ختم کرنے کی قربانی نہیں دے سکتے۔ غیر ضروری اخراجات میں
کمی کے لیے عملی اقدام پر یہ کبھی راضی کیوں نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنے اداروں
سے کرپشن کا خاتمہ کرلیں اور ہمارے نامی گرامی سیاست دان اپنا سرمایہ ملک
واپس لے آئیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف جیسے سود خور
اداروں اور اتحادی ممالک کے آگے جھولی نہیں پھیلانی پڑے گی۔ یہ خدشہ بھی
ظاہر کیا جارہا ہے کہ فلڈ سرچارج لگانے کے بعد آنے والے دنوں میں کرپشن
ٹیکس بھی لگ سکتا ہے اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت
ہی کرے گا۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ روٹی، کپڑے اور مکان کا پُر فریب نعرہ
لگاکر لوگوں سے بنیادی ضروریات زندگی چھیننے کے بعد کیا اب بھی پیپلزپارٹی
کے پاس حکمرانی کا کوئی جواز باقی رہ گیا ہے؟؟۔ |