کراچی کے سیاسی افق پر گزشتہ
ہفتہ کی’ ٹاپ سٹوری‘پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان دوبارہ
مفاہمت ہونا تھی اور اس مفاہمت کیلئے صدر آصف علی زرداری کو خود کراچی جانا
پڑا جبکہ وزیرداخلہ رحمن ملک خصوصی مشن پر لندن گئے ہوئے تھے،بہرحال محنت
رنگ لائی اور فریقین کے مابین اس بات پر اتفاق ہوا کہ وزیر داخلہ سندھ
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جس آستانے پر کھڑے ہو کر شیر اور بد معاش ہونے کی نوید
سناتے تھے اس ’آستانے‘یعنی پیپلز امن کمیٹی کے دفاتر کو ہی بند کر دیا جائے
کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،اب دیکھنا یہ ہے کہ ذولفقار مرزا جو اتوار کے
ا توار خصوصی خطاب فر ماتے ہیں اب کے بار وہ کس درخت کی شاخ کی بنی بانسری
بجائیں گے۔اس صوبائی مفاہمت کی خوشی میں ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کا
بائیکاٹ ختم کردیا اور جب متحدہ کے ارکان ایوان میں داخل ہو ئے تو پیپلز
پارٹی کے ارکان نے ڈیسک بجاکر ان کا استقبال کیا تاہم ان ڈیسک بجانے والوں
میں ذوالفقار مرزا نہیں تھے کیونکہ وہ اجلاس سے غیر حاضر تھے۔اسمبلی کی
کاروائی کے دوران پی پی اور متحدہ کی مفاہمت پر متفقہ قرار داربھی منظور
ہوئی اور ارکان کی تقاریر میں خوشی اور سنجیدگی بھی دیکھی گئی ، ارکان کا
کہنا تھا کہ صدر زرداری اور الطاف بھائی نے2بھائیوں کے درمیان دوریاں ختم
کی ہیں، ہم متحد رہے تو سندھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، مفاہمت سے
صوبے میں نئے باب کا آغاز ہوگا تاہم دو بھائیوں اور انکی جماعتوں کے درمیان
مفاہمت سے قوم کو 3آرڈینسز کا تحفہ ملا جو سب خوشی میں بھول گئے کہ ایف بی
آر اب انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس اور سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نئے شیڈول کے تحت
عوام سے اربوں روپے وصول کریگی اور نئی نئی مانی متحدہ قومی موومنٹ نے
پٹرول کی قیمتوں پر احتجاج کی طرح اس بار البتہ خاموشی اختیار کر لی ......ادھر
متحدہ قومی موومنٹ نے 18مارچ کو اپنا27واں یوم تاسیں بھی منا لیا اس موقع
پر الطاف حسین نے اپنے خصوصی خطاب میں حکومت کو پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ
ڈرون حملے روکنے کے لئے 10 لاکھ نوجوان حاضر ہیں، امریکہ کو آقا نہیں مانتا
،اقتدار میں آئے تو ڈرون حملے بند اور ملک کو قرضوں سے چھٹکارا دلائیں گے ۔
دریں اثناء مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کا اہل سنت کے ساتھیوں کے
ہمراہ دارالعلوم امجدیہ سے مشترکہ ا علامیہ کا اجراء خصوصی اہمیت کا حامل
ہے جس میں انہوں نے ایم کیو ایم سے کئی سوال کئے۔ مفتی منیب کا کہنا تھا کہ
متحدہ کی قیادت’ ٹارگٹ کلنگ‘ کے سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرے۔ کیا کراچی
کی واحد نمائندہ جماعت سمجھنے والوں پر علماء کے تحفظ کی ذمہ داری عائد
نہیں ہوتی ۔اہلسنت وجماعت مفاداتی جنگ میں فریق ہے نہ ہی کسی سیاسی و مسلکی
گروہ سے تصادم ہے ۔واضح رہے کہ کراچی میں گزشتہ کچھ عرصہ میں مختلف واقعات
کے دوران نصف درجن کے قریب اہلسنت وجماعت کے علمائے کرام کو شہید کر دیا
گیا۔
کراچی میں گزشتہ ہفتے بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا اور یہ تعداد بعض
اوقات دو ہندسوں میں بھی سامنے آئی ہے۔ امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث
ہی کراچی کے17ٹیکساٹل یونٹ بند اور اربوں روپے کا سرمایہ بنگلہ دیش منتقل
ہوچکا ہے جبکہ ہزاروں مزدور بے روز گار ہو چکے ہیں۔عدالتی افق کی اگر بات
کریں تو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اسمبلی میں کہا کہ گزشتہ دنوں
سندھ بھر میں سید دیدار حسین شاہ کی تقرری کالعدم قرار دینے کے خلاف جو
ہڑتال ہوئی وہ لوگوں کا انفرادی فیصلہ تھا، عوام اچانک سڑکوں پر آ گئے۔ ان
کا کہنا تھا کہ انکی حکومت عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور یہ ہڑتال سندھ
حکومت یا پیپلز پارٹی نے نہیں کرائی ،حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پی پی سندھ
کے ایک عہدیدار جنہوں نے ماضی قریب میں تیسری شادی کی،کا بیان ہڑتال کا
باعث بنا اوران کے ڈور کس نے ہلائے یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ ادھر 16مارچ کو
یوم تشکر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس شیر عالم
نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی سے فائدہ اٹھایا جائے ایسا نہ ہو یہ لہر سونامی
میں بدل جائے ۔احتساب سب کا ہونا چاہیے مجھ سمیت تمام جج صاحبان قوم کے
سامنے جوابدہ ہیں ۔ دریں اثناء حیدر آباد جیل میں 7قیدیوں کی ہلاکت کا
واقعہ تاحال حل طلب ہے جبکہ شہر کراچی میں آج کل دودھ فروشوں کی چل رہی ہے
اور حکومت من مانے نرخ مانگنے والوں کے سامنے عملاً بے بس ہو چکی ہے، گورنر
سندھ اگر کہتے ہیں کہ دودھ کی قیمتیں فوری کم کی جائیں تو وزیر اعلیٰ صاحب
فرماتے ہیں کہ اضافہ منافع خوروں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے جبکہ ڈی سی او
محمد حسین سید نے عوام سے اپیل کردی ہے کہ وہ دودھ فروشوں کو 59روپے فی لٹر
سے زیادہ نہ دیں دیکھیں سفید انقلاب کیا رنگ لاتا ہے؟ |