طلاق ثلاثہ پر شاہ جی کا خوشامدی پروچن

مرکزی وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ فی الحال سپر مین بنے ہوئے ہیں ۔ دہلی کے اندر تین طلاق کے موضوع پر منعقدہ ایک بھاشن میں انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے ناز برداری کی سیاست کے پیش نظر اپنا ووٹ بینک تیار کرنے کے لیے طلاق بدعت (تین طلاق) کو روکنے کے خلاف قانون بنانے میں مسلسل رکاوٹیں ڈالیں۔اس سیاست نے قوم کوبہت نقصان پہنچایا ۔ اس کے بعد مرکزی وزیرنے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے کہہ دیا کہ شاہ بانو معاملہ میں راجیو گاندھی حکومت نے تین طلاق کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے عزم اور سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ شاہ بانونے دراصل تین طلاق کو لے کرعدالت سے رجوع نہیں کیا تھا بلکہ وہ طلاق کے بعدنان نفقہ طلب کررہی تھیں اور جب ان کو اس بات کا پتہ چلا کہ یہ شریعت کے خلاف ہے تو انہوں نے اپنا دعویٰ واپس لے لیا ۔ ایک ناخواندہ شاہ بانو کو تو یہ معلوم ہوگیا لیکن وزیرداخلہ شاہ جی اس سے ناواقف ہیں ۔ انہوں نے ۶۰ مسلم ممالک میں طلاق ثلاثہ پر پابندی کا ذکر تو کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس ملک میں تین طلاق تعذیری جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو تین سال کی سزا ہے؟
 
مشیت کا یہ عجیب انصاف ہے کہ جس دن شاہ جی نے یہ احمقانہ پروچن دیا اسی دن اتر پردیش میں وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کے گورکھپور ضلع کے اندر عجیب و غریب واقعہ منظر عام پر آگیا جس نے امیت شاہ کے غبارے کی ہوا نکال دی ۔ پپرائچ گاوں کا ایک عاشق ۲۲ جولائی کو اپنی شادی شدہ معشوقہ کو لے کر فرار ہو گیا ۔ اس معاملہ میں مداخلت کی گئی تو خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنے عاشق کے ساتھ ہی رہے گی۔ اس طرح کی نازیبا حرکت اول تو کوئی مسلمان نہیں کرتا لیکن اگر بفرضِ محال ایسا ہوبھی جاتا تو اس بدکردار عورت کا شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے کر اپنی جان کی چھڑا لیتا اور وہ فاحشہ اپنے معشوق کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے آزادہوجاتی لیکن اس نئے نام نہاد انصاف پسند قانون کےبعد بے قصور شوہر کو بلا وجہ تین سال کی سزا بھگتنی پڑے گی ۔

مذکورہ واردات میں چونکہ عاشق، معشوق اور شوہر ہندو ہیں اس لیے شرعی پنچایت سے رجوع کرکے خلع بھی نہیں لیاجا سکتا ۔ عدالت سے رجوع کریں تو سات جنموں کا بندھن توڑنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ اس لیے پنچایت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔پنچایت کے لکشمی بھکتوں نے عاشق کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ یا تو وہ اپنی معشوقہ کے شوہر کو معاوضہ دے کررشتہ برقرار رکھےیا تعلقات منقطع کر دے۔ اس پر عاشق نے معاوضہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ پنچایت نے فرمان سنایا کہ وہ اپنی 142 بھیڑوں کے جھنڈ میں سے 71 بھیڑیں اپنی معشوقہ کے شوہر کو سونپ دے۔عشق کے جنون میں گرفتار عاشق تیار ہوگیا لیکن جیسا کہ کسی ہندی فلم میں عین وقت پر کوئی نہ کوئی رکاوٹ وارد ہوجاتی ہے ایسا ہی یہاں بھی ہوا۔ حسبِ روایت اس بار بھی عاشق کے باپ نے پنچایت کے فیصلہ پر اعتراض جتاتے ہوئےکہا کہ اس نے ایک شادی شدہ خاتون کو اس کے بیٹے کے گلےباندھ کر زیادتی کی ہے۔ عاشق کے باپ رام گوپال نے نہ صرف ۷۱ بھیڑوں کے جھنڈ کو واپس مانگا بلکہ اس خاتون کے شوہر پر بھیڑیں چوری کرنے کا الزام بھی لگا دیا اور یہ معاملہ اب پولس تھانے میں چلا گیا ہے۔

اس واردات نے شاہ جی کے اپنے ہندو سماج کے کئی پہلو اجاگر کردیئے ہیں۔ اول تو یہ دین حنیف سے بے بہرہ معاشرے کی اخلاقی حالت کس قدر ابتر ہوتی ہے۔ اس قبیح ترین ناجائز تعلق کو بھی وہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔ شریعت جیسی نعمت عظمیٰ سے محروم بے غیرت پنچایت ایک عورت کو کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئےبھی دوسرے مرد کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دینے کے لیے معاوضہ طے کرتی ہے اور شوہر ۷۱ بھیڑوں کے عوض اپنی بیوی سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندو دھرم اور سیکولر نظریات میں ان عائلی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ طلاق ثلاثہ کے قانون پر بغلیں بجانے والے سنگھ پریوارکو اس واقعہ کی روشنی میں اپنے گریبان کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے۔

شاہ جی نے بڑے فخر کے ساتھ اس نئے قانون کو ۵۰ فیصد مسلم سماج کے لیے انصاف کی ضمانت قرار دیا۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر مسلمان مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دے رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے ۱۰۰ فیصد لوگوں کی شادی ہی نہیں ہوتی۔ ان میں سے بہت کم لوگ طلاق دیتے ہیں اور اس میں سے بہت کم ایک مجلس میں تین طلاق دینے کی غلطی کرتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فساد میں بیوہ ہونے والی بے شمار خواتین کے لیےکوئی انصاف بحال نہیں کرتا ۔ کانگریس کے ذریعہ مسلمانوں کی ناز برداری کا ذکر کرتے ہوئے امیت شاہ خود اپنے آقا مودی کی خوشامد میں جٹ گئے اور انہیں عظیم مصلح قرار دے دیا۔ مودی جی نہ تو اپنی دھرم پتنی جسودھا بین کو اس حق دے سکے اور نہ ان جیسی کروڈوں بغیر طلاق کےمعلق خواتین کے لیے قانون بناسکے ۔ ہندو مردوں کی ناراضگی کے خوف سے یہ گریز کیا جاتا ہے۔ یہ کمال منافقت ہے کہ خود اپنے سماج کی بدترین نازبرداری کرنے والے دوسروں پر دھڑلے سے خوشامد کا جھوٹاالزام لگاتے ہیں ۔ بی جے پی ہندو سماج کی اصلاح اس لیے نہیں کرتی کہ اگر ان کی عقل کے تالے کھل جائیں گے تو وہ ان احمقوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اسے ووٹ بینک اور لوٹ بینک کی سیاست کہتے ہیں ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223661 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.