ٹھگز آف لاہور

This article is about those people who have the purpose to earn money instead of humanity

ٹھگز آف لاہور

خواہشوں کی تکمیل نے کیا سے کیا کر ڈالا
انساں کوانساں سے ہی جدا کر ڈالا

گزشتہ کچھ دن پہلے کی ہی بات جو ابھی تک میرے ذہن سے نکلی نہیں اور مجھے حیرت میں ڈالے ہوےہیں کہ کیا سے کیا ہوتا جارہاہے۔آج کے اِس دورمیں جس قدرنفسہ نفسی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہےتووہ وقت دورنہیں جب ڈھکے کپڑوں میں چُھپی مطلب پرستی کُھلم کُھلا ظاہر ہوگی۔ایسا لگتاہے جیسے ہماراخون سفید ہوتا جارہا ہےاوراِس دنیا کی دوڑ میں اِس قدر جکڑتے جارہےہیں کہ نہ توکوئی منزل ہےاورنہ ہی ٹھکانہ ۔صرف ایک ہی مقصد جو مختلف لوگوں سے ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر کیسے بنا جائے؟

اسی لیے میں نے اس آرٹیکل کوٹھگز آف لاہور کے نام سے منسوب کیا ہے۔یقیناً جو اِس آرٹیکل کے عنوان کو پڑھے گا اُس شخص کے ذہن میں کئی طرح کے سوال پیدا ہونگیں کہ آخر ایسا ہی نام کیوں؟

میرے اس آرٹیکل کا ہرگز مقصدکسی کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ اُن لوگوں کے بارے میں بتانا ہےجنہوں نےروپے پیسے کی اِس دوڑ میں انسان کے کردار اور اُس کی ذاتی حیثیت کو رول کے رکھ دیا ہے۔اب تو سلام ،پہچان اور حال سب کچھ پیسہ ہے اور جس کے پاس یہ ایک چیز نہیں۔ نہ تو اُسے کوئی جانتاہےاورنہ ہی پہچانتااگرکوئی شناسائی ظاہرکردےتوویسی اہمیت حاصل نہیں۔اسلیےٹھگز آف لاہور پر بے شمارمثالیں جومیں دےسکتاہوں لیکن میں صرف دوہی چیزیں بیان کروں گا جو میری اپنی آپ بیتی ہےاوراُن دو چیزوں کا تعلق ہمارے زندہ رہنےکےلیے بہت ضروری ہےاور ہمارے آئین میں بھی اُس کا ذکر اُس کی اہمیت بیان کرتاہے وہ ہے روٹی اور پانی۔

تقریباً آ ج سے دو مہینے پہلے میں اور میرا ایک دوست لاہور کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانےکے لیےگئے ہم نےکھانےکےلیے چکن کڑاہی اور ۴عدد روٹیاں منگوالی۔کھانا کھانے کے بعد بِل منگوایا تو ایک چیز جو میں آج تک اپنے ذہن سے نہیں نکال پایا وہ یہ کہ ایک روٹی کی قیمت ۲۰روپےلگائی گئی ۔میں نے اُس وقت بھی ویٹر سے پوچھا ایسا کیا ہے روٹی میں تو ہمیشہ کی طرح ایک ہی جواب یہ خاص روٹی ہے۔میں نے بِل تو دے دیا مگر پوری رات سوچتا رہا کہ جب میں روٹی کی قیمت دیکھ کر حیران اور پریشان ہو سکتا ہوں تو غریب کیسے اتنی مہنگی روٹی خریدے گا۔ کہاں گیا وہ آئین جوروٹی کاوعدہ کرتا آیا ہے پھر سمجھ آیا کہ دولت کے نشے میں گُم لوگوں کو ہی لوگوں کا خیال نہیں غریب مرتا ہے تو مر جاے مگر اِنکو خدا کا خوف نہیں آنے والہ ۔یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور اِس کا ثبوت میرے آرٹیکل کے آخر میں ریسٹورنت کی رسید کی صورت میں موجود ہے-

اب پانی کی اگر بات کی جائے تو یہ خدا کی وہ نعمت ہے جس کا پوری دنیا میں کوئی نعمل بدل نہیں۔مگراس کو بھی اب مفت میں پینا ممکن نہیں بلکہ پانی کی کوالٹی اُس کی قیمت کا تعیّن کرتی ہےجتنا صاف پانی ہوگااُس کی اُتنی زیادہ قیمت ہوگی۔ یہی سلسلہ اِس معاشرے میں بھی قائم ہےجو کے ٹھگز آف لاہور کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

اسی طرح ایک دن لاہور کے ایک مال میں گیاتو کچھ دیر چلنے کے بعد پانی کی پیاس محسوس ہوئی۔ سوچا فوڈ کوٹ میں جاکر کسی بھی ایک فوڈ چین سے پانی کا گلاس پی لیتا ہوں میں نے ایسا ہی کیا جونہی ایک فوڈ چین میں گیا تو کہا بھائی پانی کا گلاس ملے گا؟ تو آگے سے جواب آیا پانی کا گلاس نہیں ہے آپ پانی کی بوتل خرید لے۔

میں اسی طرح اگلی فوڈ چین میں گیا تو یہی جواب موصول ہوا کہ آپ پانی کی بوتل خرید لے۔ مجھے بار بار یہی جواب ملتا رہا اور آخر کار مجھے پانی کی بوتل خریدنا پڑ گئی اور جب خریدی تو پانی کی بوتل کی قیمت ۵۰ روپے تھی جو مارکیٹ کے ریٹ سے ڈبل قیمت میں دستیاب تھی۔ ایک سوال جو ذہن میں آیاکہ کیا وہاں کا سٹاف پانی نہیں پیتا،اور اگر پیتے ہیں تو کیا وہ بھی خریدتے ہیں پھرتھوڑاغور کیاکہ ایسا نہیں ہوسکتایہ پھر کمپنی پولیسی ہوگی جس کاکام بس پیسے کمانا ہےکسی کا احساس کرنا نہیں۔

اب سوال میراجو آپ سب سے ہے؟

زمانہ بدلہ ہے تو ہم کیوں بدلتے جارہے ہیں کہاں گئی وہ اخلاقی اقدار جو ہماری ثقافت کا اہم حصہ تھی۔کہاں گئے وہ احسساسات جو انسانیت کا سوچتے تھے کیوں پیسے کی اِس دوڑ نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا۔کیوں ہمیں خیال نہیں رہا ہمارے نیچے بھی ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جو ہر روز پِستہ چلاجارہاہے۔کون کرے گا اُن احساس ذراسوچیے۔میں درخواست کرتا ہوں اِس وقت کی موجود حکومت سے کہ روٹی اور پینے کاصاف پانی جو زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے اِس کی قیمت وہ ہو جو چاہے امیر ہو یا غریب سب آسانی سے خرید سکے۔اور اِس کی قیمت پورے ملک میں ایک ہو خواہ وہ فائیو سٹار ہوٹل ہو یا ایک آم ڈھابہ۔اگر ہم آج اس بات پر غور نہیں کرے گے تو کل کو بُگھتنا پڑے گااور تب تک شائد یہ پورا ملک اِن ٹھگز کی لپیٹ میں ہوگا۔

Saleh Hashmi
About the Author: Saleh Hashmi Read More Articles by Saleh Hashmi: 4 Articles with 9357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.