جیسا کہ پچھلے کچھ دنوں سے یہ بات عام ہوتی جارہی ہے کہ
ملک میں معاشی بحران تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور یہاں کی صنعتوں و
تجارتی مراکز پر تالے لگنے کی وجہ سے بے روزگاری کا خطرہ بھی بڑھ چکا ہے۔
ملک کے حالات سنگین ہیں، عوام پریشان ہے، تجارت بدحالی کی جانب گامزن ہے،
صنعتیں دیوالیہ ہونے والی ہیں اور ملک کے وزیر اعظم روپے کارڈ کی مارکیٹنگ
کے لئے مختلف ممالک کے دورے کررہے ہیں۔ جس پارٹی نے ملک سے بے روزگاری دور
کرنے اور تجارت کو بڑھاوا دینے کی بات کرتے ہوئے ملک پر اقتدار قائم کیا ہے
اسی پارٹی کی معاشی یعنی فائنانشیل پالیسیوں نے ملک میں بدحالی لاچکی ہے
ایسے میں بہت کم اخبارات اور نیوز چینلز ہی ہونگے جو ملک کی حقیقی بدحال
تصویر کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مگر 90 فیصد چینلز اور
اخبارات ایسے ہیں جوان سچائیوں کو چھپانے کے لئے دن رات کام کررہے ہیں ۔
محض ایک ماہ کےدرمیان جو اقتصادی رپورٹس ہندوستان معاشی حالات کی پول کھول
رہے ہیں اور جس تیزی کے ساتھ مختلف آٹو موبائل کمپنیاں اپنے ملازمین کی
چھٹنی کررہے ہیں ان خبروں کو چھپانے کے لئے مرکزی حکومت نے پہلے کشمیر میں
دفعہ 370 ہٹاکر میڈیا کے ذریعے سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی،
جب میڈیا میں دفعہ 370 کا معاملہ پھیکا پڑنے لگا تو حکومت نے سابق مرکزی
وزیر پی چدمبرم کی گرفتاری کا مدعہ مودی میڈیا کو سونپ دیا اور اب مودی
میڈیا دن رات اسی بحث میں لگی ہوئی ہے۔ کسی بھی میڈیا چینل میں اس بات کو
بتایا نہیں جارہا ہے کہ کس طرح سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے
اور مرکزی حکومت اس سمت میں کیا کررہی ہے اور کیا کرنا چاہئے؟. حکومت کو جن
کاموں پر توجہ دینی چاہیے تھی اس پر تو کام نہیں ہورہاہے بلکہ ایسے قوانین
کو عمل میں لانے کے لئے پارلیمنٹ کو مختص کرلیا گیا ہے جہاں سے ملک میں
فاشزم کا ایجنڈہ آسانی کے ساتھ نافذ ہوجائے۔ پارلیمنٹ کی پچھلے سیشن میں
جملہ 26 ایسے قوانین عمل میں لائے گئے یا ترمیم کئے گئے جس میں عام لوگوں
کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہے ۔ انڈین موٹر ایکٹ، انڈین میڈیکل ایکٹ، میریج
ایکٹ جس میں طلاق ثلاثة پر پابندی لگائی گئی ہے، یو اے پی اے ایکٹ،ین سی
آر و ین پی آر ایکٹ، آرٹی آئی ایکٹ اہم ہیں ان قوانین سے عوام کو کسی
بھی طرح سے فائدہ ہو ہی نہیں سکتا بلکہ ان قوانین سے عوام کی زندگیاں تباہ
ہوسکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر آئی یم اے ایکٹ کا ہی حوالہ لیں، اس ایکٹ میں
یہ کہا گیاہے کہ کوئی بھی شخص جو آیورویدیک یا قدرتی طریقوں سے علاج کرتا
ہو وہ میڈیکل لائسنس لے سکتا ہے اور اس پر کارروائی نہیں کی جاسکتی، یعنی
کے اب ہر کوئی ایرا غیرا ڈاکٹر بن سکتاہے، اسی طرح سے طلاق ثلاثة قانون کی
بات کی جائے تو اس میں بھی مسلم مرد و عورت کی زندگیاں بننے سے ٰزیادہ
بگڑنے کے امکانات ہیں ۔کیونکہ اس قانون کے مطابق اگر شوہر بیوی کو طلاق دے
دیتاہے تو اسے جیل کی سزاء کاٹنی پڑیگی اسکے علاوہ اس طلاق کو کوئی قانون
حیثیت ہی نہیں دی جائیگی اور عدالت شوہر کو سزا کاٹنے کے بعد دوبارہ بیوی
کے ساتھ رہنے کی ہدایت دے سکتی ہے، اس قانون میں کہاں اور کسے وانصاف دیا
جارہاہے اندازہ ہی نہیں ہورہاہے۔
آنے والے دنوں میں مرکزی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے مزید
خطرناک کھیل کھیل سکتی ہے جس کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔
ہندوستان آج بھلے ہی جمہوری ملک کہلاتاہو لیکن یا جس طرح کی حکومت اقتدار
پر ہے وہ فاشزم کے نقش و قدم پر چلنے والی حکومت ہے، ملک میں بی جے پی کے
نام سے جوپارٹی ہے وہ فاشسٹ پارٹی ہے اور اسکے سربراہ یعنی وزیر اعظم و
سنگھ پریوار کے لیڈران مسولینی کے طریقہ کار پر کام کررہے ہیں ۔ملک کی عوام
کو مذہب کونشے دیا جارہا ہے اور یہ عوام اس نشے میں چور ہورہی ہے ۔ اسی نشے
کو بنیاد بنا کر اگلے ایک دو سالوں میں مذہبی منافرت کو ہوا دے کر فرقہ
وارانہ تشدد برپا بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی تشدد کی آگ کے پیچھے حکومت
اپنی ناکامیوں کو چھپا دے گی۔ ملک کی اس بدترین صورتحال سے نمٹنے کا ایک ہی
طریقہ ہے وہ یہ کہ تمام مذاہب کے ایسے لوگوں کو ایک پلاٹ فارم پر لایا جائے
جو ملک میں اتحاد، امن و بھائی چارگی کے ساتھ ساتھ ملک کی جمہوریت کی بقاء
کے لئے بھی آگے آسکیں ۔ اگر ایک طرف ہندو دوسری جانب مسلمان کھڑے ہوجائیں
تو فاشسٹ حکومت دونوں کے درمیان منافرت بڑھاتی ہی رہے گی اور ملک کو تباہی
کی جانب لے جاتی رہے گی۔ اب وقت بہت کم ہے اس کم وقت میں بہت کام کرنا ہے
اسکے لئے قوم کے دانشوروں و ذمہ داروں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
|