ہمارے ملک کوآزاد ہوئے72سال ہوگئے مگردل میں ہمیشہ
اس بات کا افسوس لگا رہتا تھاکہ ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جو ہمارے
ملک کے بارے میں سوچے ۔جو بھی الیکشن جیتتا ہے وہ اپنی عیاشیاں پوری کرنے
کیلئے حلقے کارخ نہیں کرتا اور جو ہارتا ہے وہ ہار کا غم منانے کیلئے
باہرممالک اپنے ووٹرزکوبے یارومددگارچھوڑکرچلاجاتا ہے اورپیچھے حلقے
کوٹٹوٹٹیرے سنبھالتے ہیں اورخوب ووٹرز کولوٹتے ہیں ان کوپتا نہیں ہوتا ان
کے لیڈرکتناملک کونقصان پہنچارہے ہیں جیسے کہ اگرسابق نااہل وزیراعظم نواز
شریف کی بات کریں توانہوں نے 2013میں 20تا23اکتوبرامریکہ کادوطرفہ دورہ
کیاپہلے وہ 19اکتوبرکونجی طورپرلندن ٹرانزٹ میں 12رکنی اورواشنگٹن میں
20رکنی اورواپسی پرلندن کیلئے 12رکنی وفدکے ساتھ رہے اس طرح وفدمیں ٹوٹل
44لوگ شامل تھے واشنگٹن میں مجموعی اخراجات3کروڑ85لاکھ 43ہزار529روپے
اورواپسی پرلندن ٹرانزٹ میں 2کروڑ 36لاکھ 70ہزارروپے اورلندن میں 65لاکھ
55ہزار400روپے رہااس طرح مجموعی طورپر997499روپے خرچ ہوئے واشنگٹن کافضائی
خرچ 2لاکھ 80ہزارروپے رہامتفرق اخراجات واشنگٹن میں 7لاکھ 6ہزاروپے
رہااورلندن میں 5لاکھ 95ہزارروپے جوتقریباً1کروڑ15لاکھ روپے بنتے ہیں
واشنگٹن میں 5لاکھ 35ہزارٹپس میں دیے گئے جبکہ لندن میں ٹی اے ڈی اے کی
مدمیں 1195797اورواشنگٹن میں 446479روپے اداکیے جومجموعی طورپر1642276بنتے
ہیں طعام پرواشنگٹن میں 52لاکھ95ہزاراورلندن میں 16لاکھ 24ہزارجومجموعی
طوپرتقریباً 70لاکھ بنتا ہے ر ور عوام یعنی ووٹرز الیکشن کے دنوں کی مخالفت
دل میں لیے ایک دوسرے سے انتقام لینے میں لگی رہتی ہے جب یہ لیڈرباہرجاتے
ہیں عوام کے کانوں کان خبرنہیں ہوتی مگرجب واپس آتے ہیں تو سب لوگوں کو
مدعوکیا جاتاہے کہ اپنے لیڈرکا استقبال کرنا ہے اور عوام بھی چاپلوسی ٹولے
کے ساتھ چل پڑتی ہے دیکھتے دیکھتے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اکٹھے
ہوجاتے ہیں بجائے سوال کے وہ ہاپھولوں کی پتیاں اور پھولوں کے گلدستے پیش
کرتے ہیں گھنٹوں انتظاراور نعروں کے بعد عوام کو ملتا ہے تو صرف ایک منٹ کا
ہاتھ ہلانااور پھرکیا لیڈر’’پُھر‘‘۔ عوام اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہہ شاید
ہمارا لیڈر ہم سے ہاتھ ملا لے مگرافسوس الیکشن کے بعد اتنی زیادہ سیکیورٹی
ہوتی ہے کہ صرف ان کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے ملنا صرف خواب مگریہی عوام جب
بیمار ہوکے ہسپتال جاتے ہیں تو ان کو بیڈتک نہیں ملتا اگرملتا ہے تو
دودومریض ایک ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہیں یا اتنے زیادہ پیسے بھرنے پڑتے ہیں کہ
آدمی بیمار بھی ہوتو ہسپتال کا منہ نہیں کرتا اور ہمارے حکمران ہیں کہ وہ
اپنے ہی ملک میں علاج کروانے سے ڈرتے ہیں لگتاہے ایساوقت بھی آئے گاجب عوام
باہرکے ممالک سے لیڈرلے آئی گے ہرچیز باہر کی ہوگی تو ملک بھی اچھا چلے
گایہاں ایک شعریادآتاہے ’’جب اپنوں نے دیا دھوکہ تو غیروں سے شکایت کیا ،
دوست نے خنجرمارادشمنوں کی ضرورت کیا‘‘ اس شعرسے میرامقصد کوئی اور نہیں
یہی ہے کہ ہمیں غیروں سے اگردھوکہ مل جاتا ہے تو اتنا دکھ نہ ہوگا کیونکہ
ہمارے اپنے ہمیں لوٹ رہے ہیں شایدغیرکواحساس ہوجائے اربوں کے ڈاکے ملک
پرروزپڑھتے ہیں فلاں لیڈرچورہے فلاں نے اتناگھپلاکیا ارے جب سب چورہیں
توپارلیمنٹ میں کیاکررہے ہیں سب کوایک ساتھ کھڑاکرکے فائرہی ماردیناچاہیے
ملک میں مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ سے براحال ہوگیا ہے،پڑھائی کے اتنے خرچ ہیں کہہ
اب لوگ بچوں کو پڑھانے کے بجائے ہنر سکھانے پرترجیح دیتے ہیں کیونکہ اگرپڑھ
بھی لیں ڈگریاں لے کے بھی مزدوری ہی کرنی ہے تو ایسے ہی مزدوری سہی۔ایک
رپورٹ میں پڑھا کہ آصف زرداری نے افغانستان سہ فریقی سربراہ کانفرنس
میں4تا8مئی 2019 میں واشنگٹن 26رکنی وفدکے ہمراہ دورہ کیاجس
پر4کروڑ84لاکھ77ہزار56روپے خرچ ہوئے جبکہ لندن میں دو روزہ ٹرانزٹ قیام
پر1کروڑ 20لاکھ 39ہزار63روپے خرچ کیے گئے واشنگٹن اورلندن کاخرچ ٹوٹل 6کروڑ
5لاکھ 16ہزار119روپے ہوااس میں تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ واشنگٹن ہوٹل قیام
کے اخراجات 1کروڑ 47لاکھ 57ہزار545روپے جبکہ ٹرانسپورٹ کی مد میں 1کروڑ
7لاکھ 72ہزار225روپے ،تحائف پرتقریباً9لاکھ خرچ کیے گئے فضائی سفرکے
اخراجات 1کروڑ 19لاکھ 53ہزارروپے،اورمتفرق اخراجات میں 70لاکھ 5000روپے ہیں
جبکہ لندن ہوٹل کے قیام پر 61لاکھ 15ہزار،ٹرانسپورٹ پر5لاکھ 93ہزار،تحائف
2لاکھ75ہزار،فضائی سفر39لاکھ 40ہزاراورمتفرق 4لاکھ روپے ہے جبکہ لندن ہوٹل
میں ٹپ کی مد میں 2لاکھ 53ہزاراورٹی اے ڈی 1لاکھ 50ہزاراورلندن میں 19لاکھ
75ہزارروپے کے رہے۔واشنگٹن میں طعام پر3لاکھ 20ہزاراورلندن میں 1لاکھ
17ہزارروپے اخراجات ہوئے اتنی لوٹ کھسوٹ کے باوجود عوام آج بھی ایسے حکمران
کی تلاش میں ہے جو اپنے لیے نہیں ملک کی عوام اور پاکستان کیلئے سوچے اب
شاید ’’خان ‘‘لوگوں کی امیدوں پر پورااترے اور سارے مسائل حل کردے اگرہمارے
حکمران وعدے کے پکے اور ایماندارہونگے تو ہمیں کسی کی غلامی اور امداد کی
ضرورت نہیں پڑے گی اب اگربات کریں خان کے واشنگٹن کے دورے کی توانہوں نے
27ارکان کے وفدکے ساتھ20تا25جولائی کادورہ کیا تھااس دورے کی مجموعی
اخراجات 1کروڑ10لاکھ51 ہزار229روپے تھااب عوام خودانصاف کرے کہ چورکون ہے
اورسادھ کون۔ 72سال سے صرف حکومت بدلی ہے پاکستان نہیں بدلہ کیونکہ ملک میں
مہنگائی بڑھتی رہی اور بے روز گاری کے دلدل میں لوگ دھنستے رہے امیرلوگ
اورامیرہوگئے اور غریب اپنی 2وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں حکمرانوں کی
اربوں کی جائیدادیں ہیں مگر آج بھی غریب لوگ کرائے کے مکان میں رہ کربھی
برسوں گزاردیتے ہیں اورمہنگائی کی وجہ سے اپنا گھرنہتک نہیں بناسکتے سب کی
نظر وزیراعظم عمران خان پر تھی مگرخان نے بھی مڈل کلاس لوگوں کی پرواہ کیے
بنامہنگائی کو200فیصدبڑھاکرپتانہیں کس بات کا بدلہ لے رہا ہے لوگ اس بات
کاتعنہ دیتے ہیں کہ سب تبدیلی کے دعویدارتھے اب لوٹوتبدیلی کے مزے اس کے
باوجود بھی اکثریت عوام نے خان کوسپورٹ کی ٹھان رکھی ہے اسی طرح اپوزیشن
لیڈروں کوبھی خان کے ساتھ ملک کرکام کرنا چاہیے اور اپنے مفاد کو پشت پیچھے
ڈال کر ملک کی بقاء کیلئے کچھ کرنا چاہیے تاکہ ہمارے ملک کامستقبل سنورسکے
۔ یاد رہے خان کادورہ تقریباً1.5کروڑ،سابق صدرزرداری4کروڑ85لاکھ جبکہ
نوازشریف کا دورہ 5کروڑ88لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں ۔
|