پاکستان میں موبائل فون سازی کی صنعت کا قومی معیشت اور سلامتی میں کردار

(تحریر۔ محمد فاروق، پی ٹی اے، اسلام آباد)
’’میں بذریعہ موبائل فون آپ سے مخاطب ہوں‘‘ یہ الفاظ ہیں مارٹن کوپر کے،جنہوں نے 3اپریل 1973 کو ایسے موبائل فون سے دنیا کی پہلی کال کی جس کو دس گھنٹے چارج کرنے کے بعد صرف آدھا گھنٹہ بات ہو سکتی تھی یہ وہ کال تھی جس نے آگے جا کر نہ صرف انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا بلکہ مواصلاتی رابطوں ، کاروباری نظام، معیشت اور صنعتکاری کو نئی جہت اور منزل دی اور چوتھے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ پہلے صنعتی انقلاب سٹیم انجن کی ایجاد، دوسرے صنعتی انقلاب برقی توانائی سے وسیع پیمانے پر مصنوعات کی تیاری جبکہ تیسرے صنعتی انقلاب کمپیوٹرا ئزیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پوری دنیا اور طرز معاشرت کو تیزی سے تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ لیکن آج ہم ٹیکنالوجی میں انقلاب کے ایک ایسے دہانے پر کھڑے ہیں جہاں سپیکٹرم کے استعمال سے ممکنات کے نئے دریچے کھل رہے ہیں۔ چوتھا صنعتی انقلاب طرز زندگی ، طرز کار اور طرز تعلق کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔ اربوں افراد ایسے موبائل آلات استعمال کریں گے جو کہ مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، ربوٹکس ، انٹرنیٹ آف تھنگز، خود کار گاڑیوں،تھری /فورڈی پرنٹنگ، اگمنٹڈ ریئلٹی، نیورو ٹیک ، نینو ٹیکنالوجی ، بائیو ٹیکنالوجی، مادیاتی سائنس، توانائی کو ذخیرہ کرنے اور کوانٹم کمپیوٹنگ کے استعمال سے پراسیسنگ کی بے مثال طاقت ، اعداد و شمار ذخیرہ کرنے اور معلومات تک رسائی کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ کرنے کی خصوصیات کے حامل ہوں گے۔ جن کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر کے فائیو جی اور مشینی ذہانت کے تال میل سے برق رفتار ترقی کے لا متناہی مواقع پیدا ہوں گے۔ گویاہمہ رنگ اشیا اور آلات انسانی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے سے باتیں کر تے دکھائی دے رہے ہوں گے۔ یہ صنعتی انقلاب یک سمتی کی بجائے کثیر الجہتی ہو گا۔ جو ڈیٹا کی انتہائی سپیڈ اور اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔

آج اگر ٹیلی کام سیکٹر کو بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے اور اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو تقریبا سات سو پچاس موبائل آپریٹرز اور تین سو پچاس کمپنیاں، ریگولیٹرز، مالیاتی ادارے، انڈسٹری پلیئرز اور متعلقہ سیکٹر کی تنظیمیں اس نظام میں شامل ہیں۔ فائیو جی کی آمد سے ٹیلی کا م انڈسٹری روایتی کاروبار سے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے ماحول میں ڈھل جائے گی۔ مصنوعی ذہانت مستقبل کے کاروبار کا بنیادی جزو اور کلیدی اہمیت کی حامل ہو گی۔ آج دنیا کی آبادی کا 67 فی صد یعنی 5.1بلین سے زائد لوگ موبائل سروسز سے استفادہ کر رہے ہیں ۔1.9فی صد بڑھوتری کی شرح سے 2025 میں موبائل صارفین کی تعداد5.8بلین تک پہنچ جائے گی۔ جو کہ دنیا کی آبادی کا 71فیصد بنتا ہے تقریبا 710ملین لوگ اگلے 7 سال میں موبائل خدمات میں شامل ہوں گے۔ جن میں 359ملین ایشیا پیسفک اور 165ملین افریقہ ریجن سے ہوں گے۔ مزید برآں آئندہ سات سالوں میں1.4بلین لوگ پہلی دفعہ موبائل انٹر نیٹ استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ جس سے کل موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد دنیا کی آبادی کا 60 فیصد یعنی 5بلین تک پہنچ جائے گی۔جبکہ آئی او ٹی کنکشنز کی تعداد 9.1بلین سے 25.2بلین تک پہنچ جائے گی-

سماجی ومعاشی ترقی میں ٹیلی کام سیکٹر کا نمایاں کردار ہے۔ 2018 میں موبائل ٹیکنالوجیز اور خدمات کا حصہ3.9ٹریلین ڈالر تھا جو ورلڈ جی ڈی پی کا 4.6فیصد بنتا ہے، ایک اندازے کے مطابق 2023 تک 4.8ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گایہ گلوبل جی ڈی پی کا4.8فیصد ہو گا ۔ آئندہ پندرہ سالوں میں فائیو جی ٹیکنالوجی سے بین الاقوامی معیشت میں 2.2ٹریلین ڈالر حصہ متوقع ہے۔ اور فائیو جی کے آنے سے 2020 تک 480بلین ڈالر سرمایہ کاری کا امکان ہے ۔ جبکہ آئی او ٹی کا ریونیو 1.1ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ رو زگار کے حوالے سے ٹیلی کام سیکٹر میں31 ملین لوگ جن میں 14ملین بلاواسطہ اور 17ملین بالواسطہ منسلک ہیں جبکہ ٹیلی کام سیکٹر نے 500بلین ڈالر سے زائد پبلک سیکٹر میں حصہ ڈالاہے۔ موبائل کے روابط کی یہ بڑھتی ہوئی شرح اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے مقاصد حاصل کرنے میں نہ صرف انتہائی معاون ہے اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ بلکہ زراعت، تعلیم، صحت، مارکیٹنگ، آن لائن شاپنگ، ایڈورٹائزنگ ،بینکنگ سیکٹر اور ڈیجیٹل کرنسی میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔جیسا کہ حال ہی میں فیس بک کا ڈیجیٹل کرنسی کے اجرا کا اعلان مستقبل میں کرنسی کی سمت کا تعین کریگا۔ بین الاقوامی سطح پر موٹرولا نے 1983ء میں دنیا کے پہلا موبائل فون ڈائنا ٹیک 8000x کمر شل بنیادوں پر متعارف کرا کر موبائل سازی کی صنعت کی بنیاد رکھی ۔جس کی قیمت 4ہزار امریکی ڈالر تھی ۔2018ء آئی ایچ ایس مارکیٹ سروے کے مطابق 1410ملین سمارٹ فون فروخت ہوئے جو60فیصد صارفین کے زیر استعمال ہیں اوریہ 2025 تک 79فیصد ہو جا ئیں گے۔ آج کورین کمپنی سام سنگ کو بین الاقوامی مارکیٹ میں 20.5فیصد شیئر کے ساتھ اجارہ داری حاصل ہے۔ چینی کمپنی ہواوے14.6فیصد شیئر کے ساتھ بڑی تیزی سے دوسرے نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اور ایپل14.53فیصد شیئر کے ساتھ تیسرے نمبر پر جا چکا ہے۔ جبکہ اوپو، شاؤمی ، نوکیا ، ویوا اور ایل جی وغیرہ مارکیٹ میں مناسب مقام رکھتے ہیں۔موبال فونز میں آپریٹنگ سسٹم ، پراسسرز، چپس، سرکٹ بورڈز ، موصل اور نیم موصل نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے دیدہ زیب ڈیزائن دیرپا بیٹری ،سمارٹ سپیکرز اور زیادہ لینز/زومنگ والے کیمرے صارفین کی مانگ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ بین الاقوامی عشاریوں اور صارفین کی مانگ کو دیکھتے ہوئے موبائل ساز کمپنیاں اپنے کاروبار کوتوسیع دے رہی ہیں، پچھلے ہی سال سام سنگ نے پچاس ارب روپے کی لاگت سے دنیا کی سب سے بڑی موبائل فون بنانے کی فیکٹری انڈیا میں لگائی ہے۔

قومی سطح پر اگر ٹیلی کام سیکٹر کا جائزہ لیا جائے تو 1996 کے بعد پی ٹی اے کے قیام سے ٹیلی کام سیکٹر تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ، اتھارٹی کی کامیاب پالیسیوں ، مثبت اقدامات ،پیشہ ورانہ طرز عمل ، نئے کاروباری مواقعوں اور صارفین کو بہترین سروسز تک رسائی کی بدولت قومی تعمیر و پائیدار معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج موبائل صارفین کی تعداد 161ملین اور انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 70ملین سے تجاوز کر چکی ہے جس میں ہر ماہ بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ ٹیلی کام کے شعبے میں گزشتہ پندرہ سالوں میں 20.135بلین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ پاکستان اکنامک سروے2018-19 کے مطابق شعبہ ٹیلی کام سرمایہ کاری اور کارکردگی کے لحاظ سے چوٹی کے چند شعبوں میں سے ایک ہے اور لائسنس یافتگان کو کاروباری و سرمایہ کاری کے مساوی مواقع فراہم کر رہا ہے۔ جی ایس ایم اے کے مطابق پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کا پاکستانی معیشت میں 17بلین ڈالر کا حصہ ہے۔ جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 5.4فیصد ہے اور چار لاکھ پچاس ہزار ملازمتوں کو بلا واسطہ اور بالواسطہ معاونت فراہم کر رہا ہے۔

پی ٹی اے کا جہاں پاکستان کے ویژن 2025 کے تحت تیز ترقیاتی اہداف کے ساتھ پیداوار میں اضافے بہترین ریگولیٹری اقدامات کی بدولت ملازمتوں کے مواقع اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے میں کلیدی کردار ہے جس کا اعتراف قومی اور بین لااقوامی اداروں کی رپورٹوں اور اعداد و شمار سے عیا ں ہے۔ وہاں پی ٹی اے نے ٹیلی کام پالیسی 2015 کی سیکشن 15.4کی روشنی میں مقامی سطح پر موبائل سازی کی صنعت کے فروغ کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ موبائل فون سیٹوں کی مقامی سطح پر تیاری کے عمل کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹائپ منظور شدہ کمپنیوں کو فعال بنانے کے قواعد متعارف کروائے گئے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں موبائل فون سیٹوں کی صنعت کاری /تیاری کے پلانٹ قائم کرنا ہے یہ ایک پہلا قدم ہے۔ قواعد متعارف کئے جانے کے بعد 28سے زائد کمپنیوں نے موبائل کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے اجازت حاصل کی ہے اور مکمل طو رپر فعال اسمبلنگ پلانٹس نصب کئے ہیں۔ جہاں سیمی ناک ڈاؤن (SKD) موبائل سیٹوں کی اسمبلنگ کی جا رہی ہے ۔ اور ماہانہ اوسطا ایک لاکھ سے زائد معیاری موبائل سیٹ تیار ہو رہے ہیں اس اقدام کے تحت مارکیٹ میں 3200 سے زائدملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کو اس شعبے میں اپنے ہنر آزمانے کے بہترین مواقع میسر ہوئے ہیں۔ پی ٹی اے مستقبل میں اعلی معیار اور بین الاقوامی سطح کے حامل موبائل سیٹوں کی مقامی سطح پر تیاری کے عمل کو مزید وسعت دینے کے لیے پر عزم ہے۔ حکومتی سرپرستی و دیگر متعلقہ حکومتی اداروں اور سٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے اس عمل کو تیزی سے آگے بڑھا کر ملک میں موبائل سازی کی صنعت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ مقامی سطح پر موبائل فون سازی کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے اور اس کے ملکی معیشت اور قومی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یہ جاننے سے پہلے دو مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں -

معاشی ترقی میں موبائل سازی کی اہمیت کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایاجا سکتا ہے۔ فن لینڈ یورپ کا 55لاکھ نفوس پر مشتمل ایک ملک ہے اور اس کا ایک چھوٹا ساشہر ’’نوکیا‘‘ انتہائی اہم اور دلچسپ اہمیت کا حامل ہے90 کے عشرے میں اس شہر نے موبائل فون کی صنعت میں انقلاب لانے والی کمپنی کو اپنا نام دیا تھا اور فن لینڈکی معیشت کو دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال بنانے میں مدد دی تھی۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف فنش اکانومی کے مطابق 1998 سے 2007 کے دوران فن لینڈ کی شرح نمو میں نوکیا کا حصہ ایک چوتھائی تھا۔ اس دورانیہ کو فن لینڈ کے وزیر خزانہ معیشت کا معجزہ کہتے ہیں اور یہ اس وقت ایک طرح سے انجینئرنگ خواب تھا ۔ صرف نوکیا کا ایک ماڈل ’’نوکیا1100‘‘ 250ملین سے زائد سیٹ فروخت ہوئے جو الیکٹریکل گیجٹ کی تاریخ میں بیسٹ سیلنگ ڈیوائس کا ایک ریکارڈ ہے۔ اور 2014 میں مائیکرو سافٹ نے نوکیا کے موبائل فون بنانے والے یونٹ کو 7.44ارب ڈالر میں خرید لیا ہے جس کیساتھ ہی نوکیا کے 32000ملازمین بھی مائیکروسافٹ کو منتقل ہو گئے۔ یہ اس رقم سے زیادہ ہے جتنی پاکستان آئی ایم ایف سے اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بطور قرض لے رہا ہے۔

21ویں صدی میں تنازعات میں سب سے اہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں سبقت لے جانے کی جنگ ہو گی ۔ جدید ٹیکنالوجیزکے آنے سے سائبر سکیورٹی کے مسائل ، حسا س معلومات تک رسائی، خفیہ معلومات کا حصول، جاسوسی کے خطرات، سرکاری و صنعتی رازوں کی چوری، عسکری حکمت عملی، معاشی فوائد سے محروم کرنا اور نیورل نیٹ ورکنگ جس سے نہ صرف فنگر پرنٹس کا ماسٹر پرنٹ بن سکے گا بلکہ مشین لرننگ ایلگورتھم سے ہزاروں جعلی فنگر پرنٹس بھی تیار کیے جا سکتے ہیں جو کہ سکیورٹی کے نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ اور سنجیدہ چیلنج ہے ، حال ہی میں بہت سے ممالک نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دوسرے ممالک کے جدید موبائل فونز پر پابندیاں لگا رہے ہیں کیونکہ ان میں ایسی چپس یا مخبری کے آلات ہو سکتے ہیں جو دوسرے ممالک کی سلامتی میں نقب زنی کر سکتے ہیں مزید برآں کشیدگی کے زمانے میں اپنی خدمات بند کر سکتے ہیں جس سے بڑے نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے جیسے گوگل کو ہواوے کے لیے سروسز مہیا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر موبائل تیاری سے ایسے بے شمار مسائل سے محفوظ رہاجا سکتا ہے۔

پاکستان میں اوسطا سالانہ بنیادوں پر تقریبا دو کروڑ سے زائد موبائل فون درآمد کیے جا رہے ہیں ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی منظر نامے ، مستقبل کے تقاضے ، اس خطے کی آبادی خاص طور پر اقوام متحدہ کی 17جون2019 عالمی آبادی کے تخمینہ کے عنوان سے شائع رپورٹ کے مطابق اس صدی کے دوران آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ پاکستان، انڈیا اور نائجیریا میں ہو گا اورا س صدی کے اختتام پر پاکستان کی آبادی دو گنا ہو جائے گی ۔ آبادی میں اضافے کے باعث اور مستقبل کی ضروریات و استعمال کے پیش نظرخصوصا پاکستان جبکہ عموما اس خطے میں موبائل فون کی مانگ میں بے تحاشا اضافہ متوقع ہے۔مقامی سطح پر موبائل فونز کی تیاری سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری کر کے کثیر زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے بلکہ معیشت کی مضبوطی اور ملکی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی مدد گار ہو سکتا ہے۔ مقامی سطح پر موبائل سازی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے دو بہترین قابل عمل آپشنزہیں اور ان پر غور کیا جا سکتا ہے۔

ایک تو حکومتی سر پرستی میں ایسی کمپنی بنائی جائے جس میں ریاست بنیادی شیئر ہولڈر ہو۔ انڈسٹری اور معیشت کو خود کفیل بنانے اور خود انحصار ی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سرکاری اور نجی شراکت داری کے وسیع مواقع موجود ہیں اس میں کوئی شک نہیں بہت سی ٹیکنالوجیز/ صنعتوں کے فروغ میں حکومتی تعاون اور مالی امدادبھی شامل رہی ہے اس مقصد کے لیے ٹیکنالوجی انوسٹمنٹ فنڈ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سلیکون ویلی کے عروج کی وجہ امریکی حکومت کی امداد تھی اور اس طرح چین بھی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے پاکستان کے بجٹ سے زائد رقم خرچ کر رہا ہے۔اس طرح ’’میڈ ان پاکستان‘‘معیاری موبائل فون ارزاں نرخوں پر تیار کر کے نہ صرف ملکی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ مشرق وسطی ،سنٹرل ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر کے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔یہ کوئی نا ممکن کام نہیں ہے جب ہم محدد وسائل کے باوجود دنیا کی ساتویں ا ور مسلم امہ کی پہلی ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں گھریلو دستکاریوں سے تیار کردہ سپورٹس کا سامان (فٹ بال وغیرہ) بین الاقوامی پہچان حاصل کر سکتے ہیں، اگر جنوبی ایشیا کی پہلی موٹروے بنا سکتے ہیں ،جہاں بمبار لڑاکا طیارے اڑان بھر سکتے ہیں تو ہم دنیا کا بہترین برانڈ کا موبائل فون بھی بنا سکتے ہیں۔اس آپشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان کی صورت میں ایک بہترین بیس اسٹیشن موجود ہے جس کو بروئے کار لا کر" میڈ ان پاکستان" موبائل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان 1952 میں قائم ہوئی اس کا بنیادی مقصد ٹیلی فون سیٹوں سے متعلق ساز و سامان تیار کرنا اور مینول اور خود کار ایکسچینجز بنانا تھا۔ بعد ازاں الیکٹرانک ٹائپ رائیٹر ڈیجیٹل موبائل ایسکچینجز، ڈی جی باکسز اور انرجی میٹرز وغیرہ کی تیاری بھی شروع کر دی گئی۔ ٹول ڈئیزائننگ اینڈ میکنگ ، فیبریکیشن، سٹیل میڈل کٹنگ ، پرنٹ سرکٹ بورڈ پلانٹ، میٹریل ٹیسٹنگ لیب کے علاوہ سٹاف کے تربیتی پروگرام بھی موجود ہیں۔ ٹپ ، ہائی ٹیک مشینری اور ہنر مند افردی قوت سے لیس ورکشاپوں کے ساتھ مربوط مینو فیکچرنگ کی سہولیات کی ایک وسیع رینج رکھتی ہے۔ سی پیک روٹ کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی گیس پانی کی فراہمی کمپریس ایئر سپلائی اور متعلقہ مشینوں کے صنعتی کنکشن، وسیع ہال مینوفیکچررز اور اسمبلنگ سرگرمیوں کے لیے مثالی ہیں۔ پرنٹ سرکٹ بورڈ پلاسٹک پارٹس تھک فلم ، میٹل ورکس اور انرجی میٹر کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت ہے۔ 150ہزار مربع میٹر وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہے۔ جس میں خام مال سٹور جنرل سٹور اور پری فیبریکیشن حال موجود ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے پورا انفراسٹرکچر موجود ہے۔

دوسری آپشن ، ہم بین الاقوامی موبائل ساز کمپنیوں سام سنگ، ہواوے، ایپل اور اوپو وغیرہ کو پاکستان میں اسمبلنگ اور مینو فیکچرنگ پلانٹ لگانے کی باقاعدہ دعوت دے کر یا ان کی دلچسپی کو خوش آمدید /حوصلہ افزائی کرکے مقامی ضروریات اور کاروباری سہولیات میں آسانی سے متعلق بریف کر کے ان بین الاقوامی برانڈز کے پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں اس سے بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ملکی جی ڈی پی کی شرح نمو میں بھی اضافہ ہو گا۔اس کے لیے پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کی بہترین مارکیٹنگ اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

پاکستان اپنے جغرافیائی خدوخال ، کاروباری ماحول اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے ایک پر کشش اور آئیڈیل ملک ہے۔ اے ٹی کیرنی گلوبل سروسز لوکیشن انڈکس 2017 کے مطابق پاکستان دنیا میں تیسری بڑی مالیاتی دلچسپی کے مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ 20جون 2019 کو اقوام متحدہ نے پاکستان کو امن و امان کی بہترین صورت حال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فیملی سٹیشن قرار دیا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستان کو فیملی سٹیشن قرار دے چکا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے صدر بورگ برینڈے نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران معیشت ، سکیورٹی اور توانائی کے شعبے میں مثبت پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سی پیک سے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی میں آسانی، پاکستان میں موٹر ویز کا جال ، سستی ترین لیبر اور ایزی ڈوئنگ بزنس کی پالیسی، سرخ فیتہ کا خاتمہ ، باصلاحیت ، جفاکش اور قابلِ اعتماد افرادی قوت، ہزاروں آئی ٹی گریجوایٹس کا فارغ التحصیل ہونا ، بجلی گیس پانی دفاتر اور رہائشی سہولیات کی ارزاں نرخوں پر فراہمی اور سپیشل اکنامک زون کی موجودگی کسی بھی کاروبار کے لئے سنہری مواقع ہیں پاکستان میں پوٹینشل انڈسٹری موبائل فون سازی ہے اوراس کی بے پناہ گنجائش موجود ہے اور بین الاقوامی برانڈز کو اپنے پلانٹس لگانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔

اقوام اور ریاستوں کی ترقی کا راز اندرونی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہے ، آج اگر امریکا ،امریکا اورچین، چین ہے تو اپنی بلین ڈالر کمپنیز کی بدولت ہے اور یورپ اس لئے یورپ ہے کہ اس نے صنعتی ترقی کی راہ اپنائی ، قومی معیشت کو متحرک کرنے کے لئے موبائل سازی کی صنعت کا قیام نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے دیگر صنعتوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا او رطویل المدتی معاشی استحکام کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔ ا س طرح آئی ٹی کے میدان میں اجارہ داری قائم کی جا سکتی ہے۔ دنیا اب معیشت اور ٹیکنالوجی میں اجارہ داری کا نام ہے موبائل مینوفیکچرنگ کا فروغ دیگر صنعتوں، ملکی معیشت اور خود انحصاری کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔

 

Muhammad ilyas
About the Author: Muhammad ilyas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.