مذکورہ بالا ٹاپک کو میرا موسٹ فیورٹ ٹاپک کہا جاے تو غلط
نا ہوگا ۔ ٹیلی پورٹیشن کے حوالے سے کی جانے والی ہر تحقیق پر میری نظر
ہوتی ہے۔۔سچ پوچھیں تو کئی بار خوشی بھی ہوتی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے اس دور
میں جی رہے ہیں جب خدا کی ذات کو سمجھنے میں آسانی ہورہی ہے ۔اس ذات کی
عظمت دانائی اور سپر ئیر انٹیلیجنس بہترین انداز میں واضح ہو رہی ہے۔۔
ہمارا ایمان بالغیب عقیدے تک محدود نہیں رہ رہا۔ خدا کی نشانیاں کھل کھل کر
یوں سامنے آرہی ہیں کہ بے اختیار اس ذات باری تعالے کے آگے تعظیماً احتراماً
اور عاجزی سے سر بسجود ہوجاتے ہیں۔
اور اس بات پر میں سائنس کی ایک طرح سے شکر گزار بھی ہوتی ہوں جو میرے اللہ
کی کاینات کو سمجھانے میں کچھ اس طرح مدد دے رہی ہے کہ میرے ایمان مزید
پختہ ہورہا ہے ۔۔کیوں کہ سوچنے سمجھنے غور کرنے اور بالآخر ماننے کے بعد آپ
ایمان کی جس حالت میں داخل ہوتے ہیں وہ صرف عقیدہ نہیں رہ جاتا وہاں سے اصل
ایمان شروع ہوجاتا ہے ۔
۔خیر موضوع پر پلٹتے ہیں۔۔ٹایم ٹریول یا ٹیلی پورٹیشن بلاشبہ اس کا کانسیپٹ
مذہبی یا الہامی کتابوں سے ہی لیا گیا۔۔ہر مذہب میں ٹایم ٹریول کے واقعات
پڑھنے کو ملے۔ سب سے زیادہ واقعات ہمارے مذہب میں ملے ۔۔ہم جب بڑی عقیدت سے
بتاتے کہ ٹائم ٹریول سب سے بڑا ثبوت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر
معراج کی صورت میں ملا تو شروع شروع میں اس بات کو جھٹلایا گیا کہ ایسا
ممکن نہیں یہ بس نعوذباللہ الہامی کتابوں کی اختراع ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہماری کتاب میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جن میں ٹایم ٹریول کی طرف کھلا
اشارہ تھا ۔۔۔لہذا ہم میں سے کچھ لوگ چپ ہو جاتے دل میں دعا کرتے کہ ان کو
اللہ میاں لاجواب کیوں نہیں کرتا ۔؟ ہم میں سے کچھ البتہ معجزے کو معجزہ ہی
سمجھ کر یقین پر کوئی آنچ نا آنے دیتے ۔
۔لیکن نا ہم جانتے تھے نا ہی یہ لوگ جانتے تھے کہ خدا ان کے منہ سے ہی
اعتراف کرائے گا اور اعتراف بھی ایسا مضبوط اور بہترین ثبوتوں کے ساتھ(
کیونکہ پیرالل یونیورس اور سٹرنگ تھیوری اب تک کی سب سے بہترین ویل ڈیفائن
تھیوریز ہیں ) کہ رد کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔۔ان میں سے کافی لوگ ایمان
لے آئے اور باقی بھی دل سے تو راضی ہونگیں بس ابو جہل والی ضد بچی ہوگی ۔
۔۔اور پھر ہم نے دیکھا کہ یہی لوگ تھے جنہوں نے ٹائم ٹریول اور ٹیلی
پورٹیشن پر کام شروع کیا ۔ساتھ ہی ان کو قدرت کی طرف سے بھی اشارے ملتے گئے
ان کا انٹرسٹ بھی بڑھتا گیا ۔ قدرت نے ان کا انٹرسٹ کچھ اس انداز میں بحال
رکھا کہ گویا صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔یہ ایسا بہترین کام
کرتے گئے کہ آج کوانٹم میکنکس کی فیلڈ میں داخل ہونے پر ان کی عقلیں دنگ رہ
گئیں ہیں۔ کاینات کو دیکھنے کا زاویہ ٹوٹلی بدل گیا ہے ۔ ناصرف ٹیلی
پورٹیشن کو مان رہے بلکہ ٹایم ٹریول ایک سے زیادہ کایناتیں اور سپر پوزیشن
تک ماننے پر مجبور ہوگئے۔۔
اور انہوں نے ثابت کردیا کہ ہاں بھئی تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
معراج ہم سے بہتر کون سمجھے گا اب۔
ٹیلی پورٹیشن اور ٹائم ٹریول پر ان کو جب شواہد ملنا شروع ہوے تو ظاہری بات
ہے انہوں نے تجربات بھی ہر صورت کرنے تھے ۔۔ پہلا واقعہ فلاڈیلفیا
ایکسپیریمنٹ کے نام سے مشہور ہے۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے اکتوبر 1943 دوسری
جنگ عظیم میں ہٹلر سے تنگ اتحادی مل کر کوئی حل تلاش کرنے لگے کہ کس طرح
ہٹلر کی جنگی کشتیوں سے ملنے والے نقصان سے بچا جاے ۔
۔اس کام کے لیے منصوبہ مشہور ساینسدان آئن سٹائن کی ہمراہی میں تیار ہوا
۔۔اور منصوبہ یہ تھا کہ ایک بحری جہاز پر یہ تجربہ کیا جاے کہ یہ نظروں سے
اوجھل ہو کر پلک جھپکنے میں دوسری جگہ منتقل ہوجاے ۔ یہ ایک ٹاپ سیکرٹ مہم
تھی لہذا انتہائی رازداری سے مراحل طے کے گئے اور وہ دن آن پہنچا جب فلا
ڈیلفیا کے مقام پر کافی فاصلے سے آین سٹاین اور اس کے ساتھ موجود ٹیم
دوربین سے نظریں جماے اپنے اس جہاز کا معاینہ کر رہے تھے۔
جس پر میگنیٹک ویوز ڈالنی تھی تاکہ یہ ٹیلی پورٹ ہو ۔۔
ادھر اس جہاز کا بدقسمت عملہ یکسر بے خبر تھا کہ انکو کس قدر سنگین تجربے
کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ۔۔ جہاز پر چاروں طرف سے طاقتور میگنیٹک شعاعیں
مخصوص فریکوینسی سے ڈالی گئیں۔۔جونہی شعاعیں جہاز پر پڑیں روشنی کا
ایک۔جھماکا ہوا اور یہ بحری جہاز غایب ہوگیا ۔
۔ادھر یہ سارا عملہ اپنی کامیابی پر خوشی سے اچھل ہی تو پڑا ۔۔اگلے مرحلے
میں انہوں نے جس جگہ تعین کیا تھا یہ جہاز وہاں ظاہر ہوتا تو تجربہ مزید
کامیاب ہوتا ۔۔لیکن دس سے بیس منٹ تک اس جہاز کے کہیں پر موجودگی کی اطلاع
نا پائی تو یہ پریشان ہوگئے کہ جہاز گیا تو کہاں گیا ۔۔ابھی اسی شش وپنج
میں گرفتار ہی تھے کہ جہاز دوبارہ اپنی اسی پرانی جگہ یعنی ان کے سامنے
ظاہر ہو گیا۔۔یہ فورا اس طرف بڑھے کہ جا کے عملے سے پتہ کیا جاے ان کے ساتھ
کیا ہوا ۔۔لیکن آگے کا منظر ان کےہوش اڑانے کو کافی تھا۔۔(جاری ہے)
|