تھوڑا سائڈ میں کرنا!!!

ہمارے ہاتھوں میں موبائل فون ہے، جب یہ موبائل فون خراب ہوجاتا ہے تو اس فون کو درست کروانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے گھروں میں مختلف طرح کے الیکٹرانک و الیکٹریکل مشینیں ہیں وہ بھی جب خراب ہوتے ہیں تو انہیں پہلے خود درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کم از کم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشین خراب ہونے کی وجہ کیا ہے، جب یہ مشینیں درست ہو نہیں سکتی ہیں تو ان مشینوں کو ہٹاکر گھروں میں نئی مشینوں کو لایا جاتا ہے اور اس بات کی فوقیت دی جاتی ہے کہ مشین بہترین ہواور پہلے والی سے بہتر ٹیکنالوجی سے لیز ہو ۔صرف مشینیں ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو استعمال کے لائق نہیں رہتی ہیں تو انہیں تبدیل کردیا جاتا ہے، یہ زمانے کا اصول ہے۔ مشینوں کی بات چھوڑئیے آج کل شوہر کی پسند کی بیوی اور بیوی کو شوہر پسند نہ ہوتو اپنی اپنی پسندکے شوہر اور بیوی تلاش کئے جارہے ہیں۔ جب ان تمام باتوں کے تعلق سے ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے قائدین کے معاملات کو لیکر اس قدر لاچاری کا رونا کیوں روتے ہیں؟ خصوصاً مسلمان قوم اپنی قیادت اور نمائندگی کے تعلق سے یہ خیال ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی قائد نہیں، مسلمانوں کے پاس جو قائدین ہیں وہ پوری طرح سے مسلمانوں کے نہیں ہیں ۔انکی قیادت ناکام قیادت ہے۔ جب ہمارے پاس ایسے قائدین ہوں جو مسلمانوں کی نمائندگی کو صحیح طریقے سے انجام دینے میں ناکام ہوئے ہوں اوراپنے مفادات کی خاطر وہ مسلمانوں کے قائد بنے ہوئے ہوں تو ایسے لوگوں کی قیادت کو مسترد کرتے ہوئے نئی قیادت کے لئے نئے لوگوں کو آگے لانا چاہیئے، خاص طورپر نوجوانوں کو ان معاملات میں آگے لانے کی ضرورت ہے ۔ملک میں برسر اقتدار بی جے پی کی بات کرلیں تو انکے پاس یکہ بعد یک قیادت کے لئے نسلیں تیار ہیں ۔ جس وقت واجپائی اس ملک کے وزیراعظم تھے اور انکے ساتھ مرلی منوہر جوشی، اڈوانی جیسے لوگ معاونین کے طور پر تھے اسی وقت میں نریندر مودی، امیت شاہ اور عباس نقوی جیسے لوگوں کو قیادت کے لئے تیار کیا گیا جب واجپائی کمزور ہوئے تو اڈوانی و جوشی جیسے لوگوں کو نظرانداز کردیا گیا اور پوری قیادت نئی نسل کو سونپ دی گئی جبکہ بزرگ بھاجپائیوں کو نام کے لئے مشاورتی کمیٹی میں ڈال دیا گیا۔ لیکن مسلمان قوم کی بدقسمتی کہیےیا لاچاری کہ مسلمان قائد اپنے بعد قیادت کے لئے نہ خود کسی کو آگے لاتے ہیں نہ ہی دوسرے قیادت کرنے کے لئے آگے بڑھ کر جاتے ہیں اور جب کوئی جاتا بھی ہے تو اسے کاٹنے کی پوری کوشش کی جاتی ہےاس پر سے یہ لالچ کہ انکی قیادت قبر کے ساتھ ہی ختم ہو،بھلے انکے جانےکے بعد مسلمان لاوارث ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔عہدوں کی لالچ اور اقتدار کی بھوک کا شکار ہمارے قائدین مستقبل کے تعلق سے سوچ کر فیصلے لینے لگیں گے تو یقیناً مسلمانوں کی قیادت کا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ نوجوان بھی یہ رونا رونے کے بجائے کہ ہمارے پاس قائدین نہیںہیں،لیڈرنہیں ہیں،خود ہی قائد بننے کی جانب پیش رفت کریں۔نوجوان اپنے ہم خیال لوگوں کو لیکر چھوٹے پیمانے پر کیوںنہ ہو قوم وملت اور سماج کی فلاح وبہبودی کیلئے کام کرنا شروع کریں۔جب لوگوں کے درمیان جائینگے تو وہاں کے ان کے مسائل کو دیکھیں گے،ان کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے کام کرینگے تو یقیناً کچھ تبدیلیاں آنے لگیں گی۔حالانکہ اس کام کو بھی روکنے کیلئے آپ کے سامنے دشواریاں پیدا ہونگی لیکن ہر آزادی اور ہر انقلاب کی کامیابی کیلئے قربانیاں دینا ضروری ہے۔آج ہمارے درمیان سیاسی اعتبار سے شاہ فیصل،شہیلا رشید،عمر خالد،اسد الدین اویسی،امتیاز جلیل جیسے درجنوں لوگ مسلمانوں کی قیادت کیلئے آگے آئے ہیں تو کیوںنہیںمسلم نوجوان ایسے لوگوں کی رہنمائی میں اپنے اپنے علاقوں میں سیاسی قیادت کو مضبوط نہیںکرتے؟کیوں نہیں ایسے لوگوں کی رہنمائی میں ملی وسماجی مسائل کو حل کرنے میں غوروفکر نہیں کرتے؟۔اب تک ہم مسلمانوںکے ساتھ کئی سیاسی وملی لیڈروں نے کھلواڑکیا ہے،ایسے میں مسلم طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو سائڈ میں کرنے کیلئے منصوبہ بنائیں اور خود ہی قیادت کے ٹراک پر آگے بڑھتے جائیں۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 198026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.