عالمی سطح پر وعدوں اور معاہدوں سے بھارت تجھے بھاگنے نہیں دیں گے

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں’’35Aاور370ایکٹ کی منسوخی اور کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم ‘‘کردینے کے بعد دادی میں بھارتی فورسز کی درندگی ایک بار پھر اپنے انتہائی عروج پر پہنچ چکی ہے،بھارتی فوج کا جوش ِانتقام ابھی بھی ختم نہیں ہوا،کشمیریوں پر بے انتہاء مظالم دیکھ کر لگتا ہے کہ بھارتی حکومت بار ہا ناکامیوں کے باعث شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے،وادی میں تمام تر مذموم ہتھکنڈے آزمانے ،ظلم ڈھانے اور کرفیو لگانے کے باوجود پھر بھی وہاں سینکڑوں کشمیریوں کاپاکستانی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکل آنا اور نعرہ تکبیر کی فلگ شگاف صداؤں میں ہم کیا چاہتے آزادی ،کے نعرے اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہندوستان جتنا مرضی زور لگا لے ،کشمیریوں کے جذبہ حریت کو نہیں دبا سکتا،کشمیری مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے ذریعے اُن کے اندر سے جذبہ آزادی کی حس کو نہیں کچل سکتا،7 لاکھ فوج لیے موجود اور جتنی مرضی فوج لگالے ،’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی وہاں صدائیں نہیں روک سکتا،بھارت طاقت کے بل بوتے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کرمظلوم کشمیریوں کے اندرسے جذبہ آزادی کو کچلنا چاہتا ہے مگر یہ اُس کی بھول ہے ،کشمیری اپنی جان تو دے سکتے ہیں لیکن اپنے حق خودارادیت کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوسکتے اوریہ کہ پاکستان سے اپنا الحاق چاہتے۔مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ جو طویل عرصے سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود مگر حل نہیں ہوپارہا، بلکہ اب تو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث کافی پچیدہ ہوچکاہے،اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں ازخودجاکر کشمیری مسلمانوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کرنے والا اور اُس کا دعویدار اِس وعدے سے مسلسل انحراف کے بعد اب اِس مقام پر آن پہنچا ہے کہ کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ہی اپنے بھارتی آئین میں ردوبدل کرتے ختم کرڈالا،جس کی قانونی حیثیت کوئی نہیں، صرٖ ف اور صرف ایک دھکا اور زور زبردستی والی بات ہے،جسے نہ کوئی مانا ،نہ مانے گا اور نہ ہی ماننے والی بات،اِ س لیے کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ،جس کو بھارت عالمی ادارے میں مان چکا اور پھر یہ کہ اُس نے اقوام متحدہ، ،سلامتی کونسل میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کرکھا ،ایسے میں کہ جب معاملہ اقوام متحدہ اور سلامتی میں متنازعہ حیثیت سے موجود تو پھر بھارت کشمیر پر شب خون کیسے مار سکتا ؟کیسے 35A اور370 ایکٹ کے ذریعے اِس کی خودمختار حیثیت ختم کرسکتا؟دنیا اتنی اندھی اور بہری تو نہیں مگر حقیقت سنانی اور یاد دلانی پڑتی۔سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے کیے گئے وعدوں اور شملہ معاہدہ کے معاہدوں سے ہم بھارت کو بھاگنے نہیں دیں گے، پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر کی آزادی کے لیے کھڑا ہے اور پھر یہ کہ بھارتی ممتاز لیڈروں کا ہی کہنا تھا کہ ’’کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی اور خوشی کے مطابق ہوگا،اِس پارلیمنٹ(انڈین پارلیمنٹ)کے پاس اختیار نہیں کہ وہ کشمیر پر اپنی مرضی مسلط کریں‘‘(بھارت وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو،یکم اگست 1952 ،بھارتی پارلیمان سے خطاب) ۔’’چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ،اِس لیے میں جانتا ہوں کہ ایک دن یہ مسلمان ریاست بنے گی‘‘(گاندھی 1934 ،خط بنام پنڈت پریم ناتھ بزاز)بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ وہ مزاکرات کے نام پر ہمیشہ ڈھونگ رچاتا رہا ہے،امریکہ و اُس کے حواری بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں سنجیدہ نہ تھے،اگرعالمی طاقتیں بھارت کواستصواب رائے کرانے پر مجبور کرتی تو جنوبی ایشیاء کا یہ اہم اور احساس مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا،اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے اپنا صحیح اور حقیقی کردار ادا نہیں کیابلکہ عالمی ادارے طویل عرصے سے بھارتی مظالم پر عملا خاموش تماشائی بنے رہے،اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی منافقانہ پالیسیاں اور دوہرے معیارات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،دنیا میں ہر طرف مسلمانوں پر ہوتے ظلم اِس کو نظر نہیں آتے،کیا یہ سب ادارے یہودونصارٰیٰ کے تحفظ کے ہی ادارے بن کے رہ گئے ہیں؟کیا انصاف اِن اداروں سے ناپید ہوچکاکہ خون ِمسلم بہا جارہا اور اِن کو فکر ذرا سا بھی نہیں؟۔جانوروں کی موت پر برہم ہوجانے والوں کے لیے انسان کا خون اتنا ارزاں کیوں؟کیا اِن کے لیے انصاف کا پیمانہ صرف یہی رہ گیا ہے کہ غیر مسلم ہوتو پوری دنیا میں کہرام مچادو اور اگر مسلم ہوتو جاگتے بھی ہوتو سوجاؤ۔ کہاں ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ہمارا جسم ،ہماری مرضی کہنے والی مغربی این جی اوز کی آنٹیاں؟کہاں گئی انسانی حقوق کی نام نہاد چیمہیئن ملالہ بی بی ؟کہاں ہیں انسانی حقوق کے دعویدار ، اُس پر لمبا چوڑا بھاشن دینے والے؟کہاں ہیں انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والے؟سانپ سونگھ گیا کہ رب کائنات نے اُن سے اُن کی ہمت اور بینائیاں چھین لی،سوچنے سمجھنے کی سکت سے بے بہرہ کردیا،حق اور سچ میں فرق کی صلاحیت سے ’’دشمنی مسلم ‘‘میں،سے محروم کردیا،بلی ،کتوں ،بندروں،ریچھوں کی معمولی سی تکالیف پر بلبلا جانے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسان کی انتہاء درجے کی تکلیف پر اتنا خاموش کیوں؟کوئی جواب ہے کسی کے پاس توبتائیے کہ آخر ایسا کیوں؟کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف اورصرف یہودیوں کی تکلیفوں کے ازالے کے لیے ہی بنی ہیں،کیا مسلمان انسان نہیں؟کیا اِس دھرتی پر رہنے والے باشندے نہیں؟یہودیوں کی تکالیف پر اتنا زیادہ واویلا اور مسلمانوں کی نسل کشی پر اتنی گہری خاموشی؟
آخر یہ سب مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں؟کیا ساری کی ساری انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف اور صرف یہودیوں ہی کہ آلہ کار ہے،مسلمانوں کی تکلیف اوردردسے انہیں کوئی سروکار نہیں،کیا فائدہ ایسی تنظیموں کا؟جو کفار کی تکلیف پر بے چین اور مسلمان کے درد سے نا آشنا ہے،آخر ایسی خاموشی بھی کیاکہ انسانی حقوق کی بازگشت ہی کہیں گم ہوگئی ہے،اپنا جسم اپنی مرضی کہنے والی عورتوں کی زبانیں گنگ پڑی ہوئی ہیں،

شور پڑتی صورتحال میں بھی اِن کی ایک جھلک احتجاجا نظر نہیں آتی،کیا ایسا اِس لیے ہے کہ مسلمانوں سے اِن کو کوئی سروکار نہیں،صرف اِن کے مسلمانوں سے مطلب و طلب کے یارانے ،مفادات کی دوستیاں ہیں۔آئیے چلتے ہیں اپنے رہنماؤں کی طرف ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ اُس کی شہ رگ دشمن کے شکنجے میں ہو‘‘(قائد اعظم محمد علی جناح1948 زیارت)۔’’جموں وکشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہے،جموں اور کشمیر کے عوام پاکستانی عوام کا حصہ ہیں،یہ دونوں ایک خون ،ایک جسم اورایک طرز حیات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں،ہمارا جغرافیہ ،ہماری تاریخ سب ایک ہیں‘‘(وزیر خارجہ پاکستان،ذوالفقار علی بھٹو22 ستمبر1965 )۔’’مودی سرکار میں ہندو تواکا پجاری ٹولہ،مقبوضہ کشمیر میں اپنے تمام سفاکانہ حربوں اور ہتھکنڈوں سمیت منہ کے بل گرے گااور کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کا گلہ گھونٹنے کی اِن کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوگی‘‘(وزیر اعظم پاکستان عمران خان)۔پھر یہ کہ شملہ معاہدے کی رو سے دونوں ممالک پابند ہیں کہ ٭’’دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ حل طلب مسائل کے حتمی حل تک ،دونوں ممالک پر پابندی ہوگی کہ اِن حل طلب معاملات میں یکطرفہ طور پر کوئی تبدیلی لائیں‘‘۔٭’’جموں اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کا احترام دونوں ملکوں پر واجب ہوگا اور کسی فریق کو اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اسے یکطرفہ طور پرتبدیل کرسکے‘‘۔٭’’جموں و کشمیر سمیت دیگر حل طلب مسائل کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا‘‘۔دنیا اتنی اندھی اوربہری تو نہیں مگر حقیقت سنانی اور یاد دلانی پڑتی ہے،وعدوں ،معاہدوں سے ہم بھارت کو بھاگنے نہیں دیں گے،اور یہ کہ پاکستان کابچہ بچہ کشمیر کی آزادی کے لیے کھڑا ہے،پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا#
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.