راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)خالصتاًہندو انتہا
پسند تنظیم کا نام ہے جس کا قیام تقسیم ہند سے قبل 1925ء میں بھارتی ریاست
مہاراشٹرا کے دارلحکومت اور ہندوستان کے تیسرے بڑے شہر ناگپور میں
ہوا۔برطانوی راج میں اس تنظیم کو گوروں کی سرپرستی حاصل تھی اور یہ تنظیم
تحریک آزادی ہند اور مہاتما گاندھی کے سیکولر نظریات کی سخت مخالف تھی ۔ اس
کا نصب العین ہندو سماج کا اتحاد اور ہندو راشٹریعنی ہندو مملکت کا قیام
ہے۔ ایک ایسی مذہبی مملکت جس میں مسلمان ،مسیحی و دیگر مذہبی اقلیتیں دوسرے
درجے کی شہری اور ہندوئوں کی تابع ہوں ۔ آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا ہندو
تنظیمیں اس مفروضے پر یقین رکھتی ہیں کہ باہر سے آنے والے مذاہب اور تصورات
ان کے ہندو راشٹر کے تصور سے متصادم ہیں اور بیرونی مذاہب کے پیروکار کبھی
بھی بھارت کے وفادار نہیں ہو سکتے۔مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے
کا تعلق اسی تنظیم آر ایس ایس سے تھا۔ اس تنظیم کے شدت پسند نظریات اور
انتہاپسند دہشت گردانہ کارروائیوں پر ماضی میں کئی بار پابندیاں لگ چکی
ہیں۔ برطانوی راج میں ایک دفعہ اور تقسیم ہند کے بعد بھارتی ریاست کی طرف
سے تین بار پابندیاں عائد کی گئیں لیکن یہ تنظیم اپنے انتہا پسندانہ ہندو
نظریات کو لے کر وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی گئی۔آج اس نظریے پر یقین رکھنے
والوں کی تعداد میں نہ صرف ہوشربا حد تک اضافہ ہو چکا ہے بلکہ دنیا بھر
کے39ممالک بشمول متعدد اسلامی ممالک میں خفیہ طور پرایک مظبوط نیٹ ورک قائم
کر چکی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ عرب ریاستوں میں بھی یہ جماعت منظم مگر خفیہ
طریقے سے کام کر رہی ہے اور بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر کے
لیے سرمایہ بھی انہیں ممالک سے حاصل کیا گیا۔
معروف بھارتی مصنف اور قانون دان' اے جی نورانی' نے حال ہی میں 500صفحات پر
مشتمل کتا ب The RSS: A Menace to India میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی اہم
انکشافات کئے ہیں۔نورانی کے بقول اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت،
جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور
مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے اس لئے اس میدان میں براہ راست کودنے کی بجائے
آر ایس ایس نے 1951میں جن سنگھ اور پھر 1980میں بی جے پی تشکیل دی۔ بی جے
پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایما پر
اس کے تین نہایت طاقت ور صدور مالی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے
ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ 2005ء میں کراچی میں اس
نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔
آر ایس ایس میں خاص اور اہم عہدوں کے لیے صرف غیر شادی شدہ کارکنان کا ہی
انتخاب کیا جا تا ہے ۔ آر ایس ایس میں اہم پوزیشن حاصل کرنے کے لیے بھارتی
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بین کو شادی کے چند سا ل بعد
ہی چھوڑ دیاتھا۔ اس لئے آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ غیر شادی شدہ لوگوں پر
مشتمل ہے۔ آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو' شاکھا 'کہتے ہیں۔ ایک شہر یا
قصبہ میں کئی شاکھائیں ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کی پارکوں میں یہ
شاکھائیں ڈرل کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کی مشق کا اہتمام
کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
آر ایس ایس کی تقریبا 100سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم
ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں' بی جے پی'،سیکورٹی امور یا دوسرے لفظوں میں
غنڈہ گردی کے لیے'بجرنگ دل'، مزدورں یا ورکروں کے لیے' بھارتیہ مزدور
سنگھ'، دانشوروں کے لیے 'وچار منچ'، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی
کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے 'مسلم
راشٹریہ منچ' اور' جماعت علما 'نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں
میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔بھارت کے حالیہ انتخابات کے دوران یہ
تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگر م رہیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس
کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، مقامی سکولوں اور کالجوں سے طالب علموں کی
'طلباء ونگ ' میں بھرتیاں کی جاتی ہیں اورمقامی شاکھائوں کے ذریعے ذہن سازی
کی جاتی ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران 20 سے 35 سال کی عمر کے تقریبا 1 لاکھ
نوجوانوں کو آر ایس ایس میں بھرتی کیا جا چکا ہے جبکہ حیران کن طور پر اسی
ایک سال کے دوران بھرتی کیے جانے والے تربیت یافتہ کارکنان کی تعداد ایک
لاکھ 13ہزار 421رہی ۔
دنیا بھر میں آر ایس ایس کے یونٹس کی کل تعداد84877ہے جو ملک اور بیرون ملک
کے مختلف مقامات پر ہندوں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام
کررہی ہیں۔اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس بھارت کے 88فیصدحصہ میں اپنے یونٹس کا
جال بچھا چکی ہے ۔
بھارت سے باہر آر ایس ایس کے سب سے زیادہ یونٹس نیپال میں ہیں جبکہ دوسر ے
نمبر پر امریکہ میں 146یونٹس اور برطانیہ میں84شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کا
نیٹ ورک کینیا کے اندر بھی کافی حد تک مظبوط ہو چکا ہے اور یہ جال کینیا کے
پڑوسی ممالک تنزانیہ یوگانڈا ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔قابل
فکر بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطی کے مسلم ممالک میں بھی
موجودہیں۔ چونکہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت
نہیں ہے اس لئے وہاں کے یونٹس خفیہ طریقے سے کام کرتے اور گھروں کی حد تک
محدود ہیں۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک یونٹ بھی قائم ہے جہاں ویڈیولنک کے
ذریعے 20ممالک کانیٹ ورک چلایا جاتا ہے ۔ آر ایس ایس کی بیرون ملک سرگرمیوں
کے انچارج رام مادھو ہیں او ر وزیر اعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران
بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں۔ اس وقت کشمیر امور
کو بھی رام مادھو ہی دیکھ رہے ہیں۔
مودی سرکار کے کشمیر ہڑپ کرنے کے عزائم کے پیچھے بھی دراصل آرایس ایس کا
'اکھنڈ بھارت' کا ایجنڈا کارفرما ہے جسے کٹھ پتلی مودی سرکار عملی جامہ
پہنا رہی ہے یوں نازی مودی سرکار کی جان آر ایس ایس کے پنجرے میں قید ہے
۔بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے مدرسوں اور مذہبی تنظیموں پر دہشتگردی کو فروغ
دینے والی فیکٹریاں جیسے الزامات لگائے ۔عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو
مذہبی انتہا پسندوں اور شدت پسند تنظیموں کی آماجگاہ قرار دیا، بھارت ہمیشہ
یہی راگ الاپتا رہا کہ پاکستان دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی کرتا ہے ۔انہی
الزامات کی بنا پر بھارت نے ایک عالمی رائے عامہ قائم کی۔ پھر سیاسی و
سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو سفارتی تنہائی کی طرف لے جاتا
گیا لیکن پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ بھارت میں آر ایس ایس کی نرسریاں مذہبی
انتہا پسندی اور دہشتگردی کو نہ صرف فروغ دے رہی ہیں بلکہ دنیا بھر میں
پھیلے منظم نیٹ ورک کے ذریعے دہشتگردی کو ہوا دے رہی ہیں۔آر ایس ایس کی
دہشتگردانہ کارروائیوں پر خود بھارتی تحقیقاتی کمیشن گواہ ہے ۔آپ بھارت میں
والے فسادات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،1927 کا ناگپور فساد،48ء میں گاندھی
کا قتل،69ء کا احمد آباد فساد، 71ء میں تلشیری فساد ،79ء میں بہار کے جمشید
پور فرقہ وارانہ فساد،92ء میں بابری مسجد کے واقعہ میں یہی تنظیم متحرک رہی
۔ آر ایس ایس کو متعدد بار بھارتی تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے مختلف فرقہ
وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔مالیگا بم
دھماکا،حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکا،اجمیر بم دھماکا،سمجھوتہ ایکسپریس بم
دھماکا جیسی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں بھی یہی تنظیم ملوث رہی ۔لیکن مہذب
دنیا کی نگاہیں یہ سب دیکھنے سے قاصرر ہیں ۔بدقسمتی سے ماضی میں پاکستان کی
طرف سے بھی بھارت کی اس دہشتگرد تنظیم کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے
کے لیے منظم مہم نہیں چلائی جا سکی ۔خوش آئندامر یہ ہے کہ پہلی بار
وزیراعظم عمران خان نے بھارتی سرکار کے پیچھے چھپی شیطانی تنظیم آر ایس ایس
کونام لے کر بے نقاب کیا ہے اور مودی کی حقیقی طاقت پر مسلسل چوٹ لگا رہے
ہیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ تمام تر سیاسی ، سفارتی ، ملکی و بیرون ملک سول
سوسائٹی اور میڈیا کے محاذ پر آر ایس ایس کے نازی ازم اور فاشسٹ مودی سرکار
کے خلا ف بھرپور اور منظم مہم چلائی جائے اور عالمی امن کو بھارتی شیطانیت
کے گڑھ ''آر ایس ایس'' کے ہاتھوں لاحق خطرات کے خلاف عالمی رائے عامہ کو
ہموار کیا جائے ۔27ستمبر کے جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل اس مہم کو ایک تحریک
کی شکل دی جائے تاکہ عالمی برادری پر رائے عامہ کا دبائو بڑھانے میں مدد
ملے ۔
|