سفارت خانے

جنگ میں نقصان ہی نقصان ہے وہ بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا، امن ، موت،محبت، قرض، اداسی سب جنگ کے نقصانات ہیں ہم بھارت کی ایک تہائی ہیں ہم ان کے ساتھ جارخانہ انداز نہیں اپنا سکتے لیکن اپنا دفاع کر سکتے ہیں یہ بات بھارت کو بھی اچھے طریقے سے پتہ ہے۔

ہمیں اپنی فضائی حدود بالکل بند نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسکی وجہ سے جتنا نقصان بھارت کو ھو گا اس سے زیادہ نقصان پاکستا ن کا اپنا ھو گا ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور ان کے دفتر سے باہر ٓا گیا۔
وہ 60سال کے بزرگ ہیں کنسٹریکشن کا کام کرتے ہیں۔ میں کبھی کبھی ان سے ملنے ان کے دفتر چلا جاتا تھا، لیکن ان کی با تیں صحیح تھیں کہ جنگ کو اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہیے، خصوصی طور پراس وقت جب آپ کی معاشی حالت بہت کمزور ھو۔

پلوامہ حملے کے بعد جب پاکستان نے اپنی فضائی حدود بند کی تھی،تو بھارت کا مجموعہ نقصان 549 کروڑ تھا جبکہ پاکستان کا اپنا نقصان 850کروڑ تھا اور ہم جیسا چھوٹا ملک ایسے نقصان برداشت نہیں کر سکتا، لیکن سوال تو یہ تھا کہ 30 منٹ ٹریفک اشارے بند کرنے سے کیا ہو گا ، میرے خیال کے مطابق عمران خان عالمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں پاکستان کا اسوقت سب سے بڑا مسلہ سفارتی تنہائی ہے۔

چین ، ترکی ، ایران کے علاوہ کسی بھی ملک نے کشمیر کے موقف کی حمایت نہیں کی، عمران خان کو چاہیے ملیحہ لودھی اور شا ہ محمود قریشی کو فارغ کر دیں کیونکہ دفتر خارجہ دنیا میں کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے نقطہ نظر کا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہے۔سفارتی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان بلکل تنہا ہے۔

میں زرداری صاحب کی پارلیمینٹ میں کی ہوئی تقریر کو ٹھیک مانتا ہوں کہ ہمیں اپنے ہی ملک میں تقریریں کرنے کی بجا ئے۔ اس وقت سب ملکوں کے دورے کرنے چاہیے اور عالمی دنیا کو بھارت کی کشمیر میں جارخانہ رویے کے بارے میں ٓاگاہ کرنا چاہیے۔

عالمی دنیا کے ساتھ سفاتی تعلقات کتنے اہم ہیں اس کو جاننے کے لیے ہم پاکستان کی تاریخ میں تھوڑا پیچھے چلے جاتے ہیں ، 1979 میں جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو پھانسی دی تھی تو پوری دنیا ہم سے ناراض ہو گئی تھی اسلامی ممالک نے تو باقاعدہ بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ایک وقت تو ایسا آیا کہ پاکستان کے زرمبادلہ ریزرو سو ملین ڈالر سے بھی کم رہ گیے تھے اس وقت اگر ٓاغا حسن عابدی 400 ملین ڈالر قرض نہ دیتے اور سعودی عرب زکوتہ کے پیسوں سے 100 ملین ڈالر نہ دیتے تو پاکستان خدانخواستہ اندھیروں میں ڈوب جاتا۔

جنرل ضیاء جانتے تھے کہ اگر پاکستان نے ان حالات سے باہر ٓانا ہے تو عالمی دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا تو انھوں نے دفترخارجہ کو ہی اپنا دفتر بنا لیا تھا۔

وہ دنیا میں موجود تمام پاکستانی سفیروں سے خود بات کرتے اور ان کی رائے کو نہ صرف سنتے بلکہ اس پر عمل کرنے کی کو شش بھی کرتے وہ پاکستان میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کی تقریبات میں بھی خود شامل ہونے کی کوشش کرتے، اس سب عمل سے کچھ ہی عرصے میں انھوں نے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکال لیا تھا۔

آج بھی اگر آپ کی ملاقات جنرل ضیاء کے دور کے دفتر خارجہ کے کسی ملازم سے ہو تو وہ بتائے گا جتنی عزت دفتر خارجہ کو اس دور میں ملی اس کے بعد کسی خکمران نے نہیں دی ۔

عمران خان کو چاہیے کی دنیا میں موجود پاکستان کے تمام سفارتکاروں سے ملاقات کریں اور کشمیر کے معاملے پر خصوصی ہدایات دیں اور جن بیرونی ممالک کے سفیر پاکستان میں موجود ہیں ہیں ان کو مدعو کریں اور مسئلہ کشمیر پر بریف کریں ، کیونکہ اب جنگ گولی بندوق والی نہیں ہو گی جنگ سفارتی ہو گی۔عمران خان کو 30 منٹ ٹریفک بند کرنے کی بجائے، 30 منٹ مختلف ملکوں کے رہنماؤں سے ملنا چاہیے اور ان کو 92 ورلڈکپ ، شوکت خانم اور NRO نہ دینے کے علاوہ یہ بھی بتانا چاہیے کہ پاکستان کشمیر میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا، ورنہ ٹریفک سگنل پر کھڑے کھڑے اور بغیر لڑے یہ جنگ ہم یہ جنگ ہار جائیں گے اور ہمارے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہو گا ۔آنے والی نسلیں 1965 کے معاہدہ تاشقند، 1917 کے معاہدہ شملہ،1999 میں معاہدہ کلنٹن اور 2019 میں کشمیر کے با رے میں ہمیں ہی گنہگار سمجھیں گی۔وہ بھارت کی فوج کی صبح لاھور میں ناشتہ کرنے والی منصوبہ بندی کی کہانیاں سن کر خوش نہیں ہو گے بلکہ جنگون کے متعلق سوال کریں گے اور ھمارے پاس کو ئی جواب نہیں ھو گا

Ali Sultan
About the Author: Ali Sultan Read More Articles by Ali Sultan: 22 Articles with 14588 views I am basically from a village in the vicinity of Jhelum. came to Lahore in 2005 to pursue my career and goals.i am enthusiastic writer, keen observer .. View More