بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ''I
don't believe in taking right decisions,I take decisions and make them
right" قائداعظم منطقی اور دوٹوک مؤقف اختیار کرتے اور اس پر ڈٹ جاتے تھے ۔آپ
ایسے مرد مجاہدتھے کہ آپ کو متزلزل کرنے کی لاکھوں کوشش کی جاتیں مگر آپ
اپنے فیصلوں کے سامنے خود جھکنے کی بجائے دنیا کو جھکنے پر مجبور کر دیتے
تھے۔ آپ تمام فاتح مسلم سلاطین کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیں ۔۔طارق بن زیاد
نے سوچا اور کشتیاں جلا دیں کہ جیت کر واپسی ہوگی ورنہ کبھی نہیں ہوگی ۔نور
الدین زنگی کے کردار اور استقامت نے صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کو ہلا کر
رکھ دیا۔ محمود غزنوی کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان کے بت کدے لرزتے تھے
۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی معاملہ فہمی اور فیصلہ سازشخصیت نے اپنی
اولولعزمی سے بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ محمد بن قاسم نے ایک بیٹی کی پکار
پر تلوار اٹھائی توظلم و کفر کے سومنات مٹا دئیے ۔ حضرت امام حسین ؑنے اپنا
خانوادہ قربان کروا لیا! مگر اپنے فیصلے سے دستبردار نہ ہوئے ۔خلفائے
راشدین کی زندگیاں اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی فلاح میں گزریں۔ ہمارے
پیارے نبیؐ کی حیات طیبہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔آپؐ کے پائے استقلال میں کوئی
کمزوری نہ آئی اورآپ ؐنے نہ ہی کوئی ایسی بات/ فیصلہ کیا جس سے دوسروں کو
قائل نہ کیا جا سکے ۔پس ثابت ہوا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں ، کچھ خواہش کرتے
ہیں اور کچھ وہ جو کر کے دکھاتے ہیں،وہ عظیم ترین ہوتے ہیں ۔ان سب ہستیوں
نے کر کے دکھا دیا کیونکہ وہ اپنے ارادوں میں مخلص تھے بریں وجہ اﷲ کی مدد
شامل حال تھی ۔ اسی لیے بڑھتے چلے گئے حتی کہ حالت یہ تھی :’’ دشت تو دشت
تھے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے ،بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے ‘‘!
کسی سچے مسلمان راہنما نے ’’یوٹرن ‘‘ (وعدہ شکنی ) کو اپنا وطیرہ نہیں
بنایا کیونکہ وہ فیصلہ سازی کی صلاحیت اور کئے ہوئے وعدوں کی شان رکھتے تھے
۔ مجھے تاریخ کے اوراق کو اس لیے پلٹنا پڑا کہ ہمارے وزیراعظم ریاست مدینہ
کے قیام کی بات کرتے ہیں اوربعض خوشامدی انھیں قائداعظم ثانی کہتے ہیں لیکن
مقام حیرت ہے کہ جناب وزیراعظم نے خطاب کے دوران کہا ہے کہ’’ سب کہتے ہیں
کہ میں یوٹرن لیتا ہوں،میں ’’یو ٹرن ‘‘ لیتے لیتے وزیراعظم بن گیا ہوں جبکہ
میرے مخالفین جیلوں میں پڑے ہیں۔‘‘ دانشوران کے مطابق جناب نے جو یو ٹرن
لئے اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو یو ٹرن کا مطلب ’’فیصلوں اور قول پر قائم
نہ رہنا‘‘ نکلتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ جناب عمران خان نے وہ تمام کام جو
ماضی کے حکمران کرتے تھے اور قوم سے وعدہ کیا تھاکہ وہ نہیں کریں گے، سب
وعدوں کو توڑ کر ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں ۔ان کی اسی
عادت کیوجہ سے نظریاتی کارکن ان سے مایوس ہو چکے ہیں اور موقع پرست سیاسی
شعبدہ باز اور خوشامدی انھیں گھیر چکے ہیں بریں وجہ انھیں حالات کی نزاکت ،عوامی
عدم اعتماد اور گڈ گورننس کے فقدان کا بالکل اندازہ نہیں ہے بلکہ کشمیر
مسئلے پراحتجاجی بیان نے عوام میں پھیلی مایوسی کو بڑھا دیاہے ۔
جناب وزیراعظم کو پاکستان کی عنان حکومت سنبھالے ایک برس بیت چکا ہے ،عوام
کے حالات نا گفتہ بہ ہیں ، کسی بھی قسم کا کوئی تعمیری منصوبہ اناؤنس نہیں
کیا گیا ، ہر قسم کا جائز و نا جائز ٹیکس بڑھا کر لگا دیا گیا ہے ، مہنگائی
آسمان سے باتیں کر رہی ہے ، ادویات ستر فیصد مہنگی ہوچکی ہیں ، سرکاری
ہسپتالوں میں فری ٹیسٹ کی سہولت ختم کر دی گئی ہے ، اشیائے خوردونوش کی
قیمتیں متوسط طبقے کے بس سے بھی باہر ہیں ۔عوام کو سبسٹڈی بھی نہیں دی جا
رہی بلکہ الٹا ایک ایک پائی کا حساب لینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ
خزانہ حکمرانوں نے لوٹا تھا ۔عوام تو پہلے بھی ٹیکس دیتے چلے آرہے تھے
اورخزانہ خالی ہونے کا راگ تو ہر دور حکومت میں گایا گیا لہذا ملک میں حاصل
شدہ وسائل اور بہتر حکمت عملی کے ساتھ بہترین نتائج دینا ہی تو کمال تھا ۔ایک
سال مکمل ہونے پرقوم منتظر تھی کہ جناب وزیراعظم قوم کو بتائیں گے کہ قرضوں
کی مد میں لی گئی امداد اورعوامی ٹیکسوں نے ملک کے حالات کس حد تک سنوارے
ہیں؟کیونکہ شاید اب چوری تو نہیں ہو رہی ہے مگر اس مرتبہ بھی کچھ نیا نہیں
تھاماسوائے اس کے کہ’’ میں کشمیر کا سفیر بنوں گا ‘‘۔ تبدیلی کا خواب جو
پاکستانی عوام کی آنکھوں کولہو لہو کر گیا ہے اس غم کا مداوا کون کرے گا؟
مسئلہ کشمیر تو بہتر سالوں سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر لٹکا ہوا ہے
اور اب مودی کی کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی غیر آئینی کوشش کے بعد جدو
جہد آزادی میں تیزی آگئی ہے جس سے بھارتی مظالم میں بھی روز بروز شدت آرہی
ہے کہ چنار و انار آتش فشاں بن کر پھوٹ پڑے ہیں ،گلیاں بازار سرخ ہیں اور
جنت نظیر وادی میدان کربلا بن چکی ہے ۔مظلوموں کی پکار نئی نہیں، مسلم امہ
کی جانب سے ہنوز خاموشی اور رسمی سیاسی بیانات بھی روٹین کا حصہ
ہیں۔افسوسناک یہ ہے کہ چین کے علاوہ کسی بھی ملک کی طرف سے دوٹوک اور حتمی
مؤقف نہیں اپنایا گیا بلکہ مسلم امہ کی بے حسی اورمنافقت کا یہ عالم ہے کہ
متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول
ایوارڈ ز سے نوازا گیا ہے ۔ اس سے پہلے گذشتہ ۵ برسوں کے دوران سعودی عرب ،
مالدیپ ،فلسطین اورافغانستان بھی نریندر مودی کو اپنے ممالک کے اعلیٰ ترین
سول ایوارڈ ز سے نواز چکے ہیں ۔مسلم امہ کی جانب سے نریندر مودی کی پذیرائی
ہی نہیں بلکہ ہماری خارجہ پالیسی بھی سوالیہ نشان ہے کہ یہ لمحہ فکریہ ہے
کہ برادر ممالک نے ابھی تک غیرت اسلامی یا اخوت اسلامی کا کوئی اظہار نہیں
کیا ۔۔؟
سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے عالمی سیاسی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا
تھا۔ ایسے حکمران برسر اقتدار آ ئے جن کی جیت بوجہ تعصب اور مسلمانوں کے
خلاف کھلم کھلا اظہار نفرت تھا۔یہ الارم تھا کہ پاکستان کو مضبوط خارجہ
پالیسی ترتیب دینے اور دیرینہ دشمنوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے تجارتی یا
سفارتی تعلقات قائم کرنے سے پہلے بنیادی تنازعات کو حل کر لینا چاہیے بلکہ
راہداریوں پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے مگر کرتا دھرتا کی ترجیحات اور
بیانات اس کے بر عکس تھے ۔بریں وجہ برکس اعلامیہ میں جب پاکستان میں مقیم
انتہا پسند تنظیموں کی بات کی گئی اور اس معاملے کو اچھالا گیا تو پاکستان
من و عن اپنے مفادات کا تحفظ نہ کر سکاکہ دہشت گردی کے خلاف پاک افواج کی
قربانیوں اور بے بنیاد الزامات پر دنیا کو قائل نہ کر سکا کیونکہ ہمارے
ماضی کے حکمران اپنی سپاہ سے ہی نبرد آزما رہے اس لیے پاکستان اپنے اندر ہی
الجھ کر رہ گیا۔پھر امریکی دوروں اور دیگر سفارتی ملاقاتوں کے بعد دفعتا ً
ہمارے حکمرانوں کے منہ پر’’ گھر کی صفائی‘‘ کے بیا نیے نے ہمیں اقوام عالم
میں مزید مشکوک بنا دیا۔ سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور ان کی
جماعت کے راہنماؤں کے پاکستان مخالف بیانیے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بین
الاقوامی میڈیا ہر چیز اچھال رہا تھا جبکہ ہمارے ہاں پوری اپوزیشن کی طرف
سے ڈگڈگی پر تماشا جاری تھا ۔۔اس ماحول میں وزیراعظم عمران خان نے عنان
حکومت سنبھالتے ہی دنیا کو چیخ چیخ کر خود بتایا کہ سابقہ حکمرانوں نے سب
لوٹ لیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ہر لحاظ سے بدنام ہوگیا چونکہ تجربہ
کارجانتے ہیں کہ ملکی استحکام کے لیے مستحکم معیشیت کا ہونا لازمی ہے اگر
معیشیت کمزور ہے تو زوال یقینی ہے جبکہ ہمارا سیاسی فہم و تدبر تو ابھی
پنگھوڑوں میں سو رہا ہے۔ اسی چیز کا فائدہ دشمنوں نے اٹھایا۔ ہمارے
حکمرانوں نے ہر دور میں ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی کبھی دوستی
اور کبھی امن کے نام پر دشمنوں کو گلے لگایا اورقوم کو ہمیشہ دھوکا دیا
۔حالانکہ حدیث ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ‘‘۔ کیاکریں
کہ آج کا مومن نام کا مومن رہ گیاہے ۔آج فروعی اختلافات کو بھلا کر ایک
ہونا ،ذاتی مفادات کو مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی پکار پر قربان کرنا،
مسلمان حکمرانوں کا اولین فرض تھا مگریوں لگتا ہے کہ وہ مائیں ہی اور تھیں
جنھوں نے طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے بیٹے پیدا کئے جن کی تلواروں
کی گرج سے دشمن لرزتا تھا جبکہ آ ج مومن کی تلواروں تلے دشمن ناچتا ہے
۔وزیراعظم کی اصل اور بڑی غلطی یہ ہے کہ اگر احتساب کرنا تھا تو انصاف پر
مبنی ترازو لیکر فوری عمل مکمل ہو جاتا تاکہ ملک میں پارٹی بازی اور
افراتفری نہ ہونے پاتی اور جگ ہنسائی بھی نہ ہوتی ۔اب عدلیہ اور افوج کو
بھی زیر بحث لایا گیا اور مقابلے جاری ہیں ۔
بہر حال ہم نے بھی مودی کو سلامتی کونسل میں ووٹ کیا جبکہ بھارت کی طرف سے
جارحانہ ردعمل ہی سامنے آیالیکن پاکستان کی طرف سے ہر ممکن نرمی اور نادانی
اختیار کی گئی۔ اب بھی کرتار پور باڈر پر 31 اگست تک کام مکمل ہونے کے بعد
اسے پیام امن کے لیے کھولنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ جون ایلیا نے کیا خوب
کہا تھا کہ : ’’دھوکے ایسے ہی نہیں ملتے ،بھلا کرنا پڑتا ہے لوگوں کا‘‘
!اصل فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا کہ یہ راہداریاں کیا گل کھلائیں گی
۔سوال یہ ہے کہ بھارت جو بہتر سالوں میں جرات نہیں کر سکا وہ اس نے اب کیسے
کی اور اس وقت کی جب ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں ؟ ویسے توسلامتی کونسل کی طرف
سے ہومیوپیتھک حکم نامے کے بعد واضح ہو گیا تھاکہ دنیا کو بین الاقوامی
قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر بھارت سے خاص شکوہ نہیں ہے ۔اب ٹرمپ مودی
ملاقات کا جو کلپ سامنے آیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں اپنے ایجنڈے کو
مکمل کرچکے ہیں باقی سب شعبدہ بازیاں ہیں ۔ اسی لیے قائداعظم محمد علی جناح
نے فرمایا تھا کہ لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں ،کیونکہ آدھی جنگ
تو لیڈروں کے صحیح انتخاب سے ہی فتح ہو جاتی ہے ۔
آپ قائد اعظم کی بات کرتے ہیں ۔قائداعظم وہ لیڈر تھے جو مخالفین کے مقابلے
میں بدرجہاں زیادہ راست باز تھے۔ وہ کبھی مقبولیت کے لیے عوام کے جزبات سے
نہیں کھیلے بلکہ اپنے ضمیر کی روشنی میں قدم اٹھاتے ،منطقی اور حتمی فیصلہ
سناتے اور اس پر قائم رہتے تھے ۔ان کا استدلال ایمان و یقین پر مبنی تھا اس
لیے کوئی شخص ان کی دلیل کو جھٹلا نہیں سکتا تھا ۔وہ غیر معمولی بصیرت کے
مالک ہونے کے باعث گاندھی اور نہرو کے عزائم کو بھانپ لیتے تھے انہی اوصاف
کی بناء پر دنیا نے ان کی بات سنی ،انھیں تسلیم کیا اور وہ دوسری اسلامی
ریاست کے قیام کی جدو جہد میں کامیاب ہوئے ۔مفاداتی ہوس میں لتھڑے ہوئے ،
گھٹیا تھڑے باز زبان بولنے ،اسمبلی فلور پر جوتوں سے ایک دوسرے کی عزت
افزائی کرنے ،مخالفین کو نازیبا القابات سے نوازنے والے ، عوام کو جھوٹے
وعدوں اور دلکش سپنے دکھا کر اقتدار حاصل کر کے نا جائز ٹیکس لگا کر لوٹنے
والے، دنیا کو کیسے باور کروائیں گے کہ وہ اپنے قومی حق کے لیے کوشاں ہیں
جبکہ دنیا جان گئی ہے کہ ’’ذاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن ‘‘! وقتی
تقاضا ہے آپ سوچیں کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں ، کچھ خواہش کرتے ہیں اور کچھ کر
کے دکھاتے ہیں ۔۔آپ کون ہیں؟ آخر میں قارئین کرام آپ سے اور کشمیری بھائی
بہنوں سے اتنا کہونگی کہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتاکیونکہ ستارے
رات کو ہی چمکتے ہیں بعض اوقات کوئی شکست بہت بڑی جیت کا نقارہ ہوتی ہے
تاحال یہ بھی طے ہے کہ آج کے برسر اقتدار ٹولے اور اپوزیشن راہنماؤں نے
ذاتی مفادات اور ہوس و لالچ میں ایٹمی طاقت پاکستان کو رسوا اور آزادی
کشمیر کو دھندلا دیا ہے ۔!
|