آج معاشرے میں ہر فرد ’’جھوٹ‘‘کو کامیابی کی سیڑھی سمجھنے
لگا ہے ۔اہلِ دانش چاہے جتنا بھی کہتے رہیں کہ سچ ہار کر بھی جیت جاتا ہے
اور جھوٹ کی فتح کو کسی اعتبار سے فتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ بات کتنی
بھی حقیقت پر مبنی ہو ،مگر عام فرد اس بات پر یقین نہیں رکھتا۔عام فرد کیسے
یقین کر لے ؟کیونکہ وہ جھوٹ کے تماشے کو ہر طرف کامیابی سے ہم کنار ہوتا
دیکھتا ہے ۔جھوٹ کامیابی کی کنجی اور سچ ہر جگہ ناکامی یا مشکلات کا شکار
دکھائی دیتا ہے ۔
یوں تو انسان نے بہت کچھ ایجاد اور دریافت کر لیا ہے ،مگر آج بھی بہت سے
معاملات میں انسان اپنے ابتدائی دور سے نہیں نکل پایا۔زمانے نے طویل سفر کر
کے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی تو حاصل کر لی ہے ،مگر ابھی بھی انسان کچھ
زیادہ سیکھ نہیں پایا ہے ۔سوچنے ،سمجھنے اور چیزوں یا تعلقات کو برتنے کا
ڈھنگ وہی ہے ۔جھوٹ کل بھی عروج پر تھا،آج بھی راج کر رہا ہے ۔کیونکہ سچ
قربانی مانگتا ہے اس لئے یہ کم لوگوں کا مقدر بنتا ہے ۔حالانکہ جھوٹ عارضی
مسرت فراہم کر سکتا ہے ،مگر حقیقی کامیابی سچ ہی میں پنہاں ہے ۔کیونکہ
انسان عجلت پسند واقع ہوا ہے اور سچ کے راستے پر چلنے کے لئے صبر ،تحمل اور
انتظار کی ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن کائنات کے خالق و مالک نے بھی انسان کو جلد
باز اور نا شکرا کہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قوم کی ناکامیاں مقدر بن چکی ہیں ۔جس
قوم کا وزیر اعظم یہ کہے کہ وہ 22برس یو ٹرن لے لے کر یہاں تک پہنچا ہے ۔یعنی
جھوٹ پر جھوٹ بول کر وزیر اعظم کی سیٹ تک پہنچ گیا ہوں تو ایسے لیڈر کی
پیروی کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ۔جو جھوٹ کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں
۔فوری نتائج کے حصول کے لئے شارٹ کٹ کو اپناتے ہیں،جس سے زندگی کے معاملات
میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور معاشرہ بدبودار عادات کا شکار ہو جاتا ہے ۔جیسا
کہ آج بن چکا ہے ۔
پاکستان کو عرصے سے ایسی ہی قیادت میسر رہی ہے ۔جو اقتدار کے پجاری رہے ہیں
۔جنہیں جھوٹ کی کامیابی کا یقین رہا ہے ۔سیاست جیسے پاکیزہ اور خدمت خلق کے
شعبہ کو طوائف کا کوٹھا بنا کر رکھ دیا ہے ۔ورنہ پاکستان اپنے بیش بہا
قدرتی وسائل ، 750کلومیٹر طویل ساحل ،کوئلے ،گیس اور پیٹرول کے وسیع ذخائر
کے علاوہ زرخیز زمین ،ذہین اور جفاکش افرادی قوت کے باوجود غریب اوربھیک
مانگنے والا ملک نہ ہوتا ۔23بار آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لیا گیا ہے ۔بار
بار عالمی طاقتوں کے شکنجے میں ملک و قوم کو جکڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی
۔2000ء میں جنوبی کوریا پر معاشی بحران آیا ،آئی ایم ایف سے مدد لی ۔انہیں
بھی بہت سی پابندیوں کا شکار ہونا پڑا۔لیکن جنوبی کوریا کی قیادت اور عوام
یک جان ہو گئی ۔ایک سال میں آئی ایم ایف کا قرضہ اتارا اور آئندہ کے لئے
توبہ کی ۔انہوں نے اس بحران سے بہت بڑا سبق سیکھا اور آئندہ ان کمزوریوں پر
مکمل قابو پایا،مگر پاکستان نے 23بار ڈنگ کھانے کے بعد پھر کچھ نہ سیکھا ہے
یا سیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔کیونکہ اپنے اپنے مفادات کی بیل اسی وقت منڈے
لگتی ہے جب بیرونی قرضے لیے جائیں ۔
حالات یہ ہیں کہ 22کروڑ سے زیادہ آبادی کے ملک میں 25لاکھ سے زیادہ لوگ
ٹیکس نہیں دیتے ۔پاکستان کا ہر عام شہری ٹیکس دینا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی
مد میں دے بھی رہا ہے ۔لیکن وہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے حکومتی خزانے تک
نہیں پہنچ رہا۔ٹیکس سسٹم کو بہترین کرنے کے لئے کبھی بھی مؤثر لائحہ عمل
نہیں اپنایا گیا۔یہ ماضی کی حکومتوں کی بڑی غلطی رہی اور موجودہ حکومت بھی
اس مسئلے پر ان سے پیچھے نہیں ہے ۔نا اہلی اور غیر سنجیدگی کی انتہا یہ ہے
کہ چھوٹے دکانداروں کوتو ٹیکس کی ادائیگی پر سختی کر رہے ہیں ۔لیکن زرعی
شعبے میں گھومنے والے ارب پتی خاندانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت
سرکار میں نہیں آسکی ۔کہنے کو حکمران بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ،مگر ان کا عملی
اقدام کوئی سامنے نہیں آیا ۔جس سے ٹیکس سسٹم میں بہتری آنے کے چانسز بن رہے
ہوں ۔بڑی بڑی حویلیوں ،مہنگی گاڑیوں اور بھاری رقوم بینکوں میں رکھنے والوں
کا کھوج لگانے کی بات کرتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف 7 سو ارب روپے کی رقم
بینکوں سے نکلوائی جاتی ہے ۔جسے کوئی نہیں پوچھ رہا۔
نیب کی جانبدارانہ پالیسی نے ملک کو دیوالیہ کر کے رکھ دیا ہے ۔سرمایہ کاری
ختم ہو کر رہ گئی ہے ،کاروبار ختم ہو چکا ہے ۔تاجر برادری نے احتجاج کرکے
دیکھ لیا۔حکومت کسی مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ۔پورا ملک بند ہو
جائے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔اپوزیشن کو دیوارمیں چنوا دیا
گیا ہے ۔اپوزیشن جن مسائل میں پھنسا دی گئی ہے ،وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے
کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔لیکن تاجر اور صنعت کار کاروباری لوگ ہیں ،وہ اپنا
نقصان کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے ۔ان کے احتجاج سے حکومت کو کچھ فرق
نہیں پڑا تو انہوں نے اپنے دیرینہ ہمدردوں اور پسِ پردہ کام کرنے والوں کی
مدد سے مطالبات منوا لیے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نیب کے قوانین میں
ترامیم کر رہی ہے ۔حکومت نے چار صنعتوں پر واجب الاداانفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ
چارجز 250ارب روپے معاف کروا لیے ہیں۔لیکن اس سے غریب کسانوں کو کوئی فائدہ
نہیں ہوگابلکہ ملک کے چند صنعت کاروں کو فائدہ ہو گا،ان صنعت کاروں میں سب
سے زیادہ فائدہ وزیر اعظم کے درینہ ہم دم جہانگیر ترین،رزاق داؤد ،عارف
نقوی اور عارف حبیب کو ہو گا۔یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی رقم
کسی حکومت نے یک مشت معاف نہیں کی ۔کیونکہ یہ صنعت کار حکمرانوں کو اقتدار
پر لانے کے لئے من،دھن کی بازی لگاتے ہی اسی لئے ہیں ۔اس لئے ان صنعت کاروں
نے بہت پہلے ہی اس کی پلاننگ کر لی تھی۔یہی وجہ تھی کہ اس کے لئے سست
عدالتی نظام کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔
ایک طرف عمران خان ماضی کے حکمرانوں کو پکڑ رہا ہے کہ انہوں نے ملک و قوم
کے پیسے کھائے ہیں ،ان سے رقوم وصول کی جائیں تاکہ ملک کو چلایا جا سکے ۔آئی
ایم ایف کی غلامی میں پھر قوم کو دھکیل دیا جاتا ہے ،مگر اپنے سپانسرز کو
ٹیکس کی مد میں لیا ہوا پیسہ سود سمیت واپس کر دیا جاتا ہے ۔عوام کو بتایا
جائے کہ ’’Cess‘‘کیا ہے ؟یہ ٹیکس کے سوا کچھ نہیں۔لیکن غریبوں کے خون سے
چوسنے والوں کی مدد کر کے عمران خان نے بڑی غلطی کی ہے ۔جس کا خمیازہ انہیں
ضرور بھگتنا پڑے گا۔
آج غریب کیسے چکی میں پس رہا ہے ۔حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں میں دکھائی نہیں
دے رہا،مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔جائز اور ناجائز تمام تر مراعات
اشرافیا کے لئے ہیں ،جن کے خاندان کے افراد ہر سیاسی پارٹی میں موجود ہوتے
ہیں ۔اگر نہ بھی ہوں تو’’ لوٹا‘‘ بننا ان کے لئے کوئی شرم کی بات نہیں ہے
۔لیکن عمران خان کو 250ارب روپے کی بندر بانٹ آسانی سے ہضم نہیں ہو گی
۔چاہے نیب کے قوانین میں ترامیم کر لیں یا اپنے ایمپائر کی سپورٹ لے لیں
۔وہ دن دور نہیں جب جھوٹ کا پلندہ گلے پڑے گا ۔اس دن اندازہ ہو گا کہ جھوٹ
کامیابی نہیں بلکہ سچ ہی اصل کامیابی کی بنیاد ہے ۔لیکن اس کے لئے شرط ہے
کہ صبر اور تحمل سے انتظار کیا جائے ۔
|