دشمن سے زندگی کی بھیک مت مانگو․․․!

سچ تو یہ ہے کہ پہلے ہی ہم ناقص العقل تھے ،اب مفلوج العقل ہو کر رہ گئے ہیں۔کیونکہ جتنا بھی سوچ لیں ،بھارت کے ساتھ حکومتی رویہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’اگر بھارت نے کوئی ایڈونچر کیا تو بھر پور جواب دیں گے ‘‘۔او بھئی ! مودی نے تو بہت بڑا ایڈونچر کر دیا ۔جواب میں آپ نے کیا کیا ہے ؟سوائے زبانی کلامی دھمکی آمیز بیانات،میڈیا پر کشمیر کے پروگرام،ٹیوٹ،مختلف ممالک کے سربراہان سے فون پر گفتگو کی خبروں کے علاوہ کشمیریوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔اس سے مودی کے ایڈونچر یا کشمیری تحریک کو کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی بھارتی فوج کے کشمیریوں پر بہیمانہ مظالم ختم ہوں گے ۔کشمیر پر بھارتی مظالم پر بین القوامی طور پر خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت نے دنیا کو اپنے گھناؤنے منصوبے میں اعتماد میں لے رکھا ہے ۔ماضی میں ہمارے حکمران بھی خوش فہمی کا شکار رہے ہیں ۔کون سا ایسی حکومت رہی جس نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگایا ہو ،مگر متعصب ہندو کی فطرت میں ڈنگ مارنا ہے ۔

ہم ابھی بھی کن خیالوں میں گم ہیں ۔ہمیں یہ امید ہے کہ جب کبھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو اٹھے گا اور وہاں کے حالات سامنے آئیں گے ،پھر عالمی دنیا بھارت کے خلاف ہو جائے گی ۔لیکن اگر عالمی برادری میں اتنی انسانیت ہوتی تو اس وقت تک بیرونی دباؤ کی وجہ سے کشمیریوں پر بد ترین کرفیو ختم ہو چکا ہوتا،مگر مودی پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے ۔

پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ،حکومتی عہدیداروں کی بلندو بانگ تقریریں اور عمران خان کی 27ستمبر کو اقوام متحدہ میں خطاب کشمیریوں کے کسی فائدے کے لئے نہیں ہے ۔عوام بھی کسی غلط فہمی میں نہیں ہے کہ حکومت کے مسئلہ کشمیر سے اپنے کیا کیا مفادات وابسطہ ہیں ۔ایک طرف ہم بھارت کو ظالم جابر اورعظیم دشمن سمجھتے ہیں،جو ہمارے لاکھوں کشمیری بھائیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پر ہے،ہم کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے مختلف انداز میں احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں ،مگر ہماری منافقت کی انتہا یہ ہے کہ اسی انسانیت کے بڑے قاتل سے جان بچانے کے لئے ادویات اور سرجیکل آلات لے رہے ہیں ۔کیا ساری دنیا ختم ہو گئی ہے ۔ہمیں شاید نہ دشمنی کرنی آتی ہے اور نہ ہی دوستی ۔مفادات کے بھنور میں ایسے بہتے جا رہے ہیں کہ اَنا ،خودمختاری اور عزت کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔میر جعفر اور میر صادق کی پیداوار اتنی زیادہ ہو گئی ہے ،کہ بہت سستی قیمت پر مارکیٹ میں عام میسر ہیں ۔کیا بھارت کو اس سے اندازہ نہیں ہو رہا ہو گا کہ جو قوم اپنی جان بچانے کے لئے ادویات تک ہم سے خریدنے کے لئے مجبور ہے وہ بھلا ہم سے کیا ٹکرلے گی۔ایک طرف پاکستان سرجیکل آلات بنانے کا چیمپئن ظاہر کرواتے ہیں ۔لیکن ہم سرجیکل آلات بھی بھارت سے منگوا رہے ہیں ۔ویسے بھارت ہمارا درینہ دشمن ہے ،مگر ہم سیکھوں کے لئے کرتار پور راہداری کھول رہے ہیں ۔ترجمان وزارت خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی بھارت سے واپسی پر خوشی کی انتہا سب نے دیکھی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بابا گرونانک کے 550ویں یوم پیدائش پر نومبر میں کرتار پور راہداری کھولنے کے لئے پُر عزم ہیں ۔بھارت نے پانچ ہزار سکھ یاتریوں کا کہا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں جتنے مرضی سکھ آ جائیں ہم انہیں سینے سے لگائیں گے ۔اوبھائی !سکھ کون ہیں ؟یہ بھی بھارتی شہری ہیں ۔بھارت میں کوئی پٹاخہ بھی پھٹتا ہے تو ہمارے فنکاروں کو ذلیل کر کے ملک سے باہر نکال دیتے ہیں ،مگر ہم ہیں کہ ہم اپنے دشمنوں کو ملک میں کسی ویزے کے بغیر ہزاروں کو بلا رہے ہیں ۔دشمنی ایسے کی جاتی ہے ۔یہ سب صرف اپنی کمزوریوں اور نا اہلیوں کو چھپانے کے لئے کیا جا رہا ہے ۔اب یہ ٹوپی ڈرامہ ختم ہونا چاہیے ۔آج ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں،اسے بتانے کی ضرورت نہیں ۔ہر فرد اس بحران کی زد میں ہے ۔مسائل اور ہیں جنہیں سامنے لانے اور ان کا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔

ملکی مسائل اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ان کو حل کرنا موجودہ حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔ایک طرف مہنگائی ،بے روزگاری کے حملے ہیں ،ملک کا اقتصادی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔کساد بازاری اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ویسے تو صنعت کاری ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔آئے روز فیکڑیاں بند ہو رہی ہیں ۔ملازمین کو اجرت کی بجائے ملازمت کی برطرفی کا خوف رہتا ہے ۔پیدواری شعبہ کا ملک کی جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے ۔طلب ،پیداوار،خریداری ،روزگار وغیرہ سب ایک دوسرے پر ہی منحصر کرتے ہیں ۔ایسے میں فیکٹریاں بند ہو جائیں تو بحران کا ایک دائرہ بن جاتا ہے ۔آج پاکستان کو سب سے زیادہ اس بحران کی طرف توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔اقتصادی بحران نے سرمایہ کار سے لے کر عوام تک خوف اور غیر یقینی صورت حال پیدا کر رکھی ہے ۔ہر گزرتا دن عوام کے لئے بدتر ہوتا جا رہا ہے ۔ہر آنے والا دن انہیں ایک نئے عذاب کی خبر سناتا ہے ۔دوسری جانب جمہوریت کے ستون بہ ظاہر متزلزل نظر آتے ہیں ۔صحافت کے ستون کو بھی نظر لگ چکی ہے ۔اب مستقبل میں امید نہیں کہ صحافت اپنی اصل شکل میں رہ پائے گی ۔حالات میں اتار چڑھاؤ تو ہر دور میں ہوتا ہے ۔لیکن موجودہ دور کے اتار چڑھاؤ سے اگر ماضی کے حالات و واقعات کا موازنہ کریں تو شاید ان کا جواب منفی میں ہو گا۔آج ہم جس ذلت و رسوائی کی منزلیں طے کر رہے ہیں ،جہاں قومیں اپنی قدرومنزلت کھو چکی ہوتی ہیں اور ہماری بے حسی یہ ہے کہ ہم اب بھی ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہیں۔لاقانونیت کا بول بالا ہے ۔پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کر دیا گیا ہے ۔قانون سازی کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔انسانی عقل حیران و ششدر ہے کہ ایسی حکمرانی کی کیا تعریف کی جائے۔لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ مؤرخ کی آنکھ کبھی بند نہیں ہوتی ، وہ دیکھ بھی رہا ہے اور لکھ بھی رہا ہے ۔عام آدمی کو تو بھوک اور روٹی کی تلاش میں صبح و شام لگا دیا گیا ہے ۔لیکن قلم و قرطاس سے جڑے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ناحق ستائے جانے والے لوگوں کے حق کی آواز بلند کرتے رہیں ۔یہ وقت صرف حکومت یا ان کے پیچھے طاقتوں پر طعن و تشنیع سے کام نہیں بنے گا،بلکہ تیغ و تبر کے خلاف بھی سینہ سپر ہونا پڑے گا،مگر یہ طبقہ آج جس طرح خاموش ہو گیا ہے یا کر دیا گیا ہے ۔ان کی سنگین معاملات پر چشم پوشی معنی خیز ہے ۔

ہمارے دلوں میں بغض و عداوت اور نفرت و دشمنی کے بیج جس کسی نے بھی بوئے ہیں ۔وہ آج نہیں تو کل گرفت میں ضرور آئیں گے ۔جہاں وقت بڑا مرہم ہے، وہاں ناقدروں کے لئے تیز خنجر سے کم نہیں ہے ۔جب ان کی باری آئے گی تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔کیونکہ اﷲ کا وعدہ ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

آج ہمارا ملک جن طاقتوں کے شکنجے میں پھنسا ہے ۔ان سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے ۔

 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.