ایک بات پوچھوں،ماروگے تونہیں،راقم بھی آج حاکم وقت
سے پوچھناچاہتاہے کہ عالم پناہ جان کی امان پاؤں توکچھ لکھوں ؟عالم پناہ
تویقیناً یہی چاہیں گے کہ شاہ کاقصیدہ لکھوں پریہ میرے جیسے بدتمیزشخص کے
بس کی بات نہیں،ہم توہمیشہ تصویرکے دورخ اورمعاملے کے تمام پہلوؤں کودیکھ
کرلکھنے کی کوشش کرتے ہیں،کسی بھی تصویرکے کم ازکم دورخ اورہرمعاملے کے ایک
سے زیادہ پہلوہوتے ہیں،صحافی حضرات کامحکمہ پولیس کے افسران اوراہلکاروں کے
ساتھ رابطہ رہتاہے اوراکثرواسطہ بھی پڑتاہے،رابطے اورواسطے کے درمیان صدیوں
کے فاصلے ہیں،پولیس میں ایسے افسران اوراہلکارکثرت سے پائے جاتے ہیں
جورابطہ رکھنے کے قائل ہی نہیں،تھانہ کلچرکی تبدیلی کی بات درست ہے جبکہ
پولیس اصطلاحات کی بات کرناانتہائی نامناسب لگتی ہے،محکمہ پولیس کاکوئی
ایساسسٹم سرے سے موجودہی نہیں جسے ٹھیک کیاجاسکے،محکمہ پولیس،آئی جی، ڈی
آئی جی اورتھانہ ایس ایچ اوزکے مزاج اوران کی سیاسی وابستگی کے مطابق چلتے
ہیں،محکمہ پولیس میں ہم نے بہت ٹھنڈے مزاج کے پڑھے لکھے افسران
اوراہلکاربھی دیکھے ہیں جبکہ چھوٹے اہلکاروں کی اکثریت تشددپسندہے،تھانہ
کلچرکودرست کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں کے کندھوں پرہوتی ہے جبکہ ہمارے
حکمرانوں کے نازک مزاج کندھے یہ ذمہ داری اُٹھانے کے قابل نہیں ہیں،ہمارے
سیاستدانوں کی سیاسی جنم بھومی یہی تھانہ کلچرہے جہاں وہ خودایس ایچ
اولگواتے ہیں،خودلوگوں کوپکڑواتے اورچھڑواتے ہیں،جی بالکل میں بھی وہی کہہ
رہاہوں جوکبھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کہاکرتے تھے کہ یہ سیاستدان نہیں
مافیاہے جوملک کے کسی بھی ادارے کوچلنے نہیں دیتا،ایسے اداروں کی فہرست میں
سب سے اوپرپارلیمنٹ ہے جہاں سے یہ مافیاآپریٹ کرتاہے،محکمہ پولیس میں ایسے
افسران بھی بڑی تعدادمیں موجودہیں جوخودپولیس کلچرکوتبدیل کرنے کے خواہاں
ہیں پربدقسمتی سے سیاستدانوں کی ایسی کوئی خواہش نظرنہیں آتی،پولیس مقابلوں
اورتشددمیں زیادہ ترایسے ہی ملزمان یابے گناہ مارے جاتے ہیں جن کے پیچھے
معاشی طورپرمضبوط ہاتھ نہیں ہوتایاوہی ہاتھ اُن کی موت کے پروانے پرسپاری
لکھ کرپولیس کوتھمادیتاہے،کبھی کوئی حمزہ شہباز،کبھی کوئی مریم نواز،کبھی
کوئی عبدالعلیم،کبھی کوئی جہانگیرترین،کبھی کوئی تالپور،کبھی کوئی
زرداری،کبھی شرجیل،کبھی کوئی ڈاکٹرعاصم،کبھی کوئی نوازشریف یاکم ازکم کبھی
کوئی ایان علی بھی دوران تفتیش پولیس تشددسے جام شہادت نوش کرتی توہم مان
لیتے کہ پولیس کسی قسم کے سیاسی یاغیرسیاسی دباوکے بغیربرابری کی
بنیادپرتحقیقات کرتی ہے،ایک طرف تفتیشی ادارے عدالتوں میں شکایات کرتے ہیں
کہ ملزمان تفتیش میں تعاون نہیں کرتے،دوران تفتیش گرفتار حوالاتیوں کامیک
اپ پورارہتاہے جیل میں اے سی،ٹی وی،فریج،اخبار،گھرکاکھانا،نوکرچاکر،صحت کی
بہترین سہولیات کے ساتھ جیل انتظامیہ کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلنے کی سہولیات
بھی دستیاب ہیں تودوسری جانب تشددکی ویڈیومنظرعام پرآنے کے بعد بھی
کہاجاتاہے تشددنہیں ہوااورتواورڈاکٹربھی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھ دیتے ہیں
کہ مقتول دل بند ہونے کے باعث مرگیاتشدد توہواہی نہیں،دل کادروہ کیوں پڑاس
بات کافیصلہ کون کرے گا؟جب تک محکمہ پولیس سیاستدانوں کے زیراثررہے گاجب تک
پولیس اہلکاراپنے مزاج اورترجیحات کے مطابق چلیں گے بہتری ممکن نہیں اورجب
تک محکمہ پولیس کاکوئی سسٹم نہیں بنایاجاتاتب تک پولیس تشدد نہیں رکے
گا،بہت ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ پولیس خودنہیں مارتی،پولیس سے
مروایاجاتاہے،غورکریں پولیس نے دوران تشددخودصلاح الدین کی
ویڈیواورتصاویربنائی اور خود ہی سوشل میڈیاپروائرل کردیں،اہل عقل ہوش سے
کام لیں تومعلوم ہوجائے گاکہ کسی شہری کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنے پرپولیس
کے اہلکارکوزیادہ سے زیادہ کیاسزامل جائے گی؟ جس سسٹم میں دن دہاڑے 14 نہتے
شہریوں کے قاتلوں،سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کوآج تک سزانہیں ہوئی وہاں
ایک غریب مجرم قسم کے ملزم صلاح الدین کے قاتلوں کوسزاکیسے مل سکتی
ہے؟کیسے،کیوں اورکون سزادے گا؟افسران کومعطل کیاجانا،مقدمات کااندراج
،تحقیقاتی کمیٹیاں،کمیشن اورجے آئی ٹیاں چلتی رہتی ہیں اوربعد میں جوہوتاہے
وہ بھی سب جانتے ہیں،قوم کویہ بتایاجائے کہ صلاح الدین نے کن پردہ نشینوں
کے نام بتائے یابتانے جارہاتھا؟یاپھراہلکارصلاح الدین کے طریقہ واردت
اورمہارت سے اس قدر متاثرہوئے کہ مکمل سیکھنے کی کوشش میں صلاح الدین
پراتناتشددکیاکہ وہ جان کی بازی ہارگیایاپھر صلاح الدین ایک بے گناہ مجذوب
تھا؟بات صرف پولیس کلچرکی نہیں محترم ڈاکٹرصاحب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پولیس
گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے،ایسے ڈاکٹرحضرات کیلئے بھی سخت قانون سازی کی
ضرورت ہے جوپوسٹ مارٹم رپورٹ کویکسربدل دیتے ہیں،صلاح الدین نے جس طرح اے
ٹی ایم کیمرے کی طرف دیکھااُس سے پتاچلتاہے کہ اسے نہ صرف کیمرے کاعلم
تھابلکہ اُس نے کیمرے کوخصوصی پوزبھی دیا،مجرمان واردات کے وقت اپناچہرہ
چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ صلاح الدین نے ایسانہیں کیاجس سے محسوس
ہورہاہے کہ صلاح الدین یاتوانتہائی ناڈرتھایاپھربہت معصوم جسے علم ہی نہیں
تھاکہ وہ جرم کامرتکب ہورہاہے ایساہے تویقیناًاُس کے پیچھے مزیدکردارہوں گے
یاپھرصلاح الدین نے مشین توڑکراپناہی کارڈنکالاہوگا،90دن کے اندرپولیس
کلچرکی تبدیلی کے دعویدارکپتان توکہتے ہیں انہیں ٹیکس معافی کے متعلق
صدارتی آرڈینس کی خبرنیوزچینل سے ملی یعنی کپتان کے کھلاڑی اور صدراتی محل
کے مکین ایمپائر کپتان کواعتمادمیں لیے بغیراتنابڑافیصلہ کرگئے،عقل تسلیم
تو نہیں کرتی پھربھی ایساہواتب بھی کپتان نے اپنے وعدے کاپاس نہیں
رکھا،کپتان نے کہاتھامیرے پاکستانیوں آپ ٹیکس دوآپکے ٹیکس کے پیسوں کی
حفاظت خود کروں گا،اقتدارملنے سے قبل کہاتھاحکومت میں آکرسب سے پہلے پولیس
کے نظام کوٹھیک کروں گا،قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گااب کپتان خودہی
بتادیں کہ کس بات پریقین کریں اورکس پرنہ کریں؟سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ
داران کیخلاف علامہ طاہرالقادری نے کپتان کے ساتھ مل کرلانگ مارچ
نکالادنیاکی تاریخ کاطویل ترین دھرنادیاتھاتوکیاکپتان کے وزیراعظم اور ان
کے وسیم اکرم پلس کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے
شہداکے وارثان کوانصاف نہیں ملے گا؟یہ سوال آج کپتان کے سپورٹر بھی پوچھ
رہیں کہ 90دن میں تھانہ کلچرتبدیل کرنے کادعوہ کیاہوا؟کپتان کے سپورٹرزکی
یہ بات مثبت ہے کہ وہ اکثرکپتان کی غلطی کیخلاف بول پڑتے ہیں،سوال کرنے کی
جرات اورشعوررکھتے ہیں ورنہ جیالے اور متوالے توآج بھی اپنی قیادت کوبھگوان
مانتے ہیں،صلاح دین ملزم تھایابے گناہ ،کم ازکم اے ٹی ایم مشین توڑنے کاجرم
تواُس نے کیاتھاپراس جرم کی اتنی بڑی سزاوہ بھی فوری انتہائی ناانصافی
اورظلم ہے،صلاح الدین کاپولیس اہلکاروں سے کہناکہ ایک بات پوچھوں ماروگے
تونہیں،نامارنے کے وعدے پرسوال کہ پولیس نے مارناکہاں سے سیکھا؟صلاح الدین
کے الفاظ صدیوں تک نہ صرف پولیس بلکہ پوری قوم کاپیچھاکرتے رہیں گے
|