ہلاکو خاں جب بغدادپہنچاتواس کے سپاہیوں نے قتل وغارت گری
شروع کر دی،سنگ دل منگولوں کوجہاں کوئی سرسلامت دکھا ئی دیا،انہوں نے کاٹ
دیا،جہاں کوئی عمارت نظرآئی،جلاکرخاکسترکردی،جہاں کوئی کتب خانہ،لائبریری
یاکوئی درسگاہ ملی اس کوراکھ کردیا۔تاریخ کہتی ہے کہ خون کے دھبے اورراکھ
کے داغ دھوتے دھوتے دجلہ کاپانی سوکھ گیالیکن منگولوں کی وحشت کے آثارنہ
مٹے۔اسی قتل وغارت گری کے دوران عراقی صوفیوں کاایک گروہ منگول سپاہیوں کے
ہتھے آچڑھا،سپاہی زہدکے بوجھ تلے دبے ان بزرگوں کولیکرہلاکو خان کے
دربارمیں حاضرہوگئے۔سپاہیوں کاکہناتھاکہ یہ صاحبانِ دعاہیں، عراقیوں کے
بقول ان کی دعابارگاہِ رب العزت میں قبولیت کی سندرکھتی ہے۔
ہلاکوخان نے نخوت سے پوچھا”پھرکیا”سپاہیوں نے جواب دیا”حضور!یہ لوگ آپ
کوبددعائیں دے رہے تھے”ہلاکوخان صوفیا ء کے اس گروہ کی طرف مڑااورجلالی
لہجے میں اس الزام کی تصدیق چاہی۔صوفیائے کرام میں سے ایک نسبتاًبزرگ نے
اقرار میں گردن ہلاکرجواب دیا”اے بادشاہ!تم خلقِ خداکے قاتل ہو،تم نے
ہزاروں بے گناہوں کالہوبہایا،تم نے اللہ کی مقدس کتابوں کی توہین کی،تمہارے
سپاہیوں کے گھوڑوں نے مسجدوں کاتقدس پامال کیا،لہنداتم اب اللہ کے انتقام
سے بچ نہیں پاؤ گے، تمہیں اس زمین پرحساب دیناہوگا۔”
ہلاکوخان اوراس کے حواری اس کہنہ بزرگ کی جرأت پرحیران ہوگئے۔سپاہیوں نے
تلواریں سونت لیں،لیکن اس سے قبل کہ تلواریں اپناکام دکھاتیں،ہلاکوخان نے
اشارہ کیا،ایک بلند وبانگ قہقہہ لگایااورصوفیائے کرام کے اس گروہ سے مخاطب
ہوکر بولا”اے شکست خوردہ بزدل قوم کے مظلوم بزرگو!بغداد کی تباہی کے
بعدہلاکو خان کاحساب ہوابھی توکیاہوا،اب اگر تمہاری بددعائیں قبول بھی
ہوجائیں،ہلاکوخان کوسوبارجنم دیکر سوبارقتل بھی کردیاجائے،توبھی
بغدادآبادنہ ہوگا،گردن سے اترے سر دوبارہ شانوں پرنہیں لگیں گے،خاک ہوئی
عمارتیں اورراکھ ہوئے کتب خانے دوبارہ آبادنہیں ہوں گے،اب دنیاکاکوئی
انتقام دجلہ کے کناروں پرگھاس نہیں اگاسکتا۔”ہلاکوخان اٹھا،صوفیاءکے گروہ
کے قریب پہنچااور ان پرنظریں گاڑکربولا “جاؤ میں تمہیں اس قبرستان میں زندہ
رہنے کی سزادیتاہوں۔”
ہلاکوخان بغدادسے واپس چلاگیا.اب تومعلوم نہیں قدرت نے واقعی ہلاکوخان سے
انتقام لیایاپھرآسمانی طاقتیں اس سے رعائت برت گئیں لیکن جہاں تک بغدادکی
تباہی کامعاملہ ہے آج بھی تاریخ جب اس موڑپرپہنچتی ہے تواپنے بال کھول دیتی
ہے اور اس کے منہ سے دردناک بین کی آوازیں آنے لگتیں ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ
قتل کے بعدقاتل پھانسی چڑھے یاعمرقیدکی سزا بھگتے،مقتول کواس کاکوئی فائدہ
نہیں ہوتا۔پانچ ہزارقاتلوں کی پھانسی بھی ایک مقتول،ایک مظلوم کودوبارہ
زندہ نہیں کرسکتی لیکن کیاکیجئے خوش فہمی بھی بڑی چیزہے۔دنیاکے تمام
کمزور،بزدل اورمظلوم لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں سمیٹتے ہوئے،مظلوموں
اورمقتولوں کوآخری غسل دیتے ہوئے یہ سوچ سوچ کرخوش ہوتے رہتے ہیں کہ”آخرکسی
نہ کسی روزقاتل نے بھی مرجاناہے”۔
لمحہ موجودمیں ساراعالمِ اسلام اسی خوش فہمی کاشکارہے،پوری مسلم امّہ کے
دانشورامریکا کی تباہی،امریکاکی بربادی کی پشین گوئیاں کررہے ہیں۔کوئی
کہتاہے کہ یورپ امریکاکے خلاف اٹھ کھڑاہوگا،کسی کاکہناہے کہ عراق کی راکھ
سے ہزاروں لاکھوں اسامہ پیداہوں گے،افغانستان کے سیاہ پہاڑوں سے لاکھوں
ملاعمرکے لشکر نکلیں گے ،اب امریکااوراس کے اتحادیوں کاکوئی شہری چین کی
نیندنہیں سوسکے گا،کوئی اعلان فرماتاہے کہ”ڈی ڈے” شروع ہوچکاہے لیکن کوئی
ان سے پوچھے بغداد کی تباہی اورموت کے بعد “ڈی ڈے”شروع ہوا، امریکیوں اوراس
کے اتحادیوں کی نیندیں حرام ہوئیں،ہزاروں بن لادن پیدا ہوئے، لاکھوں ملاعمر
میدان میں اترے یایورپ امریکا کے خلاف اٹھ کھڑاہواتو کیا فائدہ؟کیا
بغداداورافغانستان کے بے گناہ لوٹ آئیں گے؟
میرے ایک دوست اسی قسم کی مذہبی خوش فہمی کاشکارہیں۔وہ کل میرے پاس تشریف
لائے اورآتے ہی فرمانے لگے “مظلوم عراقیوں،بے بس افغانیوں،کشمیریوں اوربے
گناہ پاکستانیوں کی نعشیں کہہ رہی ہیں امریکااوراس کے تمام ساتھیوں کا
بدترین انجام قریب ہے،تم اپنے پاس لکھ کررکھ لو امریکااوراس کے موجودہ
اتحادی عنقریب تباہ وبربادہوجائیں گے”۔میں نے قہقہہ لگایا،اس
کاکالرجھاڑااوربڑے پیارسے کہا”برادرم!غصے اور انتقام کی تلخی اس طرح
تودورنہیں ہوگی،امریکا اوراس کے اتحادی بے شک دس ہزار مرتبہ تباہ ہوں لیکن
ہمارے اوپرگرکرتوتباہ نہ ہوں”۔میرے دوست کومیری بات ناگوار گزری اور ناراض
ہوکرمنہ بسورکر بیٹھ گیا۔مجھے معلوم ہے کہ ایک خوش فہم شخص اسی ردعمل
کااظہارکرسکتاہے۔
ہو سکتاہے کہ میرے دوست کی خوش فہمی درست ثابت ہو،واقعی کل کا سورج طلوع ہو
تودنیاکے نقشے پراٹلانٹک اوشن اوربحرہندکے پارچندبدبودارجوہڑوں اورجلی سڑی
چٹانوں کے سواکچھ نہ ہولیکن یہ ابھی محض”ہوسکتا”ہے،امکان،گمان یاخیال ہے۔آج
کی حقیقت تویہ ہے کہ عراق کی سرزمیں نعشوں سے اٹ چکی،افغانستان میں لاشیں
بچھ چکیں،کشمیرکے لاکھوں باشندے موت کوگلے لگاچکے،امریکی ڈرون کابھی
پاکستانیوں کے پرخچے اڑاکر سانس پھول چکا، بش،رمزفیلڈ،کولن پاؤل،رچڑد
باؤچر، اوباما،ہالبروک،جنرل مشرف،زرداری،نواز،مودی،امیت شاہ اوراب ٹرمپ
رہیں یاختم ہوجائیں،امریکا، بھارت،اسرائیل اور یورپ باقی بچے یاتباہ
ہوجائیں،ان نعشوں،ان جلی سڑی عمارتوں کواس سے کوئی غرض نہیں۔زمینی حقائق
تویہ ہیں کہ خادمین حرمین اپنے ہاتھوں سے پہلے ٹرمپ کواوربعدازاں نہ صرف
مودی کوملک کاسب سے بڑاسول اعزازپہناچکے ہیں بلکہ ملک کاسب سے
بڑاادارہ”آرامکو”عملی طوربھارتی افراد کے سپرد ہوچکا اورمہاراشٹرکی
ریفائنری سمیت دیگراداروں میں 75 بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری بھی ۔امریکی
خبررساں ادارے”اے پی”کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 100ارب ڈالرکی سرمایہ
کاری،اہم اقتصادی شراکت داری اور تجارتی مفادات کے باعث خلیجی ممالک مقبوضہ
کشمیرمیں آرٹیکل 370ختم کرنے کے بھارتی اقدام پرچپ سادھے ہیں بلکہ یواے ای
نے مودی کوملک کاسب سے براسول اعزازدیکرپاکستان کوباقاعدہ پیغام بھی دے دیا
ہے۔
ہلاکوخان نے بغدادہی کی سرزمین پرکھڑے ہوکرکہاتھاکہ”طاقت اوربددعاؤں کی جنگ
میں طاقت ہمیشہ پہلی فاتح ہوتی ہے”۔
رہے نام میرے رب کا جس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔
وجہۂ بے رنگیٔ گلزارکہوں توکیاہو
کون ہے کتناگناہ گارکہوں توکیاہو
تم نے جوبات سرِبزم نہ سنناچاہی
میں وہی بات سرِدارکہوں توکیاہو
|