کشمیریوں کی لازوال قربانیوں نے اس مسلہ کو دنیا میں
اجاگر کر دیا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی آواز بن رہا ہے۔ اگر یہ آواز سیاست
سے پاک ہو، سب کشمیر کاز پر متحد ہو جائیں، آئین پاکستان کی روشنی میں مسلہ
کشمیر دنیا میں اجاگر کریں ، تو پاکستان کا موقف اثر انگیز ہو گا۔حمایت
بڑھے گی۔اپنے لوگ خود متذبذب ہوں تو کسی غیر کو کیا آگاہی دیں گے یا لابنگ
کریں گے ۔ سمندر پار تارکین وطن یا بیرون ممالک سفر کرنے والوں کو ملکی
سفارتکاروں کے طور پر بروئے کار لانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔چندے، فنڈز
وصول کرنے ، دعوتیں اڑانے، شاپنگ کے لئے انہیں پارٹیوں میں تقسیم کر دیا
گیا۔اس لئے بھی قوم کا یہ سرمایہ متحد ہو کر مظلوم کشمیریوں کے لئے موثر
کردار ادا نہ کر سکا جس کی توقعات تھیں۔ مظلوم کشمیری ،نسل کشی اور قتل عام
کے باوجود سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ وہ تاریخ انسانی کا طویل ترین کرفیو اور
لاک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت کی فاشسٹ حکومت کو عالمی قوانین کا
کوئی احترام اور پروا نہیں ہے۔ اس کے سامنے اسرائیل ہے جس نے فلسطینیوں کی
سرزمین پر جبری قبضہ کیا۔ فلسطینیوں کو ان کی بستیوں سے نکال دیا۔ یہودیوں
کی آبادکاری کی۔ دیواریں نصب کیں اور تاربندی کی۔ اسے امریکہ کی مکمل
آشیرواد حاصل ہے۔ بھارت کو بھی 750کلو میٹر پر پھیلی جنگ بندی لائن پر
دیوار اور تاربندی کی اجازت پرویز مشرف کے دور میں دی گئی۔منقسم کشمیریوں
کو مزید تقسیم کیا گیا۔ یہ تاربندی پاک فوج کی فائرنگ رینج میں کی گئی۔ جنگ
بندی لائن کو ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں کیس دائر کرنے کے بجائے
بھارت کو اپنا دفاع مستحکم کرنے کی اجازت دینا مشرف حکومت کی سنگین اور
مجرمانہ غفلت اور غلطی تھی ۔ اسی دور حکومت کی باقیات آج عمران خان حکومت
میں بھی نمایاں ہیں۔ حسین حقانی کی طرح لوگ کس طرح اپنے بچوں کے سکالر شپس
، مراعات ، مفادات کے لئے ملکی مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ اس سے بڑی سودا
بازی اور غداری کیا ہو سکتی ہے۔ جس امریکہ نے اسرائیل کو ایٹمی پاور بنایا۔
یہی امریکہ بھارت کی پشت پر ہے۔تاربندی کے بعد اسرائیلی طرز پر کشمیر میں
ہندؤں کی آبادکاری ، بھارتی فوجیوں کے لئے چھاؤنیوں سمیت بستیاں آباد کرنا
بھارت کی پالیسی ہے۔ وہ مقبوضہ ریاست میں سینک کالونیاں قائم کر رہا ہے۔
شاید آج کے امریکی حکمران چاہتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ ہو۔ چین بھی اس میں
شامل ہو۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کازنگ آلود جنگی ساز و سامان فروخت
ہو۔ایٹم بم، میزائل چلیں۔ تا کہ تینوں ممالک صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائیں۔
امریکہ کے اندر سے میڈیا ، سول سوسائٹی، اراکین کانگریس، سینیٹرز، انسانی
حقوق کے ادارے مسلہ کشمیر پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ بیانات جاری کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کو خطوط لکھ رہے ہیں۔وہ بھارت پر دباؤڈالنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے بیانات بھی حوصلہ افزا ء ہیں۔ 58ممالک
بھارت پر تنقید کر رہے ہیں۔ پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ یورپین
یونین بھی اپنا موقف پیش کرتی ہے۔ بھارت نے انسانی حقوق کونسل میں پاکستانی
بیان کے ردعمل کے لئے اپنے ایک ایسے سفارتکار،وماریش ارین کوپیشکیا جس کا
تعلق مقبوضہ کشمیر کے خطہ چناب کے شہر کشتواڑ سے ہے۔یہ حکمت عملی ہے۔ آزاد
کشمیر کے موجودہ صدر مسعود خان ایک عرصہ تک پاکستان کی ترجمانی سمیت دنیا
بھر میں سفارتکاری خدمات انجام دیتے رہے، مگر انہیں کبھی بھی کشمیری کے طور
پر پیش نہ کیا گیا۔تا کہ دنیا کشمیر کی کہانی، ایک کشمیری کی زبانی سن اور
سمجھ سکتی۔ وہ خود بھی کوہالہ کے اس پار داخل ہونے کے بعد سردار بن گئے۔
بھارتی سخت پابندیاں ، لاک ڈاؤن ، کشمیر کو مواصلاتی بلیک ہول بنانا
کشمیریوں کو کچلنے اور نفسیاتی طور پر مسلنے کے لئے ہے۔ بھارت کے تمام
چانکائی حربے اور جبر کشمیریوں کو کبھی نہیں جھکا سکے ہیں۔ یہ کشمیریوں نے
ثابت کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں موجود کشمیری فکر اور تشویش میں مبتلا ہیں۔
بھارت اصل مسلہ سے توجہ ہٹا کر اب کرفیو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کو ہی مسلہ
کشمیر کے حل کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔قبل ازیں دہلی حکومت کشمیر کو
انسانی حقوق کا مسلہ بنا کر پیش کرتی رہی ہے۔ تا کہ دنیا میں اگر کوئی آواز
بلند ہو ، وہ انسانی حقوق کے احترام تک محدود ہو کر رہ جائے۔ آج کشمیر کا
مسلہ بھارتی جنگی جرائم یا انسانی حقوق کا نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ مسلہ کشمیر
کے حل تک بھارت سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا رہے گا، اس کی 9لاکھ فوج
بندوق کی نوک پر کشمیریوں کو خاموش کرانے کے مشن پر ہے۔ بھارت کشمیریوں کو
آزادی مانگنے کی سزا دے رہا ہے۔ یہ اس کی انتقامی کارروائی ہے۔ کشمیر سے
بھارتی فوج کے انخلاء تک شہری آزادیاں بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بھارت
کے نسل کشی مہم، گرفتاریاں، قید و بند جیسے جارحانہ اور مکارانہ حربے دنیا
کے سامنے لانے اورکشمیر میں ریفرنڈم کے لئے تارکین وطن ہی نہیں بلکہ ملک کے
اندر بھی یک جہتی اور آگاہی کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی زیادہ ذمہ داری ہے۔
ان کی بصیرت اور فراخدلی کا امتحان ہے۔کشمیر پر سیاست چمکانے والے، شہداء
کے قبرستانوں پر محلات تعمیر کرنے والے قوم کے دشمن ہوں گے۔ تمام تر
وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پاکستانی اور کشمیری بھارت کے محصور کردہ
کشمیریوں کی آواز بن جائیں تو یہ ان کا کسی اور پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر
بڑااحسان ہو گا۔
|