انصاف کون کرے گا

کافی عرصہ گزرا کچھ سوچوں نے ذھن میں گھر کر رکھا ہے کہ آج کی پاکستانی مائیں محمّد بن قا سم جیسے بیٹوں کو جنم کیوں نہیں دیتی جو ایک لڑکی کی پکار پر جنگ کرنے نکلا. آج کا پاکستانی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ آج بھی ہزاروں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اس لڑکی سے کہیں زیادہ ظلم و ستم کا شکار ہیں. کوئی اس گوجرانوالہ والی بچی کا کیوں نہیں سوچتا جو بچپن میں جنسی تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دی گئی.اس عورت کے گھر والوں کو انصاف کون دلوائے گا، جس کا میاں ایک امریکن شہری ریمنڈ ڈیوس کی گولی کا شکار بنا، اور اس نے انصاف مانگنے سے بہتر سمجھا کہ خود کو مار دے. اس کا اعتماد منصفوں کے فیصلوں سے کس نے اٹھایا. منصف اعلیٰ کو انصاف حاصل کرنے کے لیے کس نے شہر شہر، بستی بستی ،نگر نگر پھرنے پر مجبور کیا.ان فوجیوں کے خون کا حساب کون دے گا جن کو اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنے کے لیے بھیجا گیا اور سوات،وانا اور وزرستان کے ان بچوں کے خون کا حساب کون دے گا جو آپریشن کے دوران شہید ھوئے.
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ھوے ہیں دستانے

ملک کے خزانے کون خالی کر گیا. کاش کہ کوئی اس ماں کا درد جان سکتا جس کا بیٹا لا پتا ہے، کاش کے کوئی اس پولیس والے کی بیٹی کے جذبات کو محسوس کر سکتا جو آج بھی اس انتظار میں ہے کہ اس کا باپ اس کے لیے چوڑیاں لے کر گھر آئے گا لیکن اس معصوم کو کیا معلوم کہ اس کا باپ کو کسی اور کے گناھوں کی سزا ملی اور وہ شہید ھو گیا.ان سب باتوں کا ذمہ دار کون ہے میں،آپ یا کوئی اور. نہیں نہیں یہ کوئی اور نہیں یہ ہم سب ہیں. ھم سب نے مل کر اپنی تقدیر ان لوگوں کے ہاتھ میں جو ہمارے ساتھ یہ سب کر گزرے. وہ وڈیرے جو پاکستان بننے سے پہلے انگریزوں کی نوکریاں کرتے تھے اور ان کو خوش رکھنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتے تھے پاکستان بننے کے بعد ہمارے آقا بنے. وھی تو ہیں جو یہ سب مظالم ڈھا رہے ہیں لیکن ذمہ دار ہم ہیں کہ ھم نے ان کو نہ کبھی روکا اور نہ کبھی برا سمجھا بلکہ ان کو ووٹ دے کر کامیاب بناتے رہے اور سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے خلاف اگر کسی نے کچھ بولا تو اس کو بیوقوف کہتے رہے. لیکن وقت گزرا حالات نے کروٹ بدلی. غریب نا انصافی، مہنگائی' ظلم و بربریت کے بوجھ تلے دب گیا. امیروں نے فیکٹریاں کھولی لیکن غریب پھر بھی بے روزگار رہا کیوں کہ امیر کی فکٹریاں وطن عزیز میں نہیں بلکہ کسی اور ملک میں کھل گئیں. وطن عزیز کے خزانے تو خالی ھو گئے اور حکمران امیر سے امیر تر ھوئے مگر نہ تو ہمارے بنکوں میں پیسا جمع ھوا اور نہ ہی کوئی نیا بنک کھلا.آج چودہ برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا کے قوم کے ایک بیٹے نے ان وڈیروں کے خلاف آواز اٹھائی اور انصاف کی ایک تحریک چلائی، اس نے عافیہ صدیقی کو انصاف ،چیف جسٹس کی بحالی،عدلیہ کی آزادی کی بات کی. آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو اس کی باتیں سمجھ آنے لگی ہیں اور انشا الله وہ دن دور نہیں جب عوام اس کی قیادت میں انقلاب کے راستے پر نکلے گی.قوم کے اس بیٹے نے ملک و قوم کے لیے وہ کیا جو باقی لوگ حکومت میں رہتے ھوئے بھی نہ کر سکے. نمل کالج کا قیام، شوکت خانم ہسپتال کا قیام،عمران خان فاؤنڈیشن کا قیام.زلزلے اور سیلاب کے دوران غریبوں کی امداد.قوم کے اس بیٹے کا نام عمران خان ہے اور میرا یہ یقین ہے جس طرح اس نے ٩٢ کے عالمی کرکٹ کپ میں قوم کر سر فخر سے بلند کیا تھا اسی طرح وہ قوم کے باقی مسائل حل کرنے میں بھی پیش پیش ہوگا اور اس قوم کر سر کبھی جھکنے نہیں دے گا. آئیں سب مل کر اس کا ساتھ دیں اور آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچا لیں. کہتے ہیں مومن دو بار ایک بل سے نہیں ڈسا جا سکتا لیکن ہم کیسے مومن ہیں جو ایک ہی بل سے ٦٣ برس سے ڈسے جا رہے ہیں. آئیں یہ عہد کریں کہ اب ہم اسی بل سے دوبارہ نہیں ڈسے جائیں گے.
جب پرچم جان لے کر نکلے ہم خاک نشین مقتل مقتل
اس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پے ہیبت طاری ہے
SAIF ASHIR
About the Author: SAIF ASHIR Read More Articles by SAIF ASHIR: 60 Articles with 101431 views I am 22 years old. .. View More