ڈاکٹر راحت جبین ، کوئٹہ
پچھلے دنوں عید کے تیسرے دن جب ہم کراچی میں داخل ہوئے تو ایک ناخوشگوار
بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔جگہ جگہ کچرے اور قربانی کے جانوروں کی آلائشوں
کے ڈھیر نظر آئے۔ اس تعفن زدہ ماحول میں سانس لینا بھی دشوار ہو رہاتھا۔
حالیہ طوفانی بارشوں نے شروع شروع میں کراچی کے عوام کے لیے ایک خوبصورت
ماحول پیدا کیا۔ مگر پھر یہی بارشیں رحمت کم اور زحمت زیادہ بننے لگیں اور
پورے کراچی میں سیلاب کا سماں پیدا ہوگیا۔اس دوران سب سے زیادہ افسوسناک
بات یہ رہی کہ ، کے الیکٹرک کی نا اہلی، کام چوری اور ساتھ ہی لوگوں کی
اپنی لاپروہی کی وجہ سے کئی لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بارشوں کے
بعد کراچی کی حالت زار ہی بدل گئی۔روشنیوں کے شہر کراچی میں پہلے صرف لیاری
سوتیلے پن کی وجہ سے کچرے کا ڈھیر بنا ہوتاتھا مگر اب تو پورے کا پورا
کراچی ایک کچرہ خانہ بن چکا ہے۔رہی سہی کسر قربانی کے جانورں کی آلائشوں نے
پوری کردی ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف کچرا زیادہ ہوا ہے بلکہ تعفن کی وجہ سے
پورا کراچی ناخوشگوار بد بو کی لپیٹ میں ہے۔ تقریباً پچھلے ایک ماہ سے یہی
صورت حال ہے اور کوئی بھی ادارہ کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیار
نہیں۔یہ صورت حال روز بروز مخدوش سے مخدوش تر ہو تی جارہی ہے کیونکہ روزانہ
کی بنیاد پر دس ہزار ٹن کچرے کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ بلکہ اب تو انٹرنیشنل
میڈیا میں بھی کراچی کے کچرے کے چرچے ہونے لگیہیں۔
اس سے فضائی آلودگی میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سینہ صرف
شہریوں کو سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے بلکہ اہلیان کراچی مختلف امراض ،میں
مبتلا ہو رہے ہیں جن میں سردست جلد کی بیماریاں ، جگر کی بیماریاں ، دست
اور پیٹ کے امراض شامل ہیں۔ اگر کچرہ جلا بھی دیا جائے تو آلودگی میں مزید
اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ہماری گورنمنٹ حسب معمول بجائے اپنی ذمہ داری نبھانے کے انتقام کی سیاست
میں لگی ہوئی ہے۔ پہلے تو یہ تعین ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ اصل میں یہ کس
کا کام ہے۔اب جب اس بات کا تعین ہو گیا کہ یہ کام میئر کراچی کا ہے۔ کچرے
کا ٹھیکہ لینے والی چینی کمپنیاں ،بلدیہ اور مونسپل کمیٹی اس کے زیر نگراں
ہے تو بجٹ کا رونا رویا گیا۔پھر جب مصطفی کمال جس کے دور میں بلاشبہ کراچی
کا نقشہ ہی بدل چکا تھا، اس نے دعویٰ کیا کہ میں نویدن میں یہ سب صاف
کرسکتا ہوں تو میئر وسیم اختر نے عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر مصطفی کمال کو
تین ماہ کے لیے یہ ذمے داری سونپ دی مگر پھر رات کو شاید انہوں انیل کپور
کی فلم ’’نائیک‘‘ دیکھی اور صبح اٹھتے ہی 24 گھنٹے پورا ہونے سے پہلے مصطفی
کمال کے تعیناتی کے احکامات واپس لے لیے۔
اس یوٹرن کے پس پردہ کیا عوامل ہیں وہ تو واضح نہیں ہیں مگر قیاس آرائیاں
یہ بتا رہی ہیں کہ مصطفی کمال کی جانب سے فائننس کا ریکارڈ منگوایا گیا۔ جس
میں کافی بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ جس کی وجہ سے سب کے پھنسنے کا خطرہ تھا۔
اس کے علاوہ تمام اہلکاروں کی لسٹ منگوائی گئی۔ جن میں زیادہ تعداد گھوسٹ
ملازمین کی تھی۔ مزید براں یہ کہ شاید بہت سے راز افشا ہونے کیڈر کی وجہ سے
وسیم صاحب کو یہ ناگوار گزری ہو اور انہوں نے یہ آرڈر معطل کروا کر کراچی
کو اس کے حالت زار پر چھوڑ دیا کہ لوگ مرتے ہیں تو مریں۔ ان کا کام تو صرف
اورصرف اپنی جیبیں ہی بھرنا ہیں اور بیرون ملک اثاثے بنانے ہیں۔ لوگوں کے
گھر توڑنے والے، لوگوں کو بے روز گار کرنیوالے، جو کراچی کو اس کی اصل حالت
میں لانے کا دعویٰ کر رہے تھے۔اب جب کہ حقیقی معنوں میں ان سب کی ضرورت ہے
تو غائب ہیں اور کراچی لاوارث ہوگیا ہے۔
خدارا اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے مت کھیلیں۔ ہوش کے
ناخن لیں۔کل کو خدا کی عدالت میں بھی جوابدہ ہونا ہے کیونکہ یہ صرف گندگی
کے ڈھیر نہیں ہیں بلکہ آلودگی کا منبہ ہیں اور انسانی جانوں کے لیے کینسر ،
جلد، گردوں ، پھیپڑوں اور جگر کی خطرناک اور جان لیوا بیماریاں ہیں۔
|