کشمیر بحران عالمی ضمیر کاامتحان ہے اسے مزید گھمبیر
نہیں ہونے دیاجاسکتا۔مقتدرقوتوں کومذہب اوررنگ ونسل سے بالاتر ہوکرتنازعہ
کشمیر کے فوری پرامن اورپائیدارحل کیلئے اپناکرداراداکرناہوگا۔آئندہ
چندروزتک ہونیوالے اقوام متحدہ کے اجلاس کوموثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے
تنازعہ کشمیر پردوٹوک فیصلہ سناناہوگاورنہ بھارت کویونائٹیڈنیشن سے نکال
باہرکیاجائے ۔اپوزیشن کی سیاست کامحور صرف اورصرف اس کی سیاسی پوزیشن ہے
،عوامی اورقومی ایشوزسمیت مہنگائی اوربیروزگاری پریہ لوگ خاموش ہیں تاہم
انہوں نے جس طرح احتساب کوانتقام کانام دیاہے وہ ہرگزدرست نہیں
،گرینڈاپوزیشن نے پوائنٹ سکورنگ کیلئے کشمیرکاز کوبلڈوزکرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی ۔کئی برسوں تک کشمیرکمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مراعات سے
مستفیدہونیوالے فضل الرحمن آج کشمیر کاز کے حق میں آوازاٹھانے کیلئے تیار
نہیں ہیں۔تنازعہ کشمیر کے پرامن اورپائیدار حل کے ساتھ ساتھ اہل کشمیر سے
بھرپور اظہار یکجہتی کیلئے پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن نے
ایک بار پھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران اپنے نیب زدگان
اور اسیر ان کی رہائی کیلئے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کشمیر کا
سودا نامنظور کے نعرے لگا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی حالانکہ پارلیمنٹ کا
مشترکہ اجلاس بلانے کا مقصد صرف اور صرف کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کرنے
والوں کیلئے عالمی ضمیر کو یہ باورکروانا تھا کہ پاکستانیوں سمیت پاک فوج
کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے تک ساتھ ہے لیکن ایوان میں بیٹھے اپوزیشن
پارٹیوں کے ارکان نے اپنے زندانوں میں بیٹھے نیب زدگان کی تصاویر والے پلے
کارڈ اٹھا کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو مچھلی منڈی بنا دیا جس سے مقبوضہ
کشمیر میں بھارتی درندوں کیخلاف سربکف اوربرسرپیکار بہادر ،نڈر اور گذشتہ
سواماہ سے بھارتی فوج او رمودی سرکار کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے نہتے
اور بھوکے پیاسے کشمیریوں کو یہ پیغام پہنچا ہے کہ وہ کبھی بھی تنازعہ
کشمیر کے حل اور کشمیریوں کی تحریک آزادی سے مخلص نہیں رہے اسلئے کہ ماضی
کی حکومتوں میں جتنی بھی کشمیر کمیٹیاں بنائی گئیں ان کے چیئرمین فضل
الرحمن سرفہرست رہے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے ان کے ادوار میں کس
قدرپیشرفت ہوئی وہ کشمیریوں او رپاکستانیوں سے پوشیدہ نہیں ہے جس کا اظہار
وزیراعظم آزاد کشمیر بھی کر چکے ہیں ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کویقینا
عالمی سطح پر دیکھا گیا ہوگا اور انہیں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا منفی
تاثر ملا ہو گاکہ یہ پاکستانی عوام، حکومت اور فوج تو کشمیریوں کے ساتھ ہے
لیکن اپوزیشن کے ارکان قائدین کشمیریوں کی آزادی سے مخلص نہیں ہیں کیا ہی
بہتر ہوتا اگر اپوزیشن کے حامی ارکان پارلیمنٹ آئندہ اجلاس میں اپنے اسیران
کیلئے احتجاج کر کے پوائنٹ سکورنگ کرتے ، اپوزیشن کو کم از کم گذشتہ کئی
دہائیوں سے تحریک آزادی کشمیر کے متوالوں اور عالمی برادری کو یہ تاثر نہیں
دینا چاہیے تھا کہ پاکستان میں کشمیر پر اتفاق نہیں ہے اپوزیشن اگر اپنے
میلے کپڑے پھر کسی وقت دھونے کیلئے رکھ لیتی تو کشمیریوں کودکھ نہ ہوتا۔
خیر اپوزیشن کی طرف سے حکومت، پاک فوج اور عوام کے کشمیر کاز پر متفق ہونے
یا نہ ہونے سے کشمیریوں کی جدوجہد کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اسلئے وزیراعظم
عمران خان کی طرف سے جمعہ کے روز مظفر آباد میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی
کیلئے بڑے اجتماع کے دوران ایک بار پھر اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے
ساتھ ہیں جس سے آزادی کشمیر کیلئے جانوں کا نذرانہ دینے والوں کے حوصلوں
میں مزید اضافہ ہوا ہے اپوزیشن کی مثال اب "ہاتھ نہ پہنچے تھُو کوڑی"جیسی
ہے اسلئے کہ وزیراعظم اور پاک فوج نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کر
کے اور مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ
مقبوضہ کشمیر کے لوگ تنہا نہیں ہیں کیونکہ ماضی میں اپوزیشن نے کشمیریوں
کیلئے کچھ نہیں کیا اب تو یورپی یونین کے58ملکوں کے بھارتی حکومت سے مقبوضہ
کشمیر میں 45روزہ کرفیو کو ختم کرنے کی ڈیمانڈ نے ایک ہلچل مچا دی ہے اور
اپوزیشن سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وزیراعظم اور پاک فوج کشمیر کی آزادی
کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آواز اٹھانے کے علاوہ ہر حدتک جانے
کا بھی اعلان کرینگے ہر حد سے مراد ایٹمی قوت کا استعمال بھی ہو سکتا ہے
بھارتی سرکار اور دریندرمودی اب کسی غلط فہمی میں نہ رہے حکومت پاکستان اور
پاک فوج نے مقبوضہ کشمیر کے بھائی بہنوں سے اظہار یکجہتی کا جو پیغام
دیاہے"بھارت نواز"نکال کر پوری قوم ان کی آواز پر لبیک کہے گی اب ایک بار
پھر فضل الرحمن اے پی سے کی ناکامی کے بعد پورے ملک سے اپنی شکست کا بدلہ
لینے کیلئے لاک ڈاؤن کرنے چلے ہیں حالانکہ پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ دینے
سے انکارکر کے ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ
میاں نوازشریف نے میاں شہباز شریف سے کہا ہے کہ ان کا ساتھ دیں یہ کہاں تک
سچ ہے یہ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن کوئی مولانافضل الرحمن سے یہ پوچھے
کہ انہیں بے صبری کیوں اورکس بات کی ہے۔وہ لاک ڈاؤن کس کیلئے کر رہے ہیں
عوام نے تو نہیں کہا کہ اسلام آباد کی طرف جاؤ ہم ساتھ دیں گے ۔عوام تو
مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے ہاں اگر وہ اپنی ذات کیلئے جانا چاہتے ہیں تو
ضرور جائیں اور اے پی سی کے بعد یہ شوق بھی پورا کر گزریں لیکن وہ عوام کو
یہ بھی بتاتے چلیں کہ وہ جب تک اسمبلیوں کی زینت بنے رہے اپنی ذات اور مفاد
کے علاوہ عوام کی خدمت کا کوئی کارنامہ سرانجام کیوں نہیں دیا اگر وہ ملک
کی موجودہ سنگین صورتحال میں پاکستان کے استحکام ، سلامتی اور بقاء کیلئے
خطرات پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا وہ اس
وقت ملک میں عدم استحکام پیدا کر کے جن قوتوں کو دعوت دے رہے ہیں وہ تو
انہیں پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
ملک اس وقت کسی افراتفری اور انتشار یا محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
موجودہ حکومت اور وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں اگر پاکستان
تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان، بجلی گیس اور پانی
کی قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے تو آنے والے الیکشن
میں عوام خود انہیں آؤٹ کر دینگے میں اسے سے پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ
وزیراعظم خود اس کا نوٹس لے کر مصنوعی مہنگائی کر کے عوام کو اذیت میں
مبتلا کرنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لاکر عوام کو ریلیف دیں اب واسا
کی انتظامیہ نے بھی ازخود پانی کے بلوں میں صوبائی کابینہ اور پنجاب اسمبلی
سے سمری کی منظوری کے بغیر 150روپے فی ماہ اضافہ کر کے عوام پر مزید بوجھ
ڈال دیا ہے اور عمران خان حکومت کے خلاف ایک اور پتھر مارنے کو اپوزیشن کے
ہاتھ دے دیا ہے پہلے کی طرح اب بھی نیب اپوزیشن کی زد میں ہے نیب اپنے زیر
سماعت مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کیلئے عدالتوں میں ٹھوس ثبوت پیش کرے
تاکہ عوام میں نیب کے بارے پائی جانے والی غلط فہمیاں کہ نیب موجودہ حکومت
کا آلہ کار بنی ہوئی ہے ختم ہوں کیونکہ اب تک دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے
قائدین سے الزامات کی بنیاد پر وصولیاں نہ ہونا بھی ایک سوالیہ نشان بنتا
جا رہا ہے اب تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کو
خطرناک قرار دیا ہے جو نیب کیلئے لمحہ فکریہ ہے ، ان دنوں اسلام آباد
ہائیکورٹ میں میاں نوازشریف کے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کے
حوالے سے زیر سماعت مقدمات 18ستمبر کو سنے جائیں گے جس میں میاں نوازشریف
کو ریلیف ملنے کے امکانات ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ وزیراعظم 27ستمبر کو
اقوام متحدہ کے جنرل کونسل اجلاس میں پوری قوم کا مینڈیٹ لے کر کشمیر کاز
اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور عالمی
برادری کے سامنے کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم اورسواماہ سے جاری
بدترین کرفیو پر خطاب کریں گے ۔ 1965ء کے بعد دوبارہ یہ موقعہ دیکھنے کو
ملا ہے کہ اس وقت بھارتی لابی اور اس کے ایجنٹوں کے سوا کشمیریوں کیلئے
پورا پاکستان اپنی حکومت اور پاک فوج کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے موجودہ
وزیراعظم اور آرمی چیف نے دوٹوک انداز میں کشمیر ایشو پر بھارت کے ناپاک
عزائم خاک میں ملانے کے عزم اورکشمیری بھائیوں اور بہادر نوجوانوں نے
شہادتیں دے کر کے جو تاریخ رقم کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
وزیراعظم کو پسند یاناپسند کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے لیکن کشمیریوں سے
والہانہ محبت، اظہار یکجہتی اور ان کی آزادی کیلئے جو اقدامات پاک فوج اور
موجودہ حکومت نے اٹھائے ہیں وہ کشمیر کی آزادی کے بعد آنے والی نسلیں بھی
یاد رکھیں گی۔ یہ کشمیر کاز کیلئے پوری طرح یکسو ،ہم آواز اورمتحرک ہونے
کاوقت ہے ،اگراب بھی ہم نے کشمیرکاز کوسیاست کی نذرکردیاتوتاریخ ہمیں کبھی
معاف نہیں کرے گی ۔
|