ہمارے وزیراعظم صاحب نے مصالحت کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ابھی کنٹرول لائن کی طرف مارچ نہ کریں۔ مجھے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جانے دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ایٹمی
طاقت ضرور ہیں لیکن کشمیر پر بھارت کو ظلم ڈھانے سے نہیں روک سکتے۔ ہم مذمت
کر رہے ہیں لیکن دشمن کی مرمت سے ڈرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل کشمیری
بھارتی درندہ صفت افواج کے پہرے میں ہیں۔ ڈیڈ لاک، کرفیو نے کشمیریوں کا
جینا ہی نہیں مرنا بھی دشوار کر دیا ہے۔ بچے دودھ کے لئے بلک رہے ہیں، جان
بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہے، بھارت کی بربریت و سفاکیت کی یہ انتہا
ہے کہ ہسپتال پر بھی پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ بیماروں کو علاج کروانے کے لئے
ڈاکٹرتک نہیں جانے دیا جا رہا۔ پیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کو مرنے کے لئے
چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بھارت گاجر مولی کی طرح ہمارے کشمیری بھائیوں کو کاٹ رہا
ہے ادھر ہمارے وزیراعظم صبر کی تلقین کر رہے ہیں انہیں جنرل اسمبلی میں خطا
ب کرنے کا انتظار ہے اُن سے ہم یہ پوچھتے ہیں حق بجانب ہیں کہ تب تک
کشمیریوں کو قصائی مودی کے ہاتھوں ذبح ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائے اور
ہندوستان کو بربریت و سفاکیت کی کھلی چھٹی دی جائے۔ جنت نظیر پر کافر قبضہ
کرنے کی سازش میں مصروف ہے اور اسے اسلام دشمن طاقتوں بالخصوص امریکہ و
اسرائیل کی آشیرباد حاصل ہے۔ اسرائیلی طرز پر کشمیر میں ہندو بستیاں بسانے
اور کشمیریوں کو یہاں سے نکالنے کے دشمن کے مذموم عزائم کھل کر سامنے آ گئے
ہیں۔ وادی کا مسلم تشخص ختم کیا جا رہا ہے۔ 72 سال بعد پہلی بار سری نگر کے
لال چوک میں کشمیر کا جھنڈا اتار کر بھارت کا ترنگا لگا یاگیا۔ اصل میں
بھارت نے ہماری معذرت خواہانہ پالیسی کے جواب میں پیغام دیا ہے کہ دیکھو تم
امن کی بھاشا بولتے رہو اورہم جنگ کی بھاشا کو نہیں چھوڑیں گے۔ آج کشمیر کو
ہتھیا لیاہے کل تم نے اسی طرح کمزوری دکھائی تو ہم آزاد کشمیر کو بھی تم سے
چھین لیں گے بلکہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ دھمکی دے چکا ہے کہ اب
پاکستان سے آزاد کشمیر چھیننے کی باری ہے ایسے میں وزیراعظم عمران خان کہتے
ہیں کہ ہم امن کی داعی ہیں جنگ نہیں چاہتے مذاکرات سے حل چاہتے ہیں اور
چاہتے ہیں کہ امریکہ سمیت یورپی ممالک ہماری مدد کو آئیں گے اور بھارت کو
سبق سکھائیں گے۔ سبق انہوں نے نہیں ہم نے سکھانا ہے۔ خلیجی ریاستوں نے
تومودی کو مندر کا تحفہ دیکر اپنی پالیسی ہم پر واضح کردی ہے اب وزیراعظم
اپنی کشمیر پالیسی پر ابہام دور کرتے ہوئے اس کی وضاحت فرمائیں قوم آپ کی
مرہون منت ہوگی۔ادھر تو یہ عالم ہے کہ چالیس روز سے زیادہ ہو گئے ہیں اور
ہم ایک دن کا بھی کرفیو نہ اٹھا سکے نہ ہی بھارت کے لئے فضائی حدود بند کی
اور نہ اس سے تجارتی بائیکاٹ کیا اور نہ ہی افغان ٹریڈ بند کی۔ ہم کس معجزے
کے انتظار میں ہیں آسمان سے ابابیلیں نہیں اتریں گیں کہ جو کفار کو عبرت
ناک شکست دیں۔ ہمیں کشمیر کی آواز کے لئے اعلان جنگ کرنا ہوگا۔ ہماری شیر
صفت بہادر افواج ان پرایسے ٹوٹے گی کہ نیست و نابود کر دے گی۔وزیراعظم
عمران خان سن لیں! اگر کشمیر پر دھماکہ دار پالیسی عوام کی امنگوں کے مطابق
نہ اپنائی تو قوم ان پالیسی سازوں کا دھماکہ کر دیگی۔ پاکستان کو قدرت نے
طالبان امن مذاکرات کی صورت میں ایک سنہری موقع دیا تھا کہ ہم امریکہ سے
اپنی شرائط پر دونوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوتے
مگر حکومت تو امریکہ کی اس پیشکش پر پھولی نہیں سما رہی تھی کہ طالبان
مذاکرات کی مزید پر لانے کے لئے امریکہ نے ہم سے مدد طلب کی ہے اور وہ پکے
ہوئے پھل کی طرح امریکہ کی جھولی میں جاگرے۔ ہائر کوالیفائیڈ، فارن ریٹرن
وزیراعظم کی کابینہ و پالیسی سازوں کو یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی
کہ کم از کم امریکہ سے طالبان سے ثالثی کے عوض ہی منوا لیا جاتا کہ پہلے
بھارت کشمیر سے اپنی فوج نکال لیں۔ مگر یہاں تو امریکہ یاترا کی واپسی پر
پاکستان کی شہ رگ ہی کاٹ دی گئی۔ اگر شہ رگ کٹ جائے تو جسم زیادہ دیر تک
زندہ نہیں رہتا۔ اس کی زندگی کا واویلا شہ رگ پر ہی ہوتا ہے۔یہ ایک تلخ
حقیقت ہے 5 اگست 2019ء کو پاکستان کوایک دفعہ پھر دولخت کر دیا گیا۔ اب
غیرت مند لوگوں کو چاہئے کہ وہ علم جہاد بلند کریں ہماری افواج کا نعرہ ہے
ایمان تقویٰ فی سبیل اﷲ کس کا نعرہ ہے۔ افواج پاکستان نے بتا دیا ہے کہ ہم
ہر سطح تک جانے کئے تیار ہیں اب یہ فیصلہ سول حکومت نے کرنا ہے۔ خدارا ٹیپو
سلطان بنیں۔ ’’ٹویٹ سلطان‘‘ نہ بنے۔ ٹویٹر اور فیس بکوں پر جنگیں نہیں جیتی
جا سکتیں۔ وزیراعظم صاحب کمزوری مت دکھائیں خوف کی بنیاد پر پالیسی نہیں
بنائی جا سکتی۔ کشمیر تکمیل پاکستان کا ادھورا ایجنڈا ہے۔ کشمیریوں کے اوپر
ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں آپ سلامتی کونسل میں اجلاس کے انعقاد، رپی
یونین کے اجلاس میں کشمیر کے ذکر کو ہی سفارتی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ مان
لیا جائے کہ سفارتی محاذ پر ہمارے حصے میں صرف ناکامی آئی ہے جبکہ عسکری
محاذ پر ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی ترتیب نہیں دی جا سکی۔ الحمد ﷲ! ہم
ایک ایٹمی طاقت ہیں اور یہ ایٹم بم ہم نے ہندوستان اور اسرائیل کے لئے ہی
بنایا ہے۔ کشمیر کی خاطر جس حد تک جانا پڑا ہم جائیں گے۔ مشکل کی اس گھڑی
میں ان کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ گزشتہ 72 سالوں سے آزادی کی راہ
میں خون بہانے والے کشمیریوں کے لہو سے غداری ہوگی اگر اسرائیل کو تسلیم
کیا آخر اتنی جلد بازی کیوں ہے؟ کیا اسرائیل کے بغیر زندہ نہیں رہا جا سکتا؟؟؟
حالات تیزی سے پاکستان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ مودی کی سازش کو ناکام
بنانے اور کشمیر سے نکالنے کا ایک ہی واحد آپشن ہے وہ ہے جہاد اور اگر
حکومت نے یہی بزدلانہ روش اختیار کئے رکھی تو قیامت کا دن ہوگا کشمیریوں کے
ہاتھ ہونگے اور ہمارا گریبان ہوگا اس لئے ہمیں کچھ کرنا چاہئے اس وقت کشمیر
کے مسئلے پر پوری قوم ایک پیج پر ہے لیکن حکومت اور ادارے ہوش کے ناخن لے
رہے یہ تشویشناک صورتحال ہے قوم میں مایوسی کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے
غفلت دکھائی تو یاد رکھیں ہندوستان کا بارڈر اسلام سے صرف 22 کلومیٹر دور
رہ جائے گا۔ دراصل بھارت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک
لوکل موومنٹ ہے اسی لئے حالیہ اقدامات اٹھا کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں
ضم کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دیا۔ انڈیا کے فوجی دستے کشمیریوں کے گھر گھر
میں گھس کر قتل عام کررہے ہیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فوجی اقدامات
بروئے کار لائیں جائیں صرف سفیر کی طلبی یا اُسے نکالنے سے کچھ نہیں ہوگا
بلکہ ہمیں آگے جانا ہوگا۔ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے خطرناک عزائم
میں کامیاب ہو گیا تو وہ یقیناً آزاد کشمیر پر حملہ کرے گا اس حملے کی صورت
میں وہ ثالثی کی کوششیں سامنے آئیں گی جن کا ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے
سامنے اظہار کیا تھا ہمیں مصلحت کی پالیسی مسترد کر کے سخت ردعمل اختیار
کرنا ہوگا۔بابائے قوم قائداعظم نے فوج کو کشمیر کی طرف جانے کا حکم دیا تھا
جسے جنرل ڈگلس گریسی نے ماننے سے انکار کردیا تھا آج پھر اسی حکم پر عمل
درآمد ضروری ہو گیا ہے۔
|