جب پانامہ لیکس نے دنیا بھر کی اڑھائی سو سے زائد شخصیات
کا بھانڈہ عین چوراہے میں پھوڑدیا جس سے ان کی نیک نامی اڑن فو ہو گئی کبھی
جھوٹے لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے رہے اور کبھی وکٹری کا نشان بناکر یوں
اترلتے رہے جیے کشمیر فتح کرلیا ہو پاکستان میں میاں نوازشریف کی فیملی کی
آف شور کمپنیاں انہیں لے ڈوبیں یہی کہرام کیا کم تھا کہ میاں نوازشریف بقلم
خود 2آف شور کمپنیوں کے مالک ٹھہرے اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار یعنی
میڈ ان پاکستان کی
اس عاشقی میں عزت ِ سادات بھی گئی
پانامہ لیکس کے قیامت خیز انکشافات کے بعد کئی عالمی لیڈر مشکل میں آئے آئس
لینڈ کے وزیر ِ اعظم عوامی دباؤ کے پیش ِ نظرمستعفی ہوکر گھر چلے گئے ہیں
والد کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں جھوٹ بولنے اور مالی فوائد حاصل کرنے
کے اعتراف پر برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے خلاف ہزاروں افراد
مظاہروں کے بعد استعفےٰ دے کر گھرچلے گئے وطن عزیز میں عوام گم صم ہیں شاید
وہ کرپشن کو کوئی برائی سمجھتے ہی نہیں ہیں یا پھر ان کے خیال میں احتجاج
کرنا فقط عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور شیخ رشید پرہی فرض تھا حالانکہ
ہم جس مذہب کے پیروکارہیں اس میں کرپشن بہت بڑا گناہ ہے لیکن پاکستان میں
حکمرانوں کی کرپشن پر کوئی خاص رد ِعمل دیکھنے میں نہیں آیا میاں نوازشریف
، مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر نااہل ہوچکے ہیں لیکن ان کے چاہتے
والے عدالتوں میں پیشی کے موقع پر آج بھی میاں نوازشریف کے حق میں نعرے
لگاتے ہیں کچھ تو اہلکاروں سے الجھ بھی پڑتے ہیں تاکہ وفاداری کے ثبوت
ریکارڈپرآجائے کیونکہ اس معاشرہ میں یہی تیزبہدف نسخہ ٔ کیمیاہے سوال یہ ہے
کہ میاں نوازشریف فیملی کی آف شورکمپنیاں غیرقانونی ہیں یا قانونی ۔ میاں
شہبازشریف خاندان کے آمدن سے زائد اثاثے کیونکرہیں؟ اس بارے میں حقیقت کتنی
ہے افسانہ کتنا یہ جاننا عوام کا حق ہے ویسے تو مشہور یہی ہے کہ غیرقانونی
سرمائے سے بنائی جانے والی کمپنیوں کی اصطلاح آف شور کمپنیاں کیلئے استعمال
کی جاتی ہے ۔ ایک شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن کی تعریف
کیا ہے؟
اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔۔۔ اگر اس
فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری بیوروکریسی اور سارے کے
سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں ہمارا مذہب تو ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے
ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنماؤں اور اداروں کو کرپشن کے خلاف
میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء
کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو
سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز
کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ حکمرانوں کو اس سلسلہ میں بہت زیادہ
محتاط ہونے کی ضرورت ہے سابقہ وزیر ِ اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ تہمینہ درانی نے
سچ کہاہے آف شور کمپنیاں غیر اخلاقی ہیں ملکی سرمائے کی غیر قانونی ذرائع
سے غیرممالک میں منتقلی انتہائی خوفناک بات ہے دنیا کے کئی ممالک میں منی
لانڈرنگ بہت بڑا جرم تصورکیا جاتاہے کیونکہ اس سے بہت سی معاشرتی برائیاں
اور جرائم جنم لے سکتے ہیں اسلام نے ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا ہے
اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ
کرتاہے جس مذہب میں اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن تصورکیا جاتاہو اس کے
حکمران کے لئے کیسا معیار ہونا چاہیے اس کا خود تصورکیا جا سکتاہے یہ الگ
بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو تی جارہی ہے
یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ،
معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو
بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔۔انہی خواہشات نے اختیارات سے تجاوز کرنے
پر مجبور کررکھاہے میاں نوازشریف کی فیملی کی آف شور کمپنیوں اورمیاں
شہبازشریف خاندان کے آمدن سے زائد اثاثے کا انکشاف کا عوام کو بہت بڑا
دھچکا لگاہے کیونکہ میاں نوازشریف میاں شہبازشریف کروڑوں عوام کیلئے ایک
آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں ماضی میں آصف علی زرداری کی کرپشن کے قصے مشہور
تھے پھر خواجہ سعدرفیق،خورشیدشاہ، شاہدخاقان عباسی، سید یوسف رضا گیلانی
اور راجہ پرویز اشرف کی ایسی ہی کئی کہانیاں گردش کرنے لگیں سادہ دل عوام
کس پر اب یقین کریں کس پر اعتماد کریں شاید اب راہبرکے روپ میں راہزن ہی
لوگوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے جھوٹ کبھی
کامیاب نہیں ہوسکتا ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ہزار جھوٹ بولنا پڑتے ہیں
حکمرانوں کو اس حقیقت کو ادراک کرنا ہوگا قوم کو ادھورے سچ قبول نہیں ہیں
زندہ قومیں ہی فتحیاب ہوتی ہیں زندہ قوموں کو سچائی سے پیارہوتاہے ہمیں بھی
ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔
|