آزادی پر تبرے مت بھیجیں

گزشتہ دنوں میں ہمارے ہاں قتلِ عمد کے دو واقعات ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے پورے قومی منظر نامہ پر ہلچل مچا دی ۔ نہ صرف قتل کی اِن دونوں وارداتوں میں عوام نے خصوصی دلچسپی لی ،بلکہ کئی دن تک یہ دونوں خبریں بین الاقوامی اخبارات میں بھی موضوع ِ بحث بنی رہیں۔ اِ ن دونوں واقعات کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں قتل کے مرتکب موقع پر ہی گرفتار کرلیے گئے ۔ ان میں سے ایک واقعہ گورنر تاثیر کے قتل کا ہے جس میں ممتاز قادری کو آلہ قتل سمیت موقع ِواردات پر ہی گرفتار کرلیا گیا ۔ اس واقعہ کے بعد عوامی خواہش یہ تھی کہ ممتاز قاری کو رہا کردیا جائے اور ”جو ہوا،سو ہوا“ کے مصداق اِ س واقعہ کو نظرانداز کردیا جائے کیونکہ اِس واقعہ کے پسِ منظر میں خود گورنر کے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا بھی عمل دخل تھا ۔ مگر عوامی خواہش کے برعکس حکومت کی طرف سے اس پورے کیس کو ہی انڈر گراؤنڈ کردیا گیا۔ دوسرا واقعہ لاہور میں پیش آیا جس کا مرکزی کردار مردود ریمنڈ ڈیوس تھا ۔ اسے بھی جائے قتل پر ہی گرفتار کرلیا گیا ۔ اس کے بارہ میں عوامی جذبات یہ تھے کہ اسے پاکستان کے سب سے مصروف ترین چوراہے پر برسرِ عام پھانسی دی جائے ،مگر عوامی غیظ وغضب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس شایانِ شان پروٹوکول کے ساتھ اسے ”محبوس “ رکھ کر بالآخر رہا کردیا گیا ، وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار میں آنے والے ”جمہوری ڈائنا ساروں“ نے اگر عوامی جذبات کو یوں ہی کھلواڑ بنائے رکھا تو ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

قاتل امریکی کو بچانے کے لیے دیت کے مقدس شرعی تصور کا سہارا لیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیت کے حکیمانہ اسلامی تصور سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی بھی مقتول کے ورثاء کو یہ حق شریعت ِ مطہرہ نے دیا ہے کہ وہ قصاص کی جگہ دیت اور خون بہا لے کر قاتل کو معاف کردیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو شرعی نکتہ نظر سے ان کو بے غیرتی اور بے حمیتی کا طعنہ دینا بالکل درست نہیں ، بلکہ یہ ان کو حاصل شرعی اختیار پر اعتراض اور نکتہ چینی کے مترادف ہے جو اخروی اعتبار سے بہت خطرناک ہے ۔ ریمنڈ اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے بے گناہ شہریوں کے ورثاء اگر واقعتاً اپنی رضا اور خوشی کے ساتھ ہی خون بہا لے کر قصاص کے مطالبہ سے دست بردار ہوئے ہیں تو ان کے اِس طرزِ عمل کو تنقید اور جرح کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے ۔ اس تمہید کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ ہمارے ہاں بعض لوگ اِن ورثاء کو ہی دشنام دے رہے ہیں اور ریمنڈ کی رہائی کی تمام تر ذمہ داری انہی پر عائد کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اگر انہوں نے اپنی رضاؤ رغبت کے ساتھ ایسا کیا بھی ہے تو اپنے شرعی دائرہ اختیار سے باہر کوئی قدم نہیں اٹھایا....ورنہ قرائن وشواہد تو سرے سے اِس امر کی تائید ہی نہیں کرتے کہ ورثاء اس کی رہائی کے لیے آمادہ تھے یا انہوں نے بغیر کسی جبر واکراہ کے دیت کی صورت کو قبول کیا ہے ۔ بلکہ ان کی طرف سے تو کافی پہلے بیان آچکے تھے کہ ہمیں صلح صفائی اور معافی تلافی کے لیے مجبور اور ہراساں کیا جارہا ہے ۔نیز ریمنڈ کی رہائی کا ناگہانی فیصلہ آنے کے بعد مقتولین کے ورثاء کے وکیل اسد منظو ربٹ نے بھی میڈیا کے سامنے یہی بیان دیا کہ میرے مؤکلین کو مجبور کر کے دیت کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے ،مگر یہ عجیب کیس ہے کہ جس میں ایک فریق کے وکیل کے اتنے اہم اور مضبوط الزام کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی گئی اور ای سی ایل کی حساس لسٹ میں شامل ملزم کو فوراَ سے پہلے ملکی سرحدوں سے نکال باہر کردیا گیا۔ہماری اپنی عدالتی تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں ملتی ہیں جب عدالت کو شک ہوا کہ مقتول کے ورثاء سے دیت کے کاغذات پر جبراً دستخط لیے گئے تو عدالت نے ان کاغذات کی بنیا پر کاروائی کو آگے بڑھانے سے روک دیا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف حسٹس حاذق الخیری کے بقول 1980ءمیں شریعت کورٹ فل بینچ نے یہ فیصلہ بھی دیا تھا کہ شرعی قانون کے مطابق مقتول کے ورثاء کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر دیت لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، فیصلہ کے مطابق عدالت ایسی دیت کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

نیز اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مقتول کے ورثاء نے اس کیس میں بغیر کسی جبرواکراہ کے محض دیت کی ترغیب دیے جانے پر اسے قبول یا ہے تو بھی اس کو رہا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ وہ محض ایک قاتل یا لاہور واقعہ کے متاثرین کا مجرم ہی نہیں تھا،اس کی ایک حیثیت قومی مجرم کی بھی تھی کیونکہ وہ ناجائز اسلحہ لے کر کھلے عام دہشت گردی کرتا پھر رہا تھا نیز اس کے پاس بہت سے اہم ملکی راز بھی تھے جو وہ اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔ معاملہ کی اِس ساری پیچیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ” دیت،دیت“کی رٹ لگائے جانا اور طوفانی انداز میں اس کو اپنی حدودِ ریاست سے باہر پہنچا دینا ہمارے حکمرانوں کا ہی کارنامہ ہے ۔

اب ہمارے دانش وروں کی طرف سے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر تبرے بھیجے جارہے ہیں۔ عوامی حلقوں میں بھی انتہائی مبالغہ آمیز باتیں زوروشور سے جاری ہیں کہ پاکستان مکمل طور پر فروخت ہوچکا ہے ، اب اس کی آزادی اور خودمختاری کے افسانے فرسودہ اور بے معنی ہوچکے ہیں، ہم امریکا کی ایک طفیلی ریاست کے سوا کچھ نہیں، یہاں کا سارا نظام امریکا کے اشارہ ابرو پر چل رہا ہے وغیرہ وغیرہ.... مبالغہ پر مبنی ان تبصروں سے اتفاق کر لینا کسی حقیقت پسند انسان کے لیے ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ ریمنڈ کی رہائی کے لیے ہمارے حکمرانوں کا کردار انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک رہا ہے ۔یہ بھی صحیح ہے کہ پاکستان کی رولنگ کلاس شروع سے ہی امریکا کی کاسہ لیس اور اجرتی غلام رہی ہے ۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستان کے ریاستی اداروں نے پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے انتہاء درجہ کی غلامانہ ذہنیت کا اظہار کیا ہے ۔ حالات کی خرابی ، بلکہ تباہ حالی سے انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ انکار مقصود ہے ۔عرض صرف یہ کیا جارہا ہے کہ بیماری جس درجہ اور لیول کی ہے ،اسے اسی سطح پر ہی رہنے دیجئے ۔بڑھا چڑھا کر مت پیش کیجئے ۔ بسترِ علالت پر پڑے انسان کو مردہ سمجھ کر نوحہ وماتم شروع کردینا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔ پاکستان اس وقت مسائل اور مصائب کے یک مہیب گرداب میں پھنسا ہوا ہے ، لیکن خدارا ، اس کو صرف گرداب کا شکار ہی رہنے دیجئے ، پیش بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبل از وقت فاتحہ خوانی سے باز رہئے ۔ یقیناً یہ تبصرے سوزِ دل اور فکر مندی کے جذبات کے ساتھ کیے جاتے ہوں گے مگر جان لیجئے کہ ان باتوں کا ایک سائیڈ ایفیکٹ بھی ہے جو استعماری قوتوں کے فیوچر پلین کی راہ ہموار کر رہا ہے ۔ ریمنڈ کی رہائی، امریکا کی کامیابی اور ہمار ی شکست ضرور ہے ،مگر اس کا یہ مطلب تراش لینا بھی درست نہیں کہ پاکستان کے اپنے ادارے بالکل بے اختیار اور مفلوج ہوچکے ہیں۔ ہم کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارے اِن افراط زدہ اور آگ بگولہ تبصروں سے حکمران گھبرا جائیں گے اور ڈر کے مارے ملک کے مفاد میں کوئی بڑا اٹھا ڈالیں گے ؟ اگر یہی بات ہے تو اپنے حکمرانوں کے بارہ میں اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے پر ہمیں کسی سائیکالوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہئے ۔اگر پاکستان عراق وافغانستان طرز کی کوئی ریاست ہوتا جیسا کہ ہمارے نیک دل دوست سوچ رہے ہیں تو ریمنڈ کے خلاف سرے سے یہاں مقدمہ ہی درج نہ ہوتا ، اس کو اتنے عرصہ تک محصور نہ رکھا جاسکتا اور نہ ہی اسے ایک پاکستانی عدالت کی اتنی پیشیاں بھگتانا پڑتیں۔ طفیلی ریاستوں میں وہ کچھ نہیں ہوتا حو پاکستان میں ریمنڈ کے ساتھ ہوا ہے۔اپنی ان باتوں کے ساتھ شاید ہم پیشگی ہی اپنے آپ کو پاکستان کے کھنڈر بننے اور خدانخواستہ عراق وافغانستان جیسی صورتِ حال سے دوچار ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں اور گویا دنیا کو بتلا رہے ہیں کہ پاکستان فروخت ہوچکا، مگر ہم صرف زبانی احتجاج تک محدود ہیں ۔اس کی آزادی اور خومختاری کے سودے ہوچکے ،مگر ہم دو انچ کی زبان چلانے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ اِن باتوں کو معمول بنا کر کرنا اور سننا بالواسطہ طور پر ہمیں خود غرض اور اجتماعی مفادات کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کے جذبہ سے عاری کر رہا ہے کیونکہ ہم اپنے ہی بقول سب کچھ لٹا کر بھی اپنے اپنے مشاغل میں مست ہیں۔ خاکم بدہن ، اگر مستقبل میں دنیا بھر کا طاغوت متحد ہوکر واقعتاً ہمارا سب کچھ لوٹنے کے لیے آجاتا ہے تو کیا ہم اپنے گھر، خاندان،یارانے اور مال ودولت کو اعلیٰ مقاصد کے لیے قربان کرنے کی ہمت کرسکیں گے؟ معمول سے کی جانے والی اِن باتوں کو معمولی سمجھ کر ان کے مضر نفسیاتی اثرات سے غافل رہنا بہت بڑی غلطی ہوگا ۔ پاک وطن کل بھی آزاد تھا اور آج بھی آزاد ہے ۔ اک ذراسی دیر ہے روشن صبح کے طلوع ہونے میںجب بے غیرت اور ضمیر فروش حکم رانوں کے چنگل سے یہ بھی آزاد ہوجائے گا(انشاءاللہ)۔قوم کے فکری قائدین پر فرض ہے کہ امید کی شمع جلائے رکھیں ۔ اپنی قوم کو حقیقت پسند بنائیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے جذبہ کو ان میں مہمیز دیں۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے ۔
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 46805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.