ایرانیہ بی بی اس کیلاش قبیلے کی قدرے تیز طراز خاتون
سمجھی جاتی ہے۔اس نے اپنے گھر کا ایک حصہ گیسٹ ہاوس بنا رکھا ہے۔ویسے اس
قبیلے میں اکثر گھروں کا ایک کمرہ Paying Gust کے طور پر استعمال کیا جاتا
ہے جس سے ان گھرانے کو آمد ن ہوتی ہے۔ایرانیہ بی بی نے مکان کی اوپر والی
پوری منزل ہی گیسٹ ہاوس بنا رکھی ہے اور وہ قبیلے کے کلچر کو زندہ رکھنے
میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔اس گیسٹ ہاوس میں صرف غیرملکیوں کو ٹھہرنے
کی اجازت ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں،ایک تو کیلاش خاندان کے اکثر گھروں میں
وائن (دیسی شراب) تیار کی جاتی۔اس کی کشیدکاری ان ہی گھروں کے اندر ہوتی
ہے۔یہ خالصتاًانگور سے تیار کی جاتی ہے۔یعنی انگور کو ایک خاص فارمولے کے
تحت نچوڑا جاتا ہے اور اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا جاتا۔یہ
”مشروب“وہ خود بھی استعمال کرتے ہیں اور فروخت بھی کرتے ہیں۔غیر ملکی مہمان
جوعموماًمقامی گائیڈ کی خدمات مستعار لیتے ہیں ان ہی جہگوں پر جاتے
ہیں۔دوسرا یہ کمرے کا کرایہ مقامی سیاحوں سے زیادہ دیتے ہیں اس وجہ سے
انہیں ترجیحیح دی جاتی ہے۔ہماری ملاقات ایراینہ بی بی کے خاوند سے ان کے
گھر میں ہی ہوئی۔ہمیں ایرانیہ بی بی نے ڈرائی فروٹ پیش کیا اور خوشدلی سے
ہمارا استقبال بھی کیا۔ایرانیہ بی بی کے خاوند ایک ریٹائرڈملازم ہیں۔کیلاش
قبیلے میں خواتین مردوں سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں۔گھروں میں اکثر فیصلے
مردوں کی بجائے خواتین ہی کرتی ہیں۔مرد زیادہ تر باہر کے معاملات دیکھتے
ہیں اور جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں جن کے لیے علیحدہ سے چراہ گائیں
ہیں۔وہ بھی عام سا مرد تھا لیکن سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ ہونے اور غیر
ملکیوں کے ساتھ رہنے کے باعث معلومات کا ایک ذخیرہ تھا۔اس نے اس قبیلے کے
رسم و رواج کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔اس نے بتا یا کہ اس قبیلے کی خواتین
کا لباس وہی ہے جو دو سو سال پہلے تھا،البتہ اس میں کچھ جدت وقت کے ساتھ
ساتھ آئی ہے۔ یہ لباس عموماًگھروں میں ہی تیار کیے جاتے ہیں اور اس پر خاصی
محنت کی جاتی ہے۔یہ واقعی ایک منفرد لباس ہوتا ہے۔موتیوں کا زیادہ استعمال
ہوتا ہے۔سروں پر دوبٹے کی جگہ ایک خاص قسم کی پٹی بندھی جاتی ہے جسے ٹوپی
کی شکل دی جاتی ہے۔مرد زیادہ تر شلوار قمیض پہنتے ہیں۔رہائش کے لیے مکان
لکڑی کے بنائے جاتے ہیں جو قدرتی آفات سے محفوظ ہوتے ہیں۔اس نے بتایا کے ان
کے پاس پچاس بھیڑ بکریاں ہیں جو قبیلے کی مشترکہ چراہ گاہ میں رکھی گئی
ہیں۔یہ چراہ گائیں حکومت نے انہیں دے رکھی ہیں اور یہ اس گاؤں سے کافی دور
ہیں۔ وہاں پر مستقل جانوروں کو رکھا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے
مرد وہاں پر ہی رہائش پذیر ہوتے ہیں گھر کے معاملات خواتین ہی دیکھتی
ہیں۔یہ پرورش کیے جانے والے جانور جن میں بھیڑ بکریاں زیادہ ہوتی ہیں قبیلے
کی خوش اور غمی میں کام آتے ہیں۔گھوڑا اور بیل بھی پرورش کیے جاتے ہیں اور
یہ ان کے مقدس جانوروں میں شمار ہوتے ہیں۔بیل کی قربانی بہت اہم سمجھی جاتی
ہے۔جیسا کہ ابتداء میں بتایا گیا تھا کہ کیلاش قبیلے میں خوشی اور غمی ایک
ہی طرح منائی جاتی ہیں۔یہ رسومات ان کے کلچر کا حصہ ہیں۔اس قبیلے میں شادی
صرف پسند کی جا سکتی ہے۔”ارینج میریج“کا کوئی تصور نہیں ہے۔لڑکا لڑکی اگر
ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو پھر سال میں تین مواقع ایسے آتے ہیں کہ لڑکا
لڑکی کو اپنے ساتھ گھر لے جائے گا۔یہ تین مواقع تین میلوں کے دوران میسر
آتے ہیں جو مئی،اگست اور دسمبر میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ان میلوں میں جو تین
دن سے ایک ہفتہ تک جاری رہتے ہیں اس قبیلے کے سارے ہی لوگ،مرد خواتین اور
بچے شریک ہوتے ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں بکرے اور بیل ذبح کیے جاتے ہیں جو
یہ کمیونٹی مفت میں مہیا کرتی ہے۔خوب محفل سجتی ہے اور روایتی رقص کیا جاتا
ہے۔عام خیال یہ کہ ان میلوں کے دوران لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے
ہیں اور لڑکی لڑکے کے ساتھ شادی کی نیت سے کے گھر چلی جاتی ہے لیکن اس طرح
کا واقعہ اتفاق سے ہی پیش آتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی پہلے سے ہی
فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں اور وہ اس طرح کے تہوار کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور
پھر وہ تہوار کے دوران اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہیں۔لڑکی جب لڑکے کے ساتھ
چلی جاتی ہے تو لڑکی کے والدین اس بات کا اعلان اپنی برادری اور رشتے داروں
میں کرتے ہیں۔پھر والدین لڑکے کے گھر جاتے ہیں اور لڑکی سے دریافت کرتے ہیں
کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے کہ زبردستی لائی گئی ہے۔لڑکی کی جانب سے تسلی
بخش جواب ملنے پر پھر اطمنیان کا اظہار کیا جاتا ہے اور چار دن کے بعد لڑکی
کا ماموں لڑکے کے گھر جاتا ہے۔لڑکا جو اب دولہا ہوتا ہے لڑکی کے ماموں کو
ایک بیل اور ایک بندوق تحفے میں دیتا ہے۔پھر شادی کے فنکشن کی تاریخ طے کی
جاتی ہے۔پوری برادری کو مدعو کیا جاتا ہے۔درجنوں بکرے اور بیل ذبح کیے جاتے
ہیں۔روایتی رقص بھی ہوتے ہیں۔دولہا دلہن کے قریبی رشتے داروں کو دو ہزار
روپے فی کس دیتا ہے۔یوں شادی کی ساری رسومات مکمل ہو جاتی ہیں۔دولہا دولہن
کو گھر لے جاتا ہے۔پھر بچوں کی پیدائش پر بھی اسی طرح کا جشن منایا جاتا
ہے۔شادی کے بعد بات یہاں رکتی نہیں اگر لڑکی کو کوئی مرد زیادہ اچھا لگے تو
وہ طلاق کے بغیر ہی دوسری شادی کر سکی ہے۔طلاق یا اس طرح کی کسی اور
دستاویزکا کوئی تصور نہیں۔بس نیا دولہا پرانے دولہا کو ہرجانے کے طور پر
کچھ رقم دے گا۔کچھ دن ناراضگی رہے گی پھر راضی ہو جائیں گے گویا کچھ ہوا ہی
نہیں۔یہ روایات کیلاش خاندان کی صدیوں پرانی ہیں جنہیں انہوں نے زندہ رکھا
ہوا ہے۔پورے قبیلے میں کوئی فرد دوسرے سے ناراض نہیں ہے۔ (جاری ہے)
|