وزیراعظم فاروق حیدر کے آنسو

 دکھ ، درد اور بے بسی کی اگر کوئی زبان ہے تو یہ آنسو ہیں۔ ایک وزیراعظم اتنا لاچار بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیر رو رو کر بیان کرتا ہے۔ یہ آن لائن اور آن دی ریکارڈ آنسو پہلی بار ریاستی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی موجود گی میں ایک وزیراعظم نے بہائے ۔ پھر یونیو رسٹی گراؤنڈ کے ایچ خورشید فٹ بال سٹیڈم میں بھی عمران خان کی موجودگی میں یہ منظر دوسری بار دنیا نے دیکھا۔ کشمیر پر قومی پارلیمنٹیرینز کانفرنس میں بھی وزیراعظم فاروق حیدر نے تیسری بار خود بھی آنسو بہائے اور بہتوں کو آنسو بہانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے اس موقع پر چند اہم نکات کی نشاندہی کی۔ جن پر پاکستان فوری غور و خوض کر رہا ہے۔ ایسے اشارے ملے ہیں کہ فاروق حیدر خان کی دو ٹوک گفتگو کو تعمیری تنقید کے زمرے میں رکھا جائے گئے جب کہ بعض حکومت کو اکسا رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا دبنگ سٹائل وسیع تر قومی مفاد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ جب کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ فاروق حیدر کی باتیں کشمیریوں کی دل کی آواز ہیں۔ انہیں کوئی دوسرا رنگ دینے والا خود قومی مفاد کا مخالف ہو گا۔کشمیریا س وقت جس روحانی اذیت سے گزر رہے ہیں ، اس کا احساس کوئی درد دل ہی کر سکتا ہے۔ فاروق حیدر کے آنسو فاروق عبد اﷲ کی طرح مگر مچھ کے آنسو نہیں ہو سکتے۔ یہ بے بسی اور لاچارگی کی تصویر ہیں۔ تارکین وطن کشمیری اور آزاد کشمیر کے عوام مقبوضہ کشمیر کے محبوس بھائیوں کے لئے کچھ کرنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ سب بے چین ہیں۔فاروق حید ر خان نے اہم باتوں کی نشاندہی کی ہے۔ پہلی یہ کہ پاکستان کشمیریوں پر اعتماد اور اعتبار کرے، یہ اعتماد ہی سب کچھ ہے۔ کشمیری کبھی بھی پاکستان کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ کشمیری کبھی بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف کام نہیں کر سکتا۔ جو لوگ خود مختار ی کے حامی ہیں ، وہ بھی پاکستان اور بھارت کو ایک پلڑے میں نہیں ڈالتے۔ خود مختاری کے علمبردار مرحوم امان اﷲ خان یہ بات مسلسل واضح کرتے رہے۔ انہوں نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی۔ مگر چند مخصوص عناصر نے اپنے مفاد کے لئے یا اسلام آباد کو بلیک میل کرنے کے لئے جے کے ایل ایف کے بارے میں پروپگنڈہ کیا۔ مرحوم ایک بوریا نشین تھے۔ راولپنڈی کا چاندنی چوک ان کی مخلصانہ جدوجہد کی ہمیشہ گواہی دیتا رہا۔ اقتداریا مراعات کی لاچ اور حرص میں شیخ عبد اﷲ اور مفتی فیملی نے کشمیریوں کو فریب اور دھوکہ دیا۔

وزیراعظم آزاد کشمیرمطالبہ کر رہے ہیں کہ کشمیریوں کو اپنا کیس خود دنیا کے سامنے پیش کرنے دیا جائے، آزادکشمیر حکومت اور حریت کانفرنس کے وفود دنیا میں روانہ کئے جائیں۔حکومت نے اعلان کیا تھا کہ دفتر خارجہ اور دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں گے۔ شاید یہ ڈیسک قائم کرنے کی تیاری مکمل ہو چکی ہو گی۔ کیوں کی ان کی فوری سرگرمی بہت ضروری ہے۔ تا کہ بھارتی اقدامات اور جارھیت کا دنیا کو اندازہ ہو سکے۔ یورپ، امریکہ، افریقہ، عرب اور وسط ایشیا کے اہم دارلحکومتوں میں کشمیر ڈیسک سرگرم ہوں تو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ آزاد کشمیر پر حملے کا انتظار یا آخری کشمیری کے قتل کا انتظار نہ کیا جائے۔ پاکستان سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت سے آگے بڑھ کر عملی حمایت کرے کیوں سرینگر میں کشمیری پاک فوج کا انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیر صرف آزاد کشمیر نہیں۔ سب یہ اعلان کر رہے ہیں کہ بھارت نے اگر آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یعنی آزاد کشمیر پر حملہ ہی پاکستان پر حملہ تصور ہو گا۔ یہ درست منطق نہیں۔ بھات کی مقبوضہ کشمیر میں جارحیت اور نسل کشی کو بھی پاکستان پر حملہ اور جارحیت سمجھا جائے۔ بھارت کو انتباہ کیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کا حق نہ دینا بھی پاکستان پر حملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ گو کہ پاکستا کا مقبوضہ کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں ہے ۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مداخلت اور توسیع پسندی روکنے کے لئے کوئی راستہ نکالنا ہے۔ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔سپریم کورٹ آف انڈیا مکمل بے بس ہے۔ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ کشمیریوں کو قید سے آزاد نہ کر سکی اور نہ ہی کشمیریوں کو ئی ابتدائی ریلف دی جا سکا۔ الٹا بھارتی سپریم کورٹ نے اپنی حکومت سے کہا کہ قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے معمول کی زندگی بحال کی جائے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کرفیو، سخت پابندیاں ِ لاک داؤن، نسل کشی، مظالم قومی سلامتی کے لئے ضروری ہیں تو انہیں جاری رکھا جائے۔ بھارتی سپریم کورٹ کو اس پر بھی اعتراض نہیں ہے کہ بھارتی فورسز کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں، پیلٹ سے کشمیریوں کو آنکھوں اور بینائی سے محروم کرتے ہیں۔یہ سب قومی سلامتی کے زمرے میں لایا گیا ہے۔ یعنی سپریم کورٹ آف انڈیا قومی سلامتی کے لئے کشمیریوں کا قتل عام اور بدنام زمانہ کالے قوانین کا بے جا استعمال درست سمجھتی ہے۔

یہ مطالبہ شدت سے سامنے آ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ معاہدے ختم کئے جائیں۔ وزیراعظم فاروق حیدر نے بھی یہ مطالبہ دہرا کر کشمیریوں کی ترجمانی کی ہے۔ دو طرفہ معاہدے کشمیریوں یا پاکستان کے مفاد کے خلاف ہیں۔ بھارت دنیا کے سامنے ان کا بہانہ پیش کر کے بچ نکلتا ہے۔ دنیا بھی دو طرفہ معاہدوں کی آڑ میں بھارت کو واک اوور دیتی ہے۔ تیسرے فریق یا کسی ملک کی ثالثی یا اقوام متحدہ کے کردار کی یہ دو طرفہ معاہدے ہی نفی کرتے ہیں۔ مسلہ کشمیر کو عالمی تنازعات کی فہرست سے غائب کرنے میں دو طرفہ بات چیت ہی رکاوٹ بنی ہے۔ اس لئے کسی بھی صورت میں شملہ، تاشقند، لاہور معاہدوں سے جان چھڑانالازمی بن گیا ہے۔

کشمیر کی جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن کے طور پر نہ پکارا جائے۔ یہ سیز فائر لائن ہے، کنٹرول لائن نہیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کا یہ موقف سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی درست بیانیہ ہے۔ جو لوگ مسلہ کے حروف ابجد سے ہی لاعلم ہوں گے، انہیں کنٹرول لائن اور سیز فائر لائن میں زمین و آسمان جیسا فرق شاید سمجھ نہ آسکے۔ ایسے میں نقصان کا کیسے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیزفائر لائن کو انترنیشنل بارڈر تسلیم کرانے کے لئے بھارت نے کنٹرول لائن جیسے اصطلاع ایجاد کیاور اسے زبان زد عام کیا۔ وزیراعظم فاروق حید ر خان کی کھری کھری باتیں ایسی ہیں جن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔کوئی ریاست انا پرست یا انتقام یا عناد کی روادار نہیں ہو سکتی۔ منزل کے درست تعین کے بغیر مسافر کا بھٹک جانا ٹھہر جاتا ہے۔ پاکستان میں مقبوضہ کشمیر کے حالات نے بلا شبہ طلاطم اور ہیجان بپا کر دیا ہے۔ کشمیر لہر ایک طوفان بن رہی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کاخون کے آنسو بہانا کوئی ڈرامہ بازی نہیں ۔ پاکستان اس بے بسی اور لاچاری کی کیفیت کو دور کر سکتا ہے۔ بھارتی عدلیہ اور میڈیا کشمیر میں فوجی طاقت کے بے جااستعمال اور جارحیت کے خلاف بات کرنے سے خوفزدہ ہے۔ پاکستان، ترک میڈیا کی طرح عالمی میڈیا ، سفارتی مشنز کو مقبوضہ کشمیر میں حالات کی درست عکاسی، جنگ بندی لائن پر بھارتی جارحیت دکھانے اور دنیا کو کشمیر میں رائے شماری کی طرف متوجہ کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555598 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More