پولیس کلچر ……ذمہ دار کون؟

گذشتہ کئی دنوں سے محکمہ پولیس بالخصوص پنجاب زیر عتاب ہے سوشل میڈیا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پروائرل ہونے والی ویڈیوز اور خبروں نے پولیس کومزید بدنام اور بے وقعت کردیا ہے ۔ تھانہ کلچر کے خاتمے اور عوام کے درمیان حائل خلیج کو ختم کرنے کے دعوے ٹھس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں موجودہ سیناریو میں عوام پولیس اور ان کے رویوں سے مزید بدظن اور نالاں دکھائی دیتی ہے اور موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کو وزیراعظم سے وزیر اعلی تک اورآئی جی پنجاب سے لیکر تفتیشی تک کومختلف سوالات کاسامنا اور بھگتنا پڑرہا ہے واقعات کے پے در پے منظر عام پر آنے سے پولیس کا امیج انتہائی حد تک گرچکا ہے اور اب جس طرح سے عوام محکمہ پولیس سے شاکی اور ناخوش دکھائی دیتی ہے بالکل اسی طرح پولیس ملازمین بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ خاص طور پر اپنے اعلی افسران کے روپے اور احکامات سے کہ جن کی وجہ سے وہ عتاب کا شکار ہوتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اپنی گردن اور توکری بچانے معطلی و تبادلے سے بچنے اور اعلی حکام و سیاسی گرگوں کے سامنے جوابدہی سے بچنے کیلئے پولیس کے اعلی افسران اپنے سے چھوٹے ملازمین کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں اور وقتی طور پر اپنی گلو خلاصی کرالیتے ہیں لیکن ان کے اس عمل سے جوچھوٹا ملازم مصائب و مشکلات کی گھمن گھیری میں آتا ہے تو اس کی جگ ہنسائی تو ہوتی سو ہوتی ہے بسا اوقات تو نوبت خودکشی یا ملازمت سے مستعفی ہونے پر منتج ہوتی ہے-

حال ہی میں محکمہ پولیس میں ہونے والا خودکشی کا واقعہ جس میں افسرا ن کے رویوں اور بے جا سختیوں سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔ جبکہ کے وکیل کے تشدد کاشکار لیڈی کانسٹیبل نے اعلی افسران کی بے حسی اور محکمہ کی بے بسی و عدالتی نظام کو منہ چڑاتے ہوئے استعفی دے دیا اور اس کی پاداش میں اسے عدالتوں کا سامنا ہے اسی طرح وہاڑی لودھراں شیخوپورہ بہاولپور و دیگرعلاقوں میں پولیس ملازمین حتی کہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ اور کو تشدد اور غیر اخلاقی رویوں کی بنا پر نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ ان کیخلاف مقدمات کا اندراج کرکے انہیں پابند سلاسل اور حوالہ حوالات کیا گیا صلاح الدین کیس میں ڈی پی او سے لیکر نچلے لیول تک ک عملے کو معطل کردیا یہ تو سب حالیہ واقعات ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پولیس اور محکمہ پولیس سے متعلق افراد کی جبلت میں شامل ہوگیا ہے کہ آنے والے سائلین یا مقدمات میں ملوث و مطلوب افراد کے ساتھ غیر انسانی و غیر اخلاقی سلوک اور رویہ برتا جائے یا یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے کہ انسان کومارپیٹ کر ذلیل و رسوا کیا جائے یا یہ کہ ان کی ملازمت کا حصہ ہے کہ انسانوں کی طرح پیش نہیں آنا جبکہ کمیونٹی پولیسنگ تھانہ کلچر کی تبدیلی کا واویلا اور شور شرابہ بڑی شدت کے ساتھ حکومتی ایوانوں سے لیکر اعلی افسران اورنچلے طبقے تک جاری ہے ۔

قارئین کرام! اگر وہاڑی لودھراں شیخوپورہ لاہور اسلام آباد قصور میں ہونے والے تشدد کے واقعا ت بنظر غایت جائزہ لیا جائے اور مشاہدہ و تجزیہ کیا جائے تو اس میں جہاں پر پولیس کا کسی حد تک منفی رویہ سامنے آتاہے وہیں پر پولیس پرسیاسی سماجی عدالتی و صحافتی دباؤ کا عمل دخل بہت زیادہ غالب دکھائی دیتا ہے۔زمینداز کے ڈیرے پر تشدد کرتے نظر آنے والے پولیس اہلکار کو سیاسی طور پر مجبورکیا گیا کہ وہ اس بااثر زمیندار کے ڈیرے پر اس ملزم کو تشدد کا نشانہ بنائے اور باامر مجبوری اپنی ملازمت اور گردن بچانے کی خاطر اسے یہ غیراخلاقی و غیر انسانی عمل کرنا پڑا۔وہاڑی میں خاتون پرمبینہ تشدد کرنے والے پولیس اہلکار اور اس کے ساتھ ساتھ ناکردہ گناہ میں ڈی ایس پی ایس ایچ او عارف شاہ و دیگر کومقدمہ بھگتنا پڑایہاں پر بھی وہاڑی کے ایک بڑے سیاسی گھرانے دولتانہ اور صحافتی اثر کار فرما تھابڑی چوری کا معاملہ تھا جبکہ تشدد بھی تھانے میں نہ کیا گیا تھا اسے غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا۔صلاح الدین کے حوالے سے تشدد میں پولیس اہلکاروں کو نشان عبرت بنانے کیلئے سیاست کو انوالو کیا گیا۔ لیڈی کانسٹیبل اور وکیل کے معاملے میں وکلا اور عدلیہ نے اپنی سپرمیسی کا شوآف کیا اور ایک بے قصوراور ذلت سہہ جانے والی پولیس کانسٹیبل کوبتادیا کہ عدلیہ اور وکلا کے گٹھ جوڑ کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور قانون سے کھیلنے والے کتنے طاقتور ہیں۔اسی طرح قصور میں ایک بار پھر زیادتی کے بعد قتل ہونے والے بچوں کے معاملے میں پولیس کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے اعلی افسران اور وزیر اعلی نے حکم شاہی سے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او قلم زد کردیئے اور اس سارے قبیح عمل میں سیاسی اورمبینہ طور پر چائلڈ پورنوگرافی،بلیک ورلڈ اور بلیک ویب سے جڑے مافیا کی طاقت واضح نظر آئی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس لاچار و مجبور دکھائی دیئے اور زینب ایکٹ کی دھجیاں اڑتی نظر آئیں۔

سارے واقعات کی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جہاں پر پولیس کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے وہیں پر بڑی سیاسی ناہنجاروں کو بھی کیفرکردار تک پہنچایا جائے جوکہ تھانوں اور دفاتر میں بیٹھ کر تمام کارروائیوں پر جائز و ناجائز اثر انداز ہوتے ہیں کسی کی ایک بات نہ ماننے پر ایک کانسٹیبل سے لیکر ڈی پی او تک بھگتناپڑتا ہے عمران خان اور ان کی حکومت کے پولیس کلچر میں تبدیلی ا ور پولیس کو ڈی پولیٹسائز کرنے کے دعوی اسی طرح ختم ہوگئے ہیں جس طرح سے دیگر معاملات میں حکومتی گرفت کمزور ڈھیلی اور بدعملی کا شکار ہے جبکہ محکمہ پولیس کے افسران کو بھی اس حوالے سے سوچنا اور لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے کہ کب تک سیاسی گرگوں اور ان کے ٹاؤٹوں سے بلیک میل ہوتے رہیں گے کب تک چھوٹے اہلکاروں کی عزت نفس تنخواہ اور ملازمت کی قربانی لیتے اور دیتے رہیں گے کب تک سیاستدان ملک و قوم اور اداروں سے کھیلتے رہیں گے مگر اس کیلئے بڑی قربانی دینا پڑے گی اور خود کو بدلنا ہوگا
 

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211893 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More