یہ آج کی بات نہیں یہ توہمارے پیداہونے سے پہلے کی بات ہے
ہم چھوٹے تھے توپولیوکاسنتے آرہے ہیں اورہم نے خودبھی پولیوڈراپس پی کرمنہ
عجیب وغریب بنایاکرتے تھے آج بھی کسی بچے کوپولیوکے قطرے پیتادیکھتے ہیں
توہمیں اپنابچپن بھی فوراًیادآجاتاہے مگرآئے روز سننے کوملتا ہے کہ فلاں
جگہ پولیوٹیم کوتشددکانشانہ بنایاجارہاہے کئی جگہ توپولیوٹیم کے اہلکاروں
کوقتل کی کوشش توکسی جگہ چھریوں کے وارکرکے بھگایاجاتاہے۔آج تک لوگوں
کوپولیوکے بارے میں پتہ نہیں کہ یہ کیاآفت ہے جس کیلئے حکومت اتنازوردے رہی
ہے اوراتنی زیادہ رقم اس پرخرچ کیاجارہاہے صرف دوقطروں کی خاطر2لاکھ
62ہزارسے زائدورکرزپولیو خلاف جنگ میں اپنااپنافرض اداکررہے ہیں اورحکومت
کی طرف سے نئے منصوبے کے مطابق 3کروڑ 80لاکھ بچوں کوپولیوسے بچاؤ کے قطرے
پلائے جائیں گے ۔ ہمیں پولیوکے متعلق جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے ایسے
واقعات پیش آتے ہیں پولیوکی تین اقسام ہیں جوانسانی جسم میں منہ کے ذریعے
آنتوں میں جاکراپنی تعدادبڑھاتے ہیں اورخون میں شامل ہوکرپٹھوں کوکنٹرول
کرنے والے اعصابی خلیوں میں پہنچ کراعصاب کے زیرکنٹرول پٹھوں کوبے
کارکردیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان چل نہیں سکتامعذورہوجاتاہے ۔اس بیماری
کوپولیومائل کہتے ہیں جوایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتی ہے اوریہ کچھ
اس طرح سے منتقل ہوتی ہے کہ ایک شخص پاخانہ کرے اوراچھی طرح سے ہاتھ نہ
دھوئے توپانی آلودہ ہونے کے سبب یہ وائرس دوسرے لوگوں میں منتقل ہوجائے
گاان تمام باتوں کاپتہ نہ رکھنے والے لوگ اس کے خلاف اپنی طرف سے من گھڑت
مفروضے قائم کرتے رہتے ہیں اوراسکے ساتھ کچھ نہ سمجھ ان مفروضوں کوہوادیتے
رہتے ہیں ۔آج تک اس بیماری کاکوئی علاج ممکن نہیں ہے یہ زیادہ تر15سال سے
کم عمرکے بچوں میں پائی جاتی ہے مگریہ وائرس بچوں اوربڑوں میں یکساں
طورپرداخل ہوسکتاہے اورپھلنے پھولنے کیلئے ان کے جسم میں موجودرہتاہے ۔ ایک
رپورٹ کے مطابق 1950دہائی میں امریکہ میں سالانہ 2000کیسز سامنے آتے تھے
اوریہ وبااتنی پھیلی کہ سالانہ 9800کیسزسالانہ بڑھ گئے جس پرکنٹرول پانے
کیلئے امریکہ نے 1955میں پولیوسے بچاؤ کی پہلی ویکسین لاونچ کی جسے Jass
Salik نے بنائی تھی اوریہ انجیکشن کے ذریعے دی جاتی تھی اس کے استعمال کی
وجہ سے 1955سے1957کے دوران پولیو کیسز کی تعداد35000 سے گرکر5600رہ گئی ۔اس
کے بعد1966میں پولیوویکسن قطروں کے ذریعے پلائی جانے لگی اسکے بعد2000تک
امریکہ میں پولیووائرس کانشان تک نہ رہا۔حالانکہ 2000سے پہلے دنیاکے کئی
ممالک میں پولیووائرس پایاجاتاتھامگردوسرے ممالک نے اس پرکنٹرول کرکے اپنے
ملک اس وائرس سے پاک کرلیے 2011میں بھارت کوبھی پولیوفری قراردیاجس کے
بعد2014میں نائجیریامیں بھی پولیووائرس ختم ہوچکااب صرف پاکستان
اورافغانستان میں پولیووائرس باقی ہے میں اپنے قارائین کوبتاتاچلوں سال
2019کے پہلے پانچ مہینوں کی بات کریں تو50کے قریب پولیوکیسز سامنے آئے ہیں
ان کیسز کی تعدادبڑھ رہی ہے اوراس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کے خلاف لوگ غلط
افواہ پھیلارہے ہیں جس کیلئے حکومت بہت زیادہ تیزی دیکھارہی ہے اوراس کے
متعلق آئے روز آگاہی بینرزاوراشتہارات دیکھنے کوملتے ہیں اگران افواہوں میں
کمی نہ آنے کے ذمہ دارپولیوورکرز کی غفلت کوکہیں توغلط نہ ہوگاگزشتہ سال
2018میں پاکستان میں 12پولیو کیسز سامنے آئے ۔اب تک پاکستان میں پولیوٹیم
کوپولیس اہلکارسیکورٹی دیتے تھے مگرکئی باران پرجان لیواحملہ ہونے کی وجہ
سے اب پاک فوج اس کام میں ملک کواس ناسورسے آزادکروانے کیلئے اپنے فرائض
انجام دے گی۔سینکڑوں والدین کواپنے بچوں کوپولیوکے قطرے نہ پلاکرصحت عامہ
کوخطرے میں ڈالنے کی بناپرگرفتاربھی کیاگیاہے۔یادرہے پانچ سال سے کم
عمربچوں کوسال میں تین سے چاربارپولیوسے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں ۔عالمی
ادارہ صحت نے پاکستان کوپولیوویکسینیشن لازمی قراردیاہے ۔پاکستان میں
پولیوکسیز کی تعدا2014میں 306سال 2015میں 52سال 2016میں 20سال 2017میں
صرف01تھی مگرکچھ ماہ کے بعد2018کی رپورٹ میں پولیوکیسز کی تعدادپھر30ہوگئی
اوراس کے ان کیسز کی تعدادبڑھتی گئی کیونکہ اس دوران لوگوں کے زہن میں
بٹھایاگیاکہ یہ ویکسین بناجانچ کے بچوں کوپلائی جارہی ہے اس کے کوئی ٹیسٹ
وغیرہ نہیں کیے جاتے جن کیوجہ سے ہم اپنے بچوں کوخود پولیوکاشکاربنارہے ہیں
اس کے بعدلوگوں نے بچوں کوپولیوسے بچاؤ کے قطرے پلاناتودورپولیوٹیم پرکئی
باروحشیانہ حملے کیے مگربین الااقوامی اداروں کے تمام ترتوجہ بچوں کوقطرے
پلانے کے بجائے اس بات کویقینی بنانے پرمرکوز کی کہ کوئی بچہ اس حفاطتی
قطروں سے رہ نہ جائے ۔اب اپنی قوم کوپولیودشمن سے بچانے کیلئے پاک فوج شانہ
بشانہ کھڑی ہے اوراس میں 2لاکھ 50ہزارصحت محافظون پرمشتمل پرعزم اورتربیت
یافتہ ٹیم افرادی قوت کے ساتھ جاری اس جنگ میں اہم کردارہے ۔صحت محافظوں
کوان کے ہی علاقے میں ڈیوٹی پرلگایاجاتاہے کیونکہ ہرکوئی جتنااپنے
گھرکوجانتاہے اتناغیرنہیں جان سکتا اب ہمیں اس موضی امراض سے چھٹکارالینا
ہوگاتب ہی ہماراملک پولیوفری ممالک میں شامل ہوسکے گا۔
|