میں اور کمال الدین صاحب جب صبح 6 بجے والک کے نکلتے ہیں
روڈوں پہ شوگر چیک کرنے والے اور والیاں اپنی میزکرسی لگائے بیٹھے ہوتے ہیں،
جو والک کرنے والوں کو شوگر چیک کروانے کی تبلیغ کررہے ہوتے ہیں-
ہم دونوں انکی تبلیغ سے انتہائی عاجز آچکے ہیں، آخر تنگ آکر کمال الدین
صاحب نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ٹھان لی۔ کمال الدین صاحب کہنے لگے
ملک صاحب میرے والد صاحب آرمی کی انجنیئرنگ کور میں تھے انہیں کئی تمغے بھی
ملے ہیں انکی ذہانت کی وجہ سے-
میں نے کہا بیشک انہیں تمغے ضرور ملے ہونگے لیکن اسکا سارا ملبہ آپ ذہانت
پہ مت ڈالیئے کہنے لگے ملک صاحب آپکی بات میں وزن ہے کیونہ مٹی تو ایک ہی
ہے کیا ہوا جو زبانیں الگ الگ ہیں، بہرحال پھر بھی ان سے بات کروں گا
ہوسکتا کوئی ذہانت بھرا مفید مشورہ مل ہی جائے -
اگلی صبح جب میں نماز کے لیئے اٹھا اور اپنا موبائل آن کیا تو پہلا میسج
کمال الدین صاحب کا تھا لکھا تھا جیسے ہی آنکھ کھلے پہلی فرصت میں تشریف
لایئے ابا حضور نے انتہائی مفید مشورہ دیا ہے اب ہم شوگرکی تبلیغ کرنے والی
جماعت سے بچ جائینگے،میں جتنی جلدی ہوسکتا تھا نماز پڑھ کر باہر نکل آیا،
گلی کے نکڑ پہ کمال الدین صاحب نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھے خوش
آمدید کہا پھر ہم ایک ایک کپ چاہے دودو چمچ چینی کے ساتھ لیکر بیٹھ گئے،
کمال الدین صاحب نے اپنے والد کے مشورے کی تفصیل بتانی شروع کی۔ کمال الدین
صاحب کہنے لگے ملک صاحب شوگر چیک کرنے والی جماعت سے بچنے کے لیئے ہمیں
اپنے دفاعی بجٹ میں تھوڑا سا اضافہ کرنا ہوگا، میں نے جواب دیا حکم کریں اس
کام کے لیئے کس قسم کے اسلحے کی ضرورت ہے کہاں سے منگوانا پڑیگا مجھے حکم
کریں کہنے لگے آپکو اپنے ذہن پہ زیادہ زور دینے کی ہرگز ضرورت نہیں ابا جی
نے انتہائی کم لاگت مشورہ دیا ، کہنےلگے ڈیدی نے کہا جب صبح والک کے لیئے
نکلو تو شرٹ کی سامنے والی جیب میں دو دو کیلے ڈال لیا کرو ، جیب کا سائز
ہرگز بڑا نہیں ہونا چاہیئے تاکہ آدھے کیلے جیب کے باہر جھانکتے نظرآنے
چاہیئے تاکہ شوگر چیک کرنے والی جماعت پہ ایک مضبوط تاثر چھوڑا جائے کہ
ہمارا شوگر سے دو تلک کوئی واسطہ نہیں،سو ہم نے میجر جنرل انجنیئرنگ کور کے
مشورے پہ عمل کیا اور اگلی صبح ہم سامنے والی جیب میں دودو کیلے ڈالے
فاتحانہ انداز سے والک کے لیئے نکلے تو گلی میں میں موجود پہلی ٹیبل سے ایک
خاتون جس کے چہرے کے تاثرات سے ہی لگتا تھا وہ سولین سپرمیسی پہ بلا کا
یقین رکھتی ہے انتہائی احترام سے کھڑی ہوگئی،
ہمیں اپنی دفاعی حکمتِ عملی پہ رشک آنے لگا کمال الدین صاحب کے والد کے
لیئے دعائیں نکلنے ہی لگیں تھیں کہ خاتون کی آواز بلند ہوئی اور فرمایا جس
منحوس نے تمہیں جیب میں کیلے رکھنا کا مشورہ دیا ہے اس خبیث نے تمہیں یہ
نہیں بتایا کہ کیلے کھانے سے شوگر مزید بڑھ جاتی، بس یہ سننا تھا کہ کمال
الدین صاحب کے اوسان خطا ہوگئے کمال الدین صاحب اپنے والد کی طرح انتہائی
حساس طبیعت کے مالک تھے ان پہ یہ الفاظ بجلی بنکے گرے، انکی حالت یہ ہوگئی
کہ جیسے جسم میں خون نہیں اس سے پہلے کہ وہ لڑکھڑاتے میں نے انہیں سہارا
دیا اور واپس چائے کی دکان میں لے گیا۔ ان پہ گہرا سکوت طاری تھا میں نے
عرض کیا کمال الدین صاحب کچھ بولیئے آپکی خاموشی جان لیوا بھی ہوسکتی ہے ۔
اچانک انکی آنکھیں بھیگیں اور قطرے گرنے لگے ہچکیوں کے درمیان فرمایا ملک
صاحب مجھے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں کلی پہ ٹنگے ابا جی کے تمغے بہت شدت
یاد آرہے ہیں میں نے دکان سے منرل واٹر کی بوتل لی اور انہیں پکڑادی انہوں
نے ایک ہی سانس میں بوتل ختم کرتے ہوئے ساغر صدیقی کا شعر پڑھا
ابا تو خیر فوجی تھے ان سے گلہ ہی کیا
سولین کی واردات سے میں گھبرا کے پی گیا
|