مہنگی بجلی کے بل ٹیکسز کا گورکھ دھندہ

آج کل آپ کسی بھی اخباریا ٹی وی چینل کو دیکھ لیں آپ کو عوام اپنے مسائل کا رونا روتے نظر آئیں گے جن میں مہنگائی سر فہرست ہے اشیائے خوردنی ہوں ادویات ہوں ۔پٹڑول ،بجلی یا گیس ہو ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں سن کر آدمی کے ہوش اُڑ جاتے ہیں مہنگائی نے غریب آدمی کی چیخیں نکال دیں ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ حکومت کو عوام کی چیخ وپکار سنائی نہیں دیتی ہیں ریڑھی والے سے لے کر ایک عام دوکان سے سپر سٹورپر ہر آدمی نے چیزوں کے اپنے من مانے ریٹ مقرر کرکھے ہیں کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا یا کم کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ورنہ اگر حکومت چاہے تو نہ صرف قیمتوں پر ایک دن میں قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ مہنگائی بھی کم کی جا سکتی ہے غیرممالک میں رہنے والے پاکستانی دوستوں سے جب مہنگائی کے بارے میں بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ غیرممالک میں پاکستان کی طرح مہنگائی نہیں بڑھتی خاص طور پر اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ کی شرح بہت ہی کم تو دوسرے وہاں قیمتیں ہر جگہ یکساں ہیں یہ نہیں کہ پاکستان کی طرح ایک ہی بازار میں ایک چیز کے مختلف ریٹ ہوں ہمارے ہاں ہر دوکان پراپنے اپنے ریٹ مقرر ہیں بازار میں جو کولڈ ڈرنک آپ کو پچاس روپے میں ملے گا کسی دوسری دوکان یا ویگن سٹینڈ پر وہ دس روپے مہنگا ہوگا اور کولٹی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی مارکیٹ کمیٹیاں۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور متعلقہ ادارے کوئی کاروائی نہیں کرتے اور موجودہ حکومت خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو ملک میں بے مہار مہنگائی کی فکر ہے نہ کوئی پرواہ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے ملک میں بے لگام مہنگائی کی ذمہ دار حکومت ہے اگر وہ چاہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مہنگائی کم نہ ہو اس کی بہت زیادہ مثالیں ہیں کہ حکومت مہنگائی کی سوفیصد ذمہ دارہے کیونکہ حکومت کے ادارے خود مہنگائی کرتے ہیں واپڈا حکومت کا ایک خودمختار ہے جس نے بجلی کی تقسیم اور بلوں کی وصولی کے لیے ذیلی ادارے لیسکو،میپکو،گیپکو،کے الیکٹرک قائم کرکھے ہیں جو بجلی کے صارفین سے بجلی کے بل وصول کرتے ہیں لیکن ان بلوں میں بیشمار قسم کے ناجائز ٹیکسز شامل کررکھے ہیں جس کی وجہ سے بجلی ایک معمولی صارف جو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرتا ہے اسے بھی بجلی کے بل میں مختلف طرح کے ٹیکسز کی مد میں سینکڑوں روپے جمع کرانا پڑتا ہیں مثال کے طور پر بجلی کے 1280 روپے کے اصل بل میں 1010روپے کے مختلف طرح کے ٹیکسزاور چارجز شامل ہیں بجلی کے ایک بل میں مختلف محکموں جی ایس ٹی ٹیکس،انکم ٹیکس ،سیلز ٹیکس،ٹی وی فیس،میٹر رینٹ سروس رینٹ،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ۔ایف سی سرچارج،نیلم جہلم سرچارج وغیرہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بجلی کے ایک صارف کو ہر ماہ اپنے بل کے علاوہ سینکڑوں،ہزاروں روپے زائد دینا پڑتے ہیں جن کا واپڈا کے بل سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہوتا جیسے ٹی وی لائیسنس بلا تفریق سب سے وصول کرلی جاتی ہے چاہے کوئی کیبل استعمال کرتا ہے یا ڈش انٹینا سے چینلز دیکھتا ہے حالانکہ یہ فیس تو کیبل والوں یا چینلز سے وصول کرنا ہوتی ہیں بتایا جاتا ہے کہ مسجد کو آنے والے بل میں بھی ٹی وی فیس شامل ہوتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے حکومت اور اس کے ادارے غریب عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں وہ انھیں جسطرح چاہے ہانک رہے ہیں دوسری طرف بجلی چوری کرنے اور مفت استعمال کرنے والےء وزیروں،مشیروں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا یہ بااثر لوگ جو بجلی استعمال یا چوری کرتے ہیں ان کا بل بھی غریب عوام سے وصول کیا جاتا ہے ۔حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ رعایا کے لیے سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرے لیکن یہاں اس کے بالکل اُلٹ ہورہا ہے یہاں جو بھی حکمران آتا ہے وہ اپنے تمام اختیارات اور حکومتی مشینری کو عوام کا خون نچوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے تبدیلی حکومت کے وزیر اور مشیر دن رات ایک ہی کام کررہے ہیں کہ عوام پر کون کون سے نت نئے ٹیکس لگائے جائیں تاکہ ان کے شاہانہ اخراجات پورے ہوں ہر چیز پر ٹیکس پر لگادیناکہاں کا انصاف ہے وطن عزیز میں شائد سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے ٹیکسز کسی بھی ملک کی قومی معشیت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں لیکن ان ٹیکسز سے عوام کو سہولتیں پہنچانے کا کام لیا جاتا ہے نہ کہ حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات پورے کیے جاتے ہیں عوام دہائیاں دے رہے ہیں کہ انھیں مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائی جائے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی آئے روز قوم کو مہنگائی کے نئے نئے تحفے دے رہے ہیں مہنگائی کم کرنے کے لیے حکمران اپنے اخراجات کم کرنے کی بجائے سابقہ حکمرانوں کی تقلید کرتے ہوئے وزیروں اور مشیروں کی فوج بڑھاتے جارہے ہیں یہ صورتحال غریب آدمی کا جینا محال کررہی ہے بجلی،پٹرول،گیس،ٹیلی فون کے بلوں میں طرح طرح کے ٹیکسز ہوتے ہیں جنھیں آدمی دیکھ کر چکرا جاتا ہے جن میں بل کم اور ٹیکسززیادہ ہوتے ہیں۔موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اپنے وعدوں اور نعروں کو یاد کریں جو الیکشن سے پہلے انھوں نے عوام سے کیے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر مہنگائی کا خاتمہ کریں گے پی ٹی آئی کو برسراقتدار میں آئے ایک سال سے زیادہ ہوچکا ہے لیکن اس نے کسی ایک چیز کی قیمت میں کمی نہیں کی عوام کو کسی بھی طرح کاکوئی ریلیف نہیں دیا گیابلکہ اس حکومت کے دور میں مہنگائی کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے مہنگائی ختم کرنے کے ا یجنڈے کو ختم کرکے غریبوں کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام شروع کردیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ اپنی حکومت کی کامیابی کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے کوئی لائحہ عمل بنائیں ورنہ عوام حکومت سے نجات کا کوئی لائحہ عمل بنانے پر مجبور ہونگے

 

Abdul Qayum
About the Author: Abdul Qayum Read More Articles by Abdul Qayum: 25 Articles with 22750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.