زندگی کی پاسباں:موت

انسان کی تخلیق بے شک خداوند قدوس کاایک بہت عظیم کارنامہ ہے پھراس تخلیق کوخالق نے اشرف المخلوقات کہہ کر اس کی عظمت کامعیاربھی مقررکر دیا،ساتھ ہی زمین آسمان، سورج، پانی ہوابلکہ ساری کائنات کی تخلیق کرکے انسانی زندگی کے تسلسل کاسامان ہی پیدا کردیابلکہ یہ حکم بھی صادرفرمادیاکہ کسی ایک انسان کاقتل ساری انسانیت کاقتل سمجھاجائے گاان واضح احکامات کے باوجودبہت سے فرعونوں،ظالم بادشاہوں،جمہوریت کانعرہ لگانے والی حکومتوں، فوجی اور سیاسی آمروں نے انسانیت کابے دریغ قتل کرکے اپنے ہاتھ انسانی خون سے رنگے۔پہلی جنگ عظیم میں انسانوں کا قتل،دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں انسانی جانوں کاضیاع،جاپان کے شہروں ہیروشیمااورناگاساکی پرامریکاکاایٹمی حملہ جس میں نہتے لوگوں کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں،ویت نام، کوریا ،بوسنیا،ایران عراق،فلسطین،عرب اسرائیل اورگلف کی لڑائیوں میں بے پناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔حالیہ دورمیں عراق اورافغانستان میں جوہورہاہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن کشمیر کی صورتحال سب سے زیادہ ابتراورنارواہے اوردن بدن ساری دنیاکے امن کیلئے ایک خطرناک دہماکہ خیزہوتی جارہی ہے کہ اس مسئلے کے تین فریقوں میں سے دوایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیاکی آزادی اب زندگی کے ہرپہلوپراثراندازہوناشروع ہوگئی ہے۔چندسال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اس قدرسرعت کے ساتھ کسی ملک میں ہونے والے کسی ظلم وجبریاہونیوالی برائی یاکوئی ایساخفیہ گوشہ آن کی آن میں ساری دنیاکے سامنے آجائے گااورمہذب معاشروں میں اس کاخاطرخواہ ردعمل بھی ہوگالیکن حیرت ہے ان افراد کی سوچ پر جوآج بھی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کوئی پرواہ کئے بغیراپنی اسی پرانی روش کوقائم رکھے ہوئے ہیں اور کشمیر کواپنااٹوٹ انگ کہتے ہوئے اپنے ظلم وستم میں اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ سرینگر اوردہلی کے درمیان صرف پچھلے بیس برسوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہداءکی قبروں کے سات سوقبرستانوں کاسمندرحائل ہوچکاہے اوربالخصوص گزرے ہوئے تین ماہ میں ایساکون سازخم اوردکھ ہے جومجبورومظلوم کشمیری عوام نے دہلی میں براجمان حکومتی جنتاکے ہاتھوں نہیں سہاہے۔کشمیریوں اوربھارتی حکومت کے درمیان بے یقینی اور نفرتوں کاسمندراس قدروسیع ہوچکاہے کہ اس کوپاٹنے کی ہرکوشش کاالٹانتیجہ نکل رہاہے۔

صرف سرینگرکے شہرخموشاں کی آبادی میں حالیہ دنوں میں اس قدرتیزی کے ساتھ اضافہ ہواہے کہ اب بھارتی استبدادکا شکارہونے والے نوجوانوں کی تدفین کا مسئلہ پیداہوگیا ہے۔یہ وہ شہداءکے قبرستان ہیں جن کے دروازے پرلگے ہوئے بینرکے الفاظ پرشہرخموشاں کی طرف سے وہ پہلی سلامی موصول ہوتی ہے کہ “ہمیں فراموش نہ کرنا،ہم نے آپ کے”کل”پراپناآج ” قربان کردیاہے ہرگزرنے والی کی آنکھوں کواشکبارکردیتے ہیں اورتیزچلے والے قدم کچھ دیر کیلئے اپنی تمام مصروفیات کوبھول کراپنے آنسوؤں کی سلامی کے ساتھ تجدیدعہدکے ساتھ حاضر ہوجاتے ہیں۔یہ ہے سینکڑوں قبرستانوں میں سے ایک قبرستان کانحیف ونزار، ادھیڑعمرعبدالحمیدگورکن جوبرسوں سے اپنے دل میں ڈھیروں داستانیں چھپائے اس شہرِ خموشاں کی دیکھ بھال کواپنے لئے ایک اعزازاور بخشش ونجات کا وسیلہ سمجھ کردن رات خدمت میں مصروف ہے۔عبدالحمیدکبھی کبھی اپنی نمناک آنکھوں کوبند کرکے1990ءسے لیکرآج تک ہونے والے بھارتی مظالم کویادکرتا ہے توبے اختیاراس کے منہ سے ایک ہوک سی نکل جاتی ہے کہ مسلسل کئی دن پندرہ سے زیادہ شہیدوں کوہرروزلحدمیں اتارنے کافریضہ سر انجام دیتارہاہے اور اب پچھلے چندماہ سے جن معصوم بچوں کی تدفین کاسلسلہ چل نکلاہے اس کودیکھ کراس کے اوسان خطاہوگئے ہیں۔

اب توان شہرخموشاں کے نگراں جلسے جلوسوں اورمظاہروں کودیکھ کر اندازہ لگالیتے ہیں کہ اس کے شہداء کی کتنی تعداد گھرواپس جانے کی بجائے اس شہر خموشاں کارخ کریں گے۔پچھلے دنوں جب فوج اورپولیس کے خلاف پتھرپھینکنے والے کم عمرلڑکے یامعصوم طلبہ میدان میں اترے تودوسری طرف سے بھارتی فوجیوں نے اندھادھندپیلٹ گن سے بھون دینے کاانسانیت سوز سلسلہ شروع کردیاتوگورکنوں نے شہداءکی لاشیں آنے سے پہلے ہی پچاس نئی قبریں تیارکرلیں جو کہ بعدمیں کم پڑ گئیں۔عبدالحمیدکہتاہے کہ”پہاڑوں سے اترتی موت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ مسلح درندوں کے مقابلے میں سنگبازنوجوان اپنی جانیں بے دریغ اندازمیں قربان کرنے کیلئے واضح طورپرنظرآرہے تھے جبکہ گولیاں چلانے والوں کے عزائم بھی کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ہمیں اندازہ ہوگیا تھاکہ موت تھوک کے حساب سے آئے گی،اسی لئے ہم نے پیش بندی کے طورپراپناکام جلدی جلدی مکمل کرناشروع کردیاتھا۔

تھوڑی دیرکیلئے عبدالحمیدخاموشی سے آسمان کوتکتارہا،وہ کچھ کہناچاہتاتھالیکن شائد اس کی زبان اس کاساتھ نہیں دے رہی تھی۔یکدم اس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسوؤں کے چشمے ابلنے لگے۔اس نے ایک قبرکی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ تین دن پہلے کی یہ تازہ قبرایک بارہ سالہ بچے کی ہے جواپنی شہادت سے ایک ہفتہ قبل ہرروزبلاناغہ ان شہداء کی قبروں پراپنی بہت ہی خوبصورت مترنم آوازمیں قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتا تھا۔چار دن پہلے اس نے مجھ سے سوال کیا”چچا!تم توبرسوں سے اس قبرستان میں موجودہواور ہزاروں شہداءکی قبروں کوکھودنے کی سعادت بھی تم کوحاصل ہے۔ کوئی ایک مثال ایسی توبتاؤجب تمہیں کسی کودفناتے ہوئے ہوئے سب سے زیادہ دکھ ہواہو؟
میں اس بچے کے سوال پرچونک گیااوراس کویہاں سب سے کم عمرشہیددوسالہ بچے ثاقب بشیرکی قبرپرلے گیا جسے اس کی ماں کے ساتھ بھارتی ظالم فوج نے فائرنگ کرکے تقریباًآٹھ سال پہلے شہیدکردیاتھا۔اس بارہ سالہ بچے نے پہلے ان دونوں قبروں پر پڑے ہوئے سوکھے پتوں کوایک طرف کیااوراس کے بعد بہت ہی دردناک آوازمیں اس قبرپر قرآن کی تلاوت کی اورسلام کرکے رخصت ہونے لگاتواونچی آواز میں بولاکہ بابااگرمیں شہید ہوجاؤں تو مجھے بھی اس بچے کی بغل میں دفن کرنا۔میں نے اس کوکرفیوکی پاسداری کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے گھرلوٹ جانے کوکہا۔عبدالحمید کچھ دیرکیلئے پھرخاموش ہوگیا جیسے وہ اپنی قوتِ گویائی کواکٹھاکررہاہو۔

ہرشہیدکی میت دیکھ کرقدرتی طورپرصدمہ ہوتاہے لیکن یہ تومیرے گمان میں بھی نہ تھاکہ شہداءکی قبروں پرجس بچے نے چنددن پہلے جس سوزوگدازسے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی،تین دن کے بعدمجھے اسی بچے کودوسرے چھ بچوں سمیت اپنے ہاتھوں سے لحدمیں اتارناپڑے گا۔اس معصوم شہید کی میت دیکھ کر میرے دوسرے ساتھیوں کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کاسیلاب امڈ پڑا۔ہم نے اس شہید کوبھی اسی دوسالہ ثاقب بشیرکے ساتھ ہی دفن کردیاجس کے جسدِخاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹاہواتھا۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس بچے نے دوماہ پہلے اپنی والدہ کو یہ وصیت کی تھی کہ میں جب شہید ہوجاؤں تو مجھے پاکستانی پرچم میں دفن کرنااورمیراجنازہ سیدعلی گیلانی پڑھائیں۔ سید علی گیلانی کوتوبھارتی درندوں نےپچھلے نوسال سے غحرمیں نظربندکر رکھا ہےاوربچے کاجنازہ پڑھانے کی اجازت نہ مل سکی لیکن میں نے تہیہ کررکھاہے کہ ہمیشہ اس بچے کی قبرکوسرخ گلاب کے پھولوں کی دبیزچادرمیں اپنے آنسوملاکرسجائے رکھوں گا”۔کیاایسی قوم کومزید غلام بناکررکھاجاسکتا ہے جوموت کواپنی زندگی قراردے چکی ہو،یقیناً ہرگزنہیں!
بستیوں کومری روندتاکون ہے
ان دنوں اس زمیں پرخداکون ہے
بے توازن سی ہے کیوں یہ دنیابہت
کون محورہے اب، دائرہ کون ہے
روزملتی ہے بس سانحوں کی خبر
کچھ کھلے تو، پس سا نحہ کون ہے
جبرکی سلطنت کی حدیں ہیں کہاں
اس حکومت کافرماں رواکون ہے
ہم کولازم ہے ا پنے کئے کی سزا
پریہ انجام سے ما وراکون ہے
روشنی بانٹنے کے بہا نے یہاں
آگ دہلیزپررکھ رہاکون ہے
جیسے میرایہ گھربھی ہواس کاہی گھر
میرے آنگن میں یوں گھومتاکون ہے
میری مرضی کے یہ فیصلے تونہیں
میرے سب فیصلے کررہاکون ہے
ہم تواپنے ہی مسکن میں ہارے ہوئے
شوق تسخیرمیں مبتلا کون ہے
ہم تواپنی ہی شاخوں پہ سہمے ہوئے
حد پروازسے آشنا کون ہے
ہم تواپنے ہی غاروں میں محودعأ
اورخلاؤں سے گزرا ہواکون ہے
ہم تواپنے ہی سورج سے ملتے نہیں
آسما نوں سے ملنے گیاکون ہے
ہم توکم فہم اورناسمجھ لوگ ہیں
اپنی عیاریوں میں سواکون ہیں
جب بدن کے ہی گھاؤ نہ دیکھے گئے
زخم روحوں کے پھردیکھتا کون ہے
میرے سچ پرکیاسب نے یہ تبصرہ
سچ توسچ ہے مگربولتاکون ہے
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.