عمران خان اور ان کے حواریوں کی خوشی دیدنی تھی ،جب ڈونلڈ
ٹرمپ سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔ملاقات معمول کے مطابق نہیں ہوئی ۔پریس
کانفرس عموماً ملاقات کے بعد کی جاتی ہے ،لیکن یہاں سپر پاور اور ایک ترقی
پزیر ملک کے سربراہان کی ملاقات میں سنجیدگی کا فقدان تھا،ملاقات کا ایجنڈا
افغانستان تھا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کی ثالثی کی بات کر ڈالی،اس بات
پر عمران خان اور ان کے وفد کو مزہ آیا۔ بہر حال ہمارے وزیر اعظم کے لئے وہ
ایک ورلڈ کپ جیتنا ٹھہرا۔اب دوبارہ یار سے ملاقات ہوئی ۔اس بار بھی ٹرمپ نے
ثالثی کی پیشکش کر ڈالی ،لیکن کشمیریوں کی اسیری کے باون روز کا کوئی ذکر
تک نہیں کیا گیا۔جہاں بچوں کو دودھ نہیں مل رہا،بیماروں کو ڈاکٹر اور
ادویات میسر نہیں ہیں ۔غذائی اشیا کی قلت ہے ،رابطے منقتہ ہیں ،ہزاروں
گرفتار ہیں ۔یہ کیسا ثالث ہے کہ وہ بے بس کشمیریوں کے ساتھ انسان سوز
واقعات کا ذکر تک نہیں کرتااور یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہے کہ سب سے برابری
کرنی چاہیے ۔دوسری جانب دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد نریندرا مودی کو بغل
میں لے کر اسلامی دہشت گردی کو ختم کرنے کا عزم کرتا ہے ۔ٹرمپ اور مودی
دونوں تصدیق شدہ دہشت گرد ہیں ۔یہ وہی مودی ہے جس پر امریکہ داخلے پر
پابندی لگائی گئی تھی ۔کیونکہ وہ ایک قصاب تھا۔آج بھی اس کی روش نہیں بدلی
۔یہ اس ملک کا وزیر اعظم ہے جنہوں نے تیس سال میں ایک لاکھ کشمیریوں کو
شہید کیا ہے ۔گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل کرنے والا امن پسند ہے ۔ٹرمپ
وہ ثالث ہے جو مسلمان کو دہشت گرد کہتا ہے اور مسلم نسل کشی کے حق میں ہے ۔اسی
لئے ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ فوجی مشقوں کا اعلان کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ
بھی مذہب کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا قائل ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان دے دینا کافی نہیں کہ امریکہ کی پہلی حکومتوں نے
پاکستان کے ساتھ ناروا سلوک رکھا ہے ۔کیا ڈونلڈ ٹرمپ نہیں جانتے کہ افغان
جنگ میں مجاہدین امریکہ نے ہی بنائے اور روس کی شکست کے بعد امریکہ انہی
مجاہدین کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر بھاگ گیاتھا۔پھر امریکہ ہی نے مجاہدین
کو دہشت گرد قرار دے دیا،اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح متعارف کروائی ۔دنیا
میں کسے خبر نہیں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر لڑا ۔72ہزار
جانیں اور کھربوں ڈالر کا نقصان کروایا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پاس سب
کچھ ہوتے ہوئے معاشی بحران کی بد ترین سطح پر پہنچ گیا ہے ۔لیکن اس ثالث نے
ہمارے لئے تجارتی منڈیاں نہیں کھولیں جبکہ بھارت کے لئے سرمایہ کاری اور
تجارت کی مثالیں قائم کر دی گئیں ۔امریکہ نے دنیاکو باخوبی باور کروا دیا
ہے کہ اسرائیل اور بھارت اس کے پاٹنر ہیں ۔جو ان تینوں میں سے ایک کا دوست
وہ سب کا دوست اور جو ان تینوں میں سے ایک کا دشمن، وہ سب کا دشمن ہو
گا۔پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جمہوری قیادت اور مقتدر طاقتور لوگوں
کے مفادات کا کھیل ہمیشہ رہا ہے ،اس سے ہماری خارجہ پالیسی مشکوک رہی ہے ۔ہمارے
لیڈروں نے اپنے مفادات کے کھیل میں دوست اور دشمنوں میں فرق رکھنے نہیں دیا۔
اگر ہم آج کی بات کر لیں ۔مودی اور عمران خان میں واضح فرق ہے ۔مودی پڑھا
لکھا نہیں ہے ،دہلی یونیورسٹی نے اس کی ڈگری جعلی قرار دے دی ہے ۔یہ ایک
مڈل پاس شخص ہے ،لیکن مودی ایک کمال آدمی تو ہے ۔یہ گلابی ہی سہی گھنٹوں
انگریزی بولتا ہے ۔ہندی اور گجراتی پر پورا عبور ہے،عربی سمجھتا ہے ۔تعلیم
نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن سیاست میں اتنی ترقی کی کہ دنیا کے سب سے بڑے
جمہوری ملک کا سربراہ بن گیا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے
اعزازات سے نوازا ہے بلکہ اس کی وجہ سے دوبئی میں مندر تک بنا دیئے گئے
جہاں شیخ تھالی لے کر پوجا میں شریک ہوتے رہے ہیں ۔اس نے تمام ممالک کو
یقین دلوایا ہے ۔دنیا میں بھارت ایک ایسا ملک ہے جو ان کے لئے معاشی اعتبار
سے مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔بھارت کے معاشی ترقی میں سابق وزیر اعظم منموہن
سنگھ کے معاشی پلان کا بڑا عمل دخل ہے ۔جس کو مودی نے بھی تسلسل سے اپنائے
رکھا۔دنیا کو پتہ ہے کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے۔یہاں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل
اکانومی میں سرمایہ کاری فائدہ مند ہے ۔
مودی ڈونلڈ ٹرمپ سے برابری کی بنیاد پر دوستی کرتا ہے ۔ان کے مفادات بڑے
لیول ،یکساں اور پائیدار بنیادوں پر ہیں۔اس کے برعکس ہم کہاں کھڑے ہیں ۔اس
حقیقت کو سامنے اور کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے ۔پاکستان کے وزیر اعظم
امریکن صدر سے کہتے ہیں،کیونکہ امریکہ طاقت ور ترین ملک ہے اور ٹرمپ دنیا
کے طاقت ور ترین صدر ہیں ،وہ اقوام متحدہ میں ہماری مدد کریں ۔ہم بھارت سے
بات کرنا چاہتے ہیں ،بدقسمتی سے وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔آپ ہماری مدد
کریں اورکیونکہ ہم پُرامن لوگ ہیں ،جنگ لڑنا نہیں چاہتے ۔بات چیت کے دروازے
کسی طرح کھل جائیں۔یہی فرق ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ ثالث کبھی بھی
ہمارا دوست نہیں رہا ہے ۔امریکہ کے یہی ڈرامے کئی بار ہو چکے ہیں ،اس نے
پاکستان کو ہمیشہ بیچ منجدھار میں چھوڑکر پیٹھ دکھائی ہے ۔
اب عوام میں حکومت نے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان جنرل
اسمبلی میں ایسی تقریر کریں گے جس سے دنیا دہل جائے گی اور مقبوضہ کشمیر
میں80لاکھ کشمیریوں کی اذیت کا ازالہ نہیں تو کوئی صورتیں نکلیں گی،لیکن
حکومت جانے کیوں بار بار عوام کو بے پائے کی چھوڑ کر بیوقوف بناتی ہے ۔شاید
عمران خان ،ان کے مشیران اور لانے والوں کو عوام کو بیوقوف بنانے میں کوئی
خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔حالانکہ عوام کو یاد ہو گا کہ جنرل اسمبلی میں کئی
دہائیوں سے دھواں دھار تقاریر ہوتی رہی ہیں ۔سوویت یونین کی سرد جنگ میں
خروشچیف نے بینچ پر اپناجوتا رکھ کر تقریر کی تھی۔یاسر عرفات کی جنرل
اسمبلی کی تاریخی تقریر کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے ،مگر فلسطین آج بھی آزاد
نہیں ہوا۔جنوبی افریقہ کے نسل پرستوں نے جنرل اسمبلی میں تقاریر کیں لیکن
حقیقی باسیوں نے دہائیوں انہیں اپنا غلام بنائے رکھا۔شام اور یمن جنگ کے
ہاتھوں تباہ حالی رکی نہیں ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نریندرا مودی اور عمران خان کی جارحانہ
تقریر سے کچھ تبدیلی واقع نہیں ہونی ہے ۔تبدیلی ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی
نریندرا مودی کے ساتھ بغل گیر ہو کر بتا دی ہے ۔نریندرا مودی اپنی تقریر
میں کشمیر کا کوئی ذکر ہی نہیں کرے گا اور عمران خان اپنی تقریر کو یاد گار
بنانے کے لئے پوری کوشش کریں گے ،لیکن وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے مظلوم
کشمیریوں کے لئے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے ۔یہ عوام کو سمجھنا چاہیے
۔امریکہ پاکستان کو صرف پیچھے لگانے کے لئے ثالثی کا شوشہ چھوڑتا ہے ۔اسے
پاکستان کی افغانستان اور ایران میں ضرورت پڑتی ہے ۔اپنے مفادات حاصل کرنے
کے لئے صرف کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔
پاکستان کے پاس بھارت کو مؤثر جواب دینے کے دو راستے ہیں ،ایک پارلیمنٹ کا
پلیٹ فارم اور دوسرا جہاد ہے ۔ہم جمہوری ملک ہیں،ہم کیوں نہیں پارلیمنٹ کو
مضبوط کر سکتے ۔ہمارا درینہ دشمن بھارت جس کی سب سے بڑی طاقت پارلیمان ہے
۔تمام تر بڑے فیصلے پارلیمان سے کئے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے دنیا میں اس کی
اہمیت ہوتی ہے ۔بھارت میں ہماری پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ ’’چور،ڈاکو‘‘موجود
ہیں ،درجنوں کے خلاف سنگین مقدمات ہیں ۔لیکن پھر بھی پارلیمنٹ کا اجتماعی
احترام پایا جاتا ہے ،لیکن مودی دنیا میں اندرونی معاملات پر کوئی رونا
نہیں روتا دکھائی دیتا۔اتنی بڑی کرپشن کے باوجود ان کی تمام تر توجہ اپنی
معاشی بہتری کی جانب ہے ۔اگر ہمیں دشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو جمہوریت کو
صحت مند اور توانا کرنا ہو گا،اس کے لئے اپنے اندر پارلیمنٹ کا احترام پیدا
کیا جائے ۔جو فیصلہ پارلیمنٹ سے مشترکہ جائے گا۔اس فیصلے اور مسئلہ کو دنیا
بھی سنجیدگی سے لے گی ۔اگر حکمرانوں میں ایسا کرنے کی ہمت اور اہلیت ہے تو
اقتدار میں رہیں ،ورنہ ملک اور عوام کی جان چھوڑ دیں ۔یہی حکمرانوں اور ملک
و قوم کے لئے بہتر ہے ۔
|