وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ
سےاہم ملاقات میں پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو
مقبوضہ کشمیر میںکرفیو اٹھانے کا کہیں،وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے
کہا کہ لگتا ہے بحران مزید بڑھ سکتا ہے، بد قسمتی سے بھارت بات کرنے کو
تیار نہیں، صورتحال بحران کی ابتدا ہے، امریکی صدر نے یقین دہانی کرائی کہ
میں کشمیر سے کرفیو اٹھانے کیلئے مودی سے بات کروں گا۔دوسری طرف وزیر اعظم
نے ترکی ،ایرانی صدور سے بھی اہم ملاقاتیں کیں اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی
تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے وہاں انسانی المیے بارے آگاہ کیااور
نیویارک میں امریکی تھنک ٹینک فارن ریلیشنز کونسل میں کھل کر پاکستان کا
مسئلہ کشمیر و افغانستان پر پاکستان کا موقف پیش کیا اور پاکستان کو داخلی
طور پر لاحق مشکلات اور معاشی مسائل بارے بھی آگاہ کیا۔
امریکی صدر متعدد بار پاک بھارت قیادت کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش
کرچکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو لیکن دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ
بھارت مسئلہ کشمیر پر نہ تو ثالثی چاہتا ہے نہ ہی وہ اس دیرینہ مسئلے کو
اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر آمادہ ہے
بلکہ وہ سارے کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے پاکستان کو آزادکشمیر سے بھی جنگ
و جارحیت کے زریعے محروم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔
ان حالات میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بات اب پاک، بھارت مذاکرات ، مقبوضہ
کشمیر سے52 روز سے مسلسل نافذکرفیو کے خاتمے کو ہی ناگزیر قراردینے سے بہت
آگے جاچکی ہے۔ اگر بھارت کرفیو ہٹابھی دیتا ہے تو بھی نہتے کشمیری بھارتی
ظلم کا شکار رہیں گے کیونکہ ان کا ساڑھے آٹھ نو لاکھ جارح بھارتی فوج سے
مقابلہ ہے اور بغیر ہتھیاروں کے کوئی بھی جنگ نہیں جیتی جاسکتی ۔عوام
مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی امنگوں اور کشمیریوں کی آرزوئوں کی ترجمانی
کرتے ہوئے وزیر اعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں دوٹوک
الفاظ میں عالمی رہنمائوں کو بتانا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے
انسانی المیے کی ذمہ دار داری دنیا ہوگی کیونکہ اب بھی عالمی رہنما اور
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور ممالک ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں ۔
محض قراردادیوں اورمذمتی بیانات سے مقبوضہ کشمیر میں عالمی دہشت گرد،ہٹلر
کےجانشین ،انسانیت دشمن اور سفاک درندے نریندر مودی کی بھیجی گئی قابض فوج
کی کولیوں کی بوچھاڑ سے نہتے لوگوں کی جانیں نہیں بچائی جاسکیں گی ۔ جیسا
کہ پاکستان کے آرمی چیف نے بھی کہا ہے کہ آخری گولی اور آخری جوان تک
پاکستان کشمیریوںکے لیے لڑے گا ۔ دیکھا جائے تواب اہل پاکستان اور کشمیر کے
صبیر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔پاکستان کی حکومت اگرچاہے بھی تو عوام کو
مظلوم کشمیری بھائیوںکی عملی مدد کے لیے سیز فائر لائن کے اس پار جانے سے
نہیں روک سکے گی ۔
اب پاکستان کے پاس آخری آپشن بھارتی استبداد اور ظلم کا بزور قوت خاتمےکا
ہی رہ گیا ہے ۔پاکستان کی حکومت ،فوج اور عوام ایک پیج پر ہیں ،دونوں ایٹمی
قوت کے حامل ممالک میں ٹکرائو ہوا تو اس کی تپش واشنگٹن تک جائے گی ۔کیا اب
بھی دنیاعالمی سطح کے ایک بڑے سانحے اور تباہی کا تماشہ دیکھنے کی منتظر ہے
؟ انسانیت دشمن مودی کے جارحانہ اور ظالمانہ اقدمات پر دنیا بھربالخصوص
اسلامی امہ کی خاموشی اور بے اعتنائی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔وزیراعظم نے
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اجاگر کرنے پر تنظیم کے کردار
کو سراہا اورایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل کومی نائیڈو نے وزیراعظم
عمران خان کو تنظیموں کی عوام تک رسائی میں رکاوٹوں سے آگاہ کیا جبکہ
وزیراعظم نے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کاوشوں سے دنیا کو کشمیری عوام کی
مشکلات کا علم ہوا، کشمیر پر اقوام متحدہ کی رپورٹس نے کشمیری عوام کے
پیغام کی مضبوط بنیاد رکھی۔
وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیرکی بگڑتی صورتحال پراظہارتشویش کرتے ہوئے کہا کہ
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی لاک ڈاؤن سے انسانی بحران جنم لے چکا، بھارتی
اقدامات خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں، امریکا مسئلہ کشمیرکے حل میں مثبت
کردارادا کرسکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کشمیریوں
کا کیس دلائل کی قوت کے ساتھ زمینی حقائق کی روشنی میں اقوام عالم اور اہم
شخصیات کے سامنے پیش کررہے ہیں ،تاہم بھا رتی ہٹلر نریندر مودی کی طرف سے
امریکی صدر کی ستائش کے لیے چلائی جانے والی مہم کے سلسلے میں ہونے والے
جلسے میں ٹرمپ ،مودی دو دہشت گردوں کا جو گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے اس کے پیش
نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کےامن کے لیے خطرہ بننے والے یہ دونوں رہنما
نائن الیون کے بعد سے دنیا بھر میں دہشت گردی کے ایجنڈے کی تکمیل میں اپنا
مکروہ کردار ادا کررہے ہیں اور انسانی جان کی ان کے نزدیک کوئی قدر وقیمت
نہیں ہے بلکہ ان کے اقدامات اور جارحانہ رویہ اس کی کھلی دلیل ہے ۔ شرمناک
حد تک دونوں رہنما مسلم دشمنی میں آگے چلے گئے ہیں اور جس انداز میں مودی
اور ٹرمپ نے اسلامی دہشت گردی کا مسلمانوں پر لیبل لگاکر ان سے مشترکہ طور
پر لڑنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے اس سے انکی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے
آئی ہے۔
یہ کس قدر کھلا تضاد ہے کہ اگر بھارتی وزیر اعظإ نریندرا مودی کی جماعت آر
ایس ایس دہشت گردی کرے کوئی نہیں کہتا ہندو مذہب کی دہشت گردی، یہودی دنیا
میں سکون برباد کریں کوئی یہودیوں کو دہشت گرد نہیں کہتا ،ٹرمپ عیسائی ہو
کر افغانستان میں معصوم لوگوں کو مارے کوئی نہیں کہتا، مسیحی دہشت گرد پر
مسلمان کچھ کرے تو اسلام کیسے دہشت گرد؟دنیا بھر میں بھارتی ہندو توا کے
پرچارک کھلے عام مسلمانوں کو تہہ تیغ کررہے ہیں ،اسرائیلی بھی فلسطینی
مسلمانوں کا ناحق خون بہا رہے ہیں ،عراق ،شام ،مصر لیبیا ،فلسطین ،کشمیر ،
افغانستان اوربرما سمیت ہر جگہ مسلمانوںکو دہشت گردی اور انتہا پسندوں کا
شکار بنایا جارہا ہےجبکہ مظلوم مسلمان ہی انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے
جارہے ہیں ۔
ٹرمپ ،مودی گٹھ جوڑ سامنے آنے کے بعد ہمارے تمام مسلم بالخصو ص عرب ممالک
کی قیادتوں کو اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں ۔ پاکستان کے ملک کی سلامتی
کے امور کےضامن اہم ادارے بھی مستقبل کے چیلنجز سے منٹنے کی پالیسی اپنائیں
اور سفارتی و عالمی سطح پر ہماری قیادت کو از سر نو اپنی پالیسیاں تشکیل
دینا ہونگی ۔پاکستان کو سخت موقف اپنانا ہوگا اور معواملہ اب عالمی برادری
سے اپیلیں کرنے سے آگے جاچکا ہے ۔بھارت کے زیرقبضہ کشمیر میں مسلمانوں کی
اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 28 اور لداخ میں
44 فیصد ہیں۔ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کاتناسب لگ بھگ70فیصد
ہے۔2011میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی
آبادی85لاکھ66ہزارسے زیادہ تھی جبکہ22میں سے17اضلاع میں مسلمانوں کوواضح
اکثریت حاصل ہے اورصرف جموں کے4اضلاع اورلیہہ میں ہندوؤں اوربودھوں
کواکثریت حاصل ہے،لیکن فی الوقت پچاسی لاکھ مسلمانوں کا بھارت کی ساڑھے
آٹھ لاکھ سے زائد قابض مسلح افواج نے محاصرہ کررکھا ہے لیکن گزشتہ تین
دہائیوں سے جاری کشیدگی میں پچاس ہزار سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔اب
کرفیو کے نفاذ کو 52 دن ہوچکے ہیں لوگوں کو خوراک ،ادویات کی قلت کا سامنا
ہے نوجوانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ۔ان حالات میںپاکستانی قیادت کو چاہئے
کہ وہ ترکی ،ایران ،چین اور بھارت کے سواخطےکے دوسرے پڑوسی ممالک کے ساتھ
مل کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرے اور ایک نیا علاقائی بلاک تشکیل دے کوجو
اپنے مسائل کے حل کے لیے مشرکہ ایجنڈے پر عملدرآمد کرسکے اور دوسروں پر
انحصار کی بجائےاپنی قوت سےآگے بڑھاجاسکے۔اسی طرح عالمی جارح اور امن دشمن
قوتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔
|