مسئلہ کشمیر پرسیاست نہ چمکا۔۔۔خدا سے ڈر

قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے ہندو لیڈر شپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اورمسلمانوں کو اس بات پر اکٹھا کیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ ۔اُس وقت ہندوؤں کی سیاسی لیڈرشپ نے انگریزوں کے ساتھ مل کر قائد اعظم محمد علی جناح او ر مسلمانوں کے تمام عزائم کو خاک میں ملانے کی کمر توڑ کوششیں کیں ۔لیکن قائد اعظم ہندوؤں اور انگریزوں کی مکاریوں کو سمجھتے تھے مسلمانوں کی سیاسی لیڈر شپ جوش کے ساتھ ساتھ ہوش سے بھی کام لیتی تھی ۔

اگر کوئی مفاد حاصل کرنا ہوتا تو وہ سب پر لاگو ہوتا تھا یہ نہیں تھا کہ قائد اعظم نے تحریک شروع کی اور وہ تحریک ان کی ذاتی فیملی اور ذات کو فائد ہ دے گی۔مشکلات اُس وقت بھی بہت زیادہ تھی اُس وقت آپ آزاد ملک میں نہیں رہتے تھے بلکہ ایسے ماحول میں رہتے تھے جہاں آپ کو اپنی جان اور مال دونوں کا خطرہ ہوتا تھا ۔خطروں کے سائے میں رہنا اور خطروں سے کھیل کر اپنے اور اپنے بچوں کیلئے آزادی حاصل کرنا یقینا بہت بڑا معرکہ اور اعزاز کی بات تھی ۔

تقسیم ہند سے ہی انڈیا یہ کہتا پھرتا کہ کشمیر ہمارا ہے جبکہ کشمیری ہمیشہ پاکستان کے حق میں آواز بلند کرتے اور انڈیا کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا۔اعداد وشمار کے مطابق کشمیر کا 55%زمینی رقبہ اور 70%آبادی انڈیا کے جابرانہ اور ظالمانہ کنٹرول میں ہے جبکہ پاکستان کے کنٹرول میں 30%زمینی رقبہ ہے ۔بھارت جموں ،وادی کشمیر،لداخ اور سیاچن گلیشیئر کے مقامات پر قبضہ کیئے ہوئے ہے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں ۔گلگت بلتستان پاکستان کی آزادی کے وقت کشمیر کے زیر نگیں تھا۔1948میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔

مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر میں رہنے والے لوگ مسلسل زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں جدید دور میں جب ہر ترقی یافتہ ملک میں جمہوریت کے راگ الاپے جاتے ہیں لیکن عالمی فورم پر کیوں کشمیر کے مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ،کیوں منافقانہ رویہ اپنائے جاتے ہیں ۔مسلم ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر نہ ہونا اور بھارت سے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے پر زور نہ دینا بھی کشمیر یوں کو ان کے حق آزادی سے محروم کیے ہوئے ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی طرف سے پچھلے کئی سالوں سے کشمیر کی عوام کے لئے کوئی خاطر خواہ آواز نہیں اُٹھائی گئی تو بجا نہ ہوگا ۔کشمیر جلتا رہا اور پاور میں ہونے کے باوجود کسی سیاستدان نے سنجیدگی سے پیپر ورک تک نہیں کیاعملی ورک تو دور کی بات ہے ۔کشمیر کے لوگوں کو آزادی دلانے اور انکے مسائل انکی مرضی کے مطابق حل کرنے بارے پوری دنیا سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور اب یہ آوازیں کشمیر کو آزاد کر ا کے ہی دم لیں گی۔

ہمارے ملک میں یہ بھی المیہ ہے کہ نہ خود کام کرو نہ کسی دوسرے کو کرنے دو۔کیونکہ جس انسان نے ساری زندگی کوئی کام نہ کیا ہو اور کسی مسئلہ کو مسئلہ ہی نہ سمجھا ہو جب اُسے کسی کام کوکرنے بارے کہا جائے گا تو مجال ہے وہ کام کرے ۔وہ انسان طرح طرح کی باتیں کرے گا جو اُسے کام کہہ رہا ہے اُسے ہی گالیاں دے گا اُس پر طرح طرح کے الزام لگانے شروع کر دے گا جیسا کہ ہماری موجودہ سیاست میں ہو رہا ہے ۔کشمیر کا مسئلہ انتہاہی حسا س مسئلہ ہے کشمیری بھائی ہمارے بھائی ہیں لیکن افسوس ہمارے ملک میں ذات پسند سیاستدان اس مسئلہ پر بھی اپنی سیاست چمکارہے ہیں ۔

ان لوگوں کو ذرابھی حیا نہیں ہے کہ ہمارے مسلمان کشمیری بھائیوں کو سرعام قتل کیا جارہا ہے،ہماری مسلمان کشمیری بہنوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں ہماری کشمیری مائیں اپنے بچوں کے دودھ،دوائیوں کیلئے ترس رہی ہیں،تڑپ رہی ہیں۔ لیکن یہ لوگ کشمیر کے نام پر بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اگر ایک انسان کشمیر کیلئے آواز بلند کر رہا ہے توبجائے اُس کی آواز بند کرنے کے اُس کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملانی چاہیئے ۔

ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے لاکھ اختلاف ہوں لیکن جب بات کشمیر کی آتی ہے تو کوئی بھی پارٹی ہو اُسے منافقانہ رویہ نہیں اپنا نا چاہیئے بلکہ کشمیرسے متعلق کسی بھی فیصلے کی بھر پور حمایت کرنی چاہیئے اور موجودہ حکومت کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھنا چاہیئے ۔اس وقت پورے ملک پاکستان میں جگہ جگہ کشمیر کے حق میں اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہر محب وطن پاکستانی باہر نکلا ہوا ہے پاکستان کے ہر شہر میں کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے ریلیاں اور جلوس نکالے جارہے ہیں پاکستان سے باہر بھی دیگر ممالک میں مسلمان نکل آئے ہیں اور بھارت کے کالے کرتوت دنیا کے سامنے عیاں ہورہے ہیں ۔

کہتے ہیں جب لوہا گرم ہوجاتا ہے تو اُس پر چوٹ لگانے سے اُس سے فائدہ حاصل ہوتاہے۔ اس وقت لوہا گرم ہوچکا ہے صرف اس سے فائدہ اٹھانا باقی ہے ۔عمران خا ن کیلئے یہ بہت بڑا امتحان ہے الیکشن میں کامیابی کے بعد سے ہی پاکستان تحریک انصاف مختلف مسائل سے دوچار چلی آرہی ہے ۔پی ٹی آئی کے سپورٹر ہی پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی سے نالاں نظر آتے ہیں ۔گرتی معیشت،روپے کی قدر میں کمی،بے روزگاری ،مہنگائی جیسے بڑے بڑے مسائل عمران خان کے سامنے ہیں ۔ایسے حالات کے باوجود عمران خان نے حکومت بھی سنبھالنی ہے اور کشمیر یوں کے حق کی خاطردشمن کی مکاریوں کو سمجھتے ہوئے بڑے بڑے مگر مچھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرنی ہے ۔اور یہ ہی وہ وقت ہے جب عمران خان کو نظر آئے گا کہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے والے کون ہیں ؟؟ امریکہ اورمودی کے یار کون ہیں؟؟

کشمیر سے متعلق کسی بھی قسم کی تحریک کو کامیاب کرناایک عام شہری سے لیکر بڑے سے بڑے سیاستدان کی ذمہ داری ہے ۔کیونکہ کوئی کسی بھی پارٹی سے ہو کشمیر کیلئے سب کا ذہن ایک ہونا چاہیئے کیونکہ ایک ذہن ہوگا تو منزل بھی ایک ہوگی اور جب منزل بھی ایک ہوگی تو اُس کو پانے کیلئے کوششیں بھی تیز تر ہوجائیں گی ۔اس لئے وہ سیاستدان جو کشمیر کے حوالے سے لوگوں کی ذہن تبدیل کر رہے ہیں اور ملک میں افراتفری پھیلا رہے ہیں اُنہیں خدا کا خوف کرنا چاہیئے۔اﷲ پاک ایسے ذہن رکھنے والے سیاستدانوں کو ہدایت کی توفیق دے ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Salman Ahmed Ansari
About the Author: Salman Ahmed Ansari Read More Articles by Salman Ahmed Ansari: 23 Articles with 22514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.