تم مجھے بتاتے ہو کہ مسجد سے جوتے اٹھا لئے جاتے ہیں اب
تو اللہ کا گھر بھی محفوظ نہیں لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ اس مسجد کی تعمیر
میں کتنے پاکستانیوں نے اپنی محدود اور لامحدود آمدنی سے چند سکے جوڑ کر یا
لاکھوں کے چیکس کی صورت میں حصہ ڈالا ہے تم یہ نہیں بتاتے کہ وہاں لوگوں کے
سکون کی خاطر بجلی کا بل کوئی بھر رہا ہے وہاں پنکھے ہیٹرز اور اے سی سسٹم
کے لئے کچھ لوگ خاموش رہ کر مسلسل حصہ ڈالتے ہیں
تم مجھے بتاتے ہو کہ پاکستان میں پانی کے کولر سے گلاس باندھنا پڑتا ہے
کیونکہ یہاں کے لوگ بے ایمان ہیں لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ جس کولر کے ساتھ
یہ گلاس بندھا ہوا تھا وہ بھی کسی پاکستانی نے کبھی ایصال ثواب کے لئے اپنے
کسی عزیز کا نام لکھ کر یا ویسے ہی آخرت میں ثواب کے حصول کے لئے اس چلتی
راہ میں لگا دیا
تم یہ تو بتاتے ہو کہ زلزلے میں ملنے والی امداد چند لوگ کھا گئے لیکن یہ
نہیں بتاتے کہ لاکھوں لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے گھروں سے بالکل نئے بستر
نکال کر 2005 کے زلزلے کے بعد ٹرکوں کے ٹرک بھر کر مسائل زدہ بھائیوں کے
لئے بھجوا دئے تھے
تم یہ تو بتاتے ہو کہ کسی ناکے پر ایک پولیس والے نے کسی نوجوان کو گولی
مار دی لیکن تم بھول جاتے ہو کہ کتنے صفوت غیور ہماری ماوں نے اس دھرتی کے
اوپر وار دئیے
تم مجھے بل گیٹس کے فلاحی کاموں کی مثالیں دیتے ہو لیکن میرے ایدھی اور
چھیپا کو بھول جاتے ہو-
تم مجھے بتاتے ہو کہ کسی ایک جگہ ایکسیڈنٹ ہوا تو لوگوں نے زخمیوں کے بٹوے
تک نکال لئے لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ ان رخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والے
بھی اسی دھرتی کے باسی تھے یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حادثے کے بعد خون دینے کے
لئے سینکڑوں کی تعداد میں پہنچتے ہیں
تم مجھے بتاتے ہو کہ ایک مشرف اور یحیی خان تھا لیکن تم بھول جاتے ہوکہ ایک
میجرعزیز بھٹی تھا کوئی سوار محمد حسین تھا کوئی میجر طفیل تھا، لالک جان
بھی تھا
تم مجھے بتاتے ہوکہ ایک بنگلہ دیش بن گیا جس کے ڈاکٹر یونس کو گرامین بنک
پر نوبل انعام مل گیا لیکن تم میرے ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھول جاتے ہو
تم مجھے بتاتے ہو کہ میرے سکولوں کے اساتذہ گنوار اور جاہل ہیں بچوں پر ظلم
ڈھاتے ہیں لیکن تم میرے شجیع نصراللہ کی دریائے کنہار میں لگائی جانے والی
چھلانگ بھول جاتے ہو تم میری سمیعہ نورین کو بھول جاتے ہو جو خود جل گئی
لیکن بہت سے بچوں کو بچاگئی اور آرمی پبلک سکول کی طاہرہ قاضی کو بھی بھول
جاتے ہو
تم مجھے اپنی زہر انگیز گفتگو سے نشتر چبھوتے ہو کہ تعلیمی معیار کا بیڑہ
غرق ہوچکا مگر یہ نہیں بتاتے کے تم اور تمیاری جیسی سوچ رکھنے والوں
نےتعلیم کو کاروبار بنا کر اس نہج پر پہنچایا اور یہ بھی یاد رکھو کے قوم
کو جہالت کے اندھے کنویں میں دھکیلے جانے کے باوجود اسی قوم نے ڈاکٹر
عبدالقدیر، ڈاکٹر ادیب رضوی اور ارفع کریم جیسے انمول ہیرے پیدا کیے جن کی
دنیا میں نظیر نہیں۔
جب تم سیاسی مولوی کے روپ میں آتے ہو تو اور بھی بدبودار ہو جاتے ہو
کفر کے فتوے بانٹتے ہو
یہودیوں کا ایجنٹ، انگریزوں کا ایجنٹ جیسے نفرت انگیز الزامات لگاتے ہو۔۔۔۔
لیکن بس بہت ہوگیا اب یہ داوّ نہیں چلے گا یہ مکاریاں نہیں چلیں گی
اب تم ہی ہارو گے
کیونکہ علماء حق اب میدان میں آرہے ہیں وہی تمہاری مکاریوں کا پردہ چاک
کریں گے انشااللہ
تم اور تمھارے زرخرید دانشور ٹیلیوژن پر بیٹھ کر بتاتے رہتے ہیں کہ عمران
خان کی حکومت ناکام ترین حکومت ہے وہ وہ زہر اگلتے ہیں کہ معاذ اللہ مگر
میں اللہ سے مایوس نہیں جو charisma عمران خان کی شخصیت میں دیکھا جو سچائ
اس کے لہجے میں ہے جو ایمان اس میں نظر آیا تم اور تمہارے حواری اس سے
محروم ہیں۔۔۔۔۔
اور اور 27 ستمبر اقوام متحدہ میں خان کے خطاب کے بعد تم نے جس طرح کی
گفتگو کی وہ تمہاری قابل رحم حالت کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔۔۔۔ تم ہار گئے
ہو اور اب انشااللہ ہر بازی ہارو گے۔۔۔۔
لگے رہو تم لگے رہو میں بھی لگا ہوا ہوں تم ہر موقعے پرشورمچاتے رہو میں ان
چراغوں کی روشنی میں مزید چراغ جلاتا رہوں گا تم مایوسی پھیلاتے رہو میں
امید کی ایک مدھم سی کرن کے پیچھے بھی چلوں گا میں جانتا ہوں کہ اس کرن کے
پیچھے کوئی سورج ہے کوئی چاند ہے دیکھ لینا یہ روشنی کسی دن میرا آنگن نور
سے بھر دے گی تم تب پلٹو گے جب میں کامیابی کی آخری سیڑھی پر کھڑا مسکرا
رہا ہوں گا لیکن میں تمہیں پھر بھی خوش آمدید کہوں گا کہ میں
امن سلامتی اور محبت کا داعی پاکستانی ہوں
میری امید زندہ ہے اور زندہ رہے گی |