امریکی صدر ٹرمپ نے بھارتی انتہا پسند وزیراعظم کے ہمراہ
ٹیکساس میں محدود مجمع سے خطاب کررہے تھے تو ٹرمپ اور مودی کے گٹھ جوڑ کو
سی این این ہٹلر سے مشابہت دے رہا تھا ۔ہٹلر کا ٹرائیکا پاکستان کے پڑوس
میں بھی ہے ۔ افغانستان کے صوبے ہلمند کے علاقے قلعہ موسی بازار کے قریب
کونجک اور شواروز کے علاقوں میں ایک بار پھر افغان و امریکی فورسز نے نہتے
و معصوم افغان باشندوں کی شادی کی تقریب پر فضائی حملہ کیا۔ جس میں 40کے
قریب انسان جاں بحق ہوئے۔اس سے کچھ دن پہلے افغان امریکا فورسز نے محنت کش
کسانوں پر ڈرون حملہ کیا تھا ۔ جس سے مشرقی صوبے ننگرہار کے وزیر تنگی کے
علاقے میں امریکی ڈرون حملے میں 30 کسان جاں بحق جبکہ 40 زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے قبل قندوز میں ختم قرآن کی تقریب فضائی حملہ 30حافظ القرآن بچے شہید
کردیئے تھے۔ یہ سب ٹرمپ اور غنی انتظامیہ کے نزدیک ’ غلطی ‘ سے ہوئیں ۔
18برسوں میں ہزاروں انسانوں کو فضائی بمباری کرکے شہید کردیا گیا ہے اور یہ
عمل صرف ’ غلطی ‘ ماننے تک ہی رہ جاتی ہے کہ واقعے کی انکوئری ہورہی ہے۔
سمجھ نہیں آتا کہ اس وقت افغانستان کے نام نہاد خیر خوا ، سیاسی لیڈروں ،
انسانی حقوق کی تنظیموں کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے کہ وہ اس انتہا پسندی
پر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کوئی دو ؍تین واقعات نہیں ہیں بلکہ افغان
امریکا فورسز کے ہاتھوں ان گنت ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہوچکے ہیں،
یونامہ کی ہر برس کی سالانہ رپورٹ نوشتہ دیوار ہے۔ عام افغانی ضرور پوچھتا
ہے کہ ایک امریکی اہلکار کی ہلاکت کو جواز بنا کر افغان مفاہتی عمل کو ختم
کرنے والے سینکڑوں بے گناہ انسانوں کے اس قتل عام کو کیانام دیں گے ۔ صدر
ٹرمپ ہوسٹن میں ہندو انتہا پسند وزیر اعظم کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر
اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے ، لیکن ٹرمپ اپنے بہترین ’’ دوست ‘‘ مودی
سے یہ نہیں پوچھتا کہ نو لاکھ فوجی مقبوضہ کشمیر میں کیا کررہے ہیں ؟۔
55دنوں سے وادی میں کرفیو و لاک ڈاؤن کیوں ہے؟۔ وزیر اعظم عمران خان امریکی
صدر سے اپیل کروارہے ہیں کہ کم ازکم کرفیو تو ختم کردایں ، ٹرمپ فرماتے ہیں
کہ مودی سے بات کروں گا ۔ دراصل صدر ٹرمپ اس لئے نہیں پوچھتے کیونکہ یہ سب
کچھ اُن کی آشیر باد س اور امریکا کی مرضی و منشا کے مطابق ہورہا ہے۔
مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ جتنے بھارتی اسٹیڈیم میں آئے تھے کیا اُن میں
کوئی مسلمان نہیں تھا ، کیا سب کے سب ہندو تھے ؟۔ یقینی طور پر ایسا نہیں
ہوگا ، اُن میں مسلمان بھی ہونگے اور دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی ۔
لیکن سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا ان میں ’’ضمیر ‘‘بھی تھا ۔ یہ جاننا تو کم
ازکم میرے لئے بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو
رہا ہے اُس پر ایک مسلمان چاہے اُس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو ، خاموش کیسے
رہ سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 55دنوں سے بلکہ70برسوں جو فسطائیت کا کھیل
رچا جا رہا ہے ، اس پر کسی مسلمان کے دل میں دردکیوں نہیں اٹھتا۔ افغانستان
میں جس طرح نہتے بزرگوں ، نوجوانوں ، محنت کشوں، خواتین اور معصوم کو
بمباریوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس پر کوئی مسلمان بھلا چپ کیسے رہ
سکتا ہے ۔ کیا اس کے دل میں اسلام کم اور یہود و نصاریٰ کا ڈر زیادہ ہے ۔
ایمان کے کمزور ترین درجے والا مسلمان کی آنکھ سے ایک بے بسی کا آنسو بھی
بہہ جاتا ہے ۔ لیکن اس ظلم پر تالیاں بجائی جاتی رہیں ۔ یہ سہنا کسی انسان
کا کام نہیں۔المیہ ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک مجرمانہ خاموشی اختیار کئے
ہوئے ہیں ، یقین یاد رکھیں کہ اس کے مکافات عمل سے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں
گے ۔
لبرل ، سیکولر ، دہریہ یا کسی بھی مذہب ، مسلک یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں
جو کچھ بھی آپ ہوں ، آپ افغان طالبان کا انکار کریں ، تنقید کریں چاہے نفرت
کریں ، مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کو کوئی بھی نام دیں ، مجھے اس کے لئے
کوئی مجادلہ نہیں کرنا ۔ لیکن یہ آپ اور ہم سب کا فرض ہے کہ کم ازکم
انسانیت کے ناطے تنقید کا پیمانہ ایک تو رکھیں ، ہندو انتہا پسند ہوں یا
یہود ونصاریٰ کے دہشت گرد نہتے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے پر ایک
انسان ہونے کے ناطے احتجاج کرنا تو بھی فرض بنتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے
والے ظلم و زیادتی پر آپ کے پُر کیوں جلتے ہیں،کیا مسلمان ، انسان نہیں
ہیں؟۔افغانستان میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ28 ستمبر سے شروع ہورہا ہے۔
جمہوریت کے نام لیوا ، انسانیت کو جواب تو دیں کہ آپ کا نظام نہتے و معصوم
انسانوں کی جانیں کیوں لے رہا ہے ۔ امریکا کا ایک فوجی ہلاک ہوجائے تو پوری
دنیا میں قیامت آجاتی ہے ۔ افغانستان ہو مقبوضہ کشمیر یا بھارت ۔ انسانوں
کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا لہوانہیں اتنا ارزاں کیوں لگتا ہے ؟۔اب اگر کیا
ردعمل نہیں بھی آئے گا ؟۔آخر امریکا ، افغان فورسز و داعش میں کیا فرق رہ
گیاہے ۔
داعش نے بھی کابل کی شادی کی تقریب میں خود کش حملہ کرکے63افراد کو ہلاک
اور 180کو زخمی کردیا تھا ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر اگر لمحے کو تصور کریں کہ
کیا یہ امریکا کے کنٹریکٹر بلیک واٹر تو نہیں تھے ۔ کیا یہ وہ لوگ تو نہیں
جنہوں نے گذشتہ دنوں بارات کی 6 گاڑیوں کو نشانہ بنایا تھا ۔30 محنت کش
کسانوں کو ڈرون حملے سے زندہ جلادیا تھا، مدرسے کے بچوں کے معصوم جسموں کے
پرخچے اڑا دیئے تھے۔ چھاپوں کے نام پر سینکڑوں دوکانیں لوٹ لیتے ہیں،
خواتین کی عصمت دری کرتے ہیں۔ یہی کچھ تو مقبوضہ کشمیر میں بھی ہورہا ہے۔
انسانیت کو روندا جارہا ہے ۔ 50ہزار مندر بنا کر مورتیاں رکھنے کا اعلان
کیا جارہا ہے ۔کیااس پر کچھ بولنا گناہ ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کا جینا
حرام کردیا گیا ہے ۔ جبر ی مذہب تبدیل کئے جاتے ہیں ۔شعایر اسلامی کی توہین
کی جاتی ہے ۔ مسلمان بچیوں کے ساتھ گینگ ریپ کیا جاتا ہے ۔ کھلے عام سرکاری
طور پر کہا جارہا ہے کہ آسام میں اگر کسی ہندو کی شہریت ثابت نہیں ہوئی تو
اُسے ( صرف ہندوکو)ملک بدر نہیں کیا جائے گا ۔ کھلا اعلان ہے کہ مسلمانوں
کو نکال کر بھارت سے باہر اُسی طرح پھینک دیا جائے گا جس طرح برما میں
روہنگیائی مسلمانوں کو سمندر میں پھینک دیا گیا اور ان کے گھروں پر فوجی
تعمیرات کرلیں گئی ہیں۔اس پر اگر کوئی اٹھ کر جواب نہ دے تو بتائیں کیا
کریں ؟۔ صرف تقریریں کرتے رہیں۔ مسلم دشمنوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ان سے
رحم کی بھیک مانگتے رہیں۔دھرنے و مظاہرے کرکے کس کو خواب غفلت سے اٹھانے کی
کوشش کررہے ہیں۔ ظالموں کو یا ان کو ، جو کہتے ہیں کہ یہ امت مسلمہ کا
مسئلہ نہیں ہے۔ تو بتائیں کہ امن کیسے آئے گا ؟ ۔ کون لائے گا ۔؟ ثالث کون
بن گا ۔؟ وہ طاقتیں جنہوں نے کروڑوں انسانوں کو ایٹم بم میں جلا کر خاکستر
کردیا تھا ۔ |