ان دونوں آزادی مارچ کی سیاست حزب اختلاف کے گلے کی ہڈی
بن چکی ھے۔مولانا فضل الرحمن کو مارچ کی نہیں سیاسی قیادت اور خود مرکز
نگاہ بننے کا شوق جلد بازی پر مجبور کر رہا ہے اور دوسرا عمران خان سے حسد
نے بے چین کیا ہوا ہے۔پپلپز پارٹی اور ن لیگ چاہ رہی ہیں کہ مارچ ھو بھی
جائے ھم مذھبی لیبل سے بچ بھی جائیں مولانا بڑے سیانے ہیں وہ چاھتے ہیں کہ
دونوں میرے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں بندے ھم لے آئیں گے جو مذہبی جذبے سے
سر شار شہادت کے لیے تیار مگر بدقسمتی سے عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں تقریر نے مولانا سے وہ چارم بھی چھین لیا اب وہ مارچ مؤخر کرنے
پر رضا مند ہو گئے یا شیخ رشید کے بقول پنڈی میں موجود"ڈینگی" سے ڈر
گئے۔ادھر نواز شریف اور شہباز شریف کی جیل میں ملاقات کی اندرونی کہانی بھی
انہی مناظر کی عکاسی کرتی ھے۔شہباز شریف تیار نہیں اور خرابی صحت کو وجہ
بنا دیا مگر ساتھ نواز شریف کو معاملات طے ھونے کا اشارہ دے دیا مگر سیاسی
وعدوں میں نواز شریف کبھی بااعتماد ثابت نہیں ہوئے۔عمران خان کو ماضی میں
لوگ نواز شریف سے ملنے اور ساتھ چلنے کا کہتے تھے تو ان کا ردعمل ہوتا تھا
کہ نواز شریف نے 2008 کے الیکشن میں اجتماعی بائیکاٹ کا فیصلہ کر کے ھم سے
پوچھے بغیر الیکشن میں کود گئے۔ججز بحالی تحریک میں اسلام آباد کی بجائے
گجرانوالہ سے بھاگ گئے۔چارٹر آف ڈیموکریسی میں عمران خان کو نظر انداز کر
دیا۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کے خلاف عدالت پہنچ گئے۔مگر جب اپنا
فایدہ نظر آتا تو راستہ اور رشتہ دونوں بدل دیتے اس لیے اسمبلی اور قوم سے
خطاب تک کو نواز شریف نے سیاسی قرار دے دیا تو یہ مولانا فضل الرحمن اور
پیپلز پارٹی کیسے اعتبار کریں گے ان جماعتوں کا یہی مسئلہ ھے کہ ان عہد
شکنیوں کا نام سیاسی وژن رکھ دیتے ہیں۔اگرچہ حکومت سیاسی فرنٹ پر کمزور ھے
مگر اس کے باوجود لوگوں کی اپوزیشن سے امیدیں وابستہ نہیں ھو رہی ھیں
کیونکہ وہ برملا سوال کرتے ہیں کہ آپ کیا نیا کریں گے؟ زیادہ تر لوگ یہ
خیال کرتے ہیں کہ معشیت وتجارت اور مہنگائی کی شرح آپ کے لیے گئے قرضوں سے
یہاں پہنچی ہے۔اب کشمیر کے ایشو پر بات ھوتی ھے تو مولانا کا ماضی اس گناہ
کا مجرم نظر آتا ھے اور ن لیگ تو وزیر خارجہ سے ھی محروم تھی اس لیے اس
ایشو پر بھی عوام ساتھ نہیں ھوں گے البتہ دھاندلی کا شور ڈالنے کے لیے
عمران خان جیسی استقامت چائیے۔جو ناممکن ہے لہذا آپ نہ ھی سمجھیں البتہ ان
خدشات کے باوجود مولانا جن کے آنے کا بہت شور ھے ،ا بھی گئے تو دھر لیے
جائیں گے ویسے بھی حکومت اب معاشی لحاظ سے سنبھل چکی ہے معاشی اور سماجی
ترقی کے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔سیاسی وعدے مفاد کی گرد میں اڑ جائیں
گے۔نواز شریف اپنا حصہ وصول کر کے پتلی گلی سے نکل جائیں گے۔۔اخر حسد کا
شعلہ بھڑک اٹھا اور انتہائی تنہائی نے مولانا فضل الرحمن کو 27 اکتوبر کو
آزادی مارچ کرنے کا اعلان کروا دیا ھے۔اس سے وہ خود بھی بے نقاب ھوں گے اور
کچھ اور کو بھی کریں گے۔عمران خان نے دھرنے کے دوران یمن ایشو پر قومی
اتحاد کا پیغام دیا تھا۔سانحہ پشاور پر تو دھرنا اٹھا کر نواز شریف صاحب سے
ھاتھ تک ملایا اور نیشنل ایکشن پلان کو مکمل سپورٹ کیا آج کشمیر میں ظلم کی
داستانیں رقم ھو رھی ھیں دنیا بھر کا میڈیا عمران خان کی تقریر پر کشمیر
ایشو کو نمایاں کر رہا ہے بھارت سے آواز آٹھ رہی ہے سابق وزیر اعلی محبوبہ
مفتی کی بیٹی التجا نے عمران خان کی تقریر کے کشمیری عوام کے نئے جذبے کی
طرف اشارہ کیا ہے۔عرب اخبارات نمایاں مقام دے رہے ہیں ایسے میں قومی اتحاد
کی ضرورت تھی مگر مولانا 27 نومبر کو آزادی منانے نکلیں گے۔پھر جیت کسی اور
کی ھوگی۔مولانا صاحب بے شک حسد نیکیوں کو جلا دیتا ہے!!!
|