از قلم : انیلہ افضال
امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغان مجاہدین کے ساتھ ہونے
والے مذاکرات کو منسوخ کردیا ہے۔ اس کی وجہ امریکی صدارتی دفتر نے یہ بتائی
ہے کہ مجاہدین نے کابل میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کر کے
اپنی پوزیشن کمزور کر لی ہے۔ یاد رہے کہ مقررہ تاریخ سے پہلے کابل میں ہونے
والے بم دھماکے میں ایک امریکی فوجی سمیت متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے
تھے۔ امریکہ نے اپنے عظیم فوجی کی ہلاکت کو مذاکرات کی منسوخی کی وجہ بنایا
ہے جو کہ یقیناً ایک بھونڈی سی وجہ ہے۔ طالبان کی یہ دیدہ دلیری امریکی
اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ کسی
قسم کے مذاکرات کرنے سے قطعاً انکار کر دیا ہے جو اپنی شرائط کو منوانے کے
لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان جو
اپنے آپ کو مجاہدین کہتے ہیں وہ کسی بھی طرح سے افغان مسلے کو حل کرنا نہیں
چاہتے۔ کونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو مذاکرات سے فوراً پہلے دارالحکومت میں اس
قسم کی دہشتگردی نہ کی جاتی۔ اس قسم کے واقعات کا ہونا اور پھر اس کی زمہ
داری کو ڈنکے کی چوٹ پر قبول کرنا دراصل اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان
میں امریکی افواج کی موجودگی کس قدر ضروری ہے۔ لیکن یہاں یہ امر بھی قابل
ذکر ہے کہ امریکی افواج جہاں بھی گئی ہیں انہوں نے صرف انارکی ہی پیدا کی
ہے۔
افغان صدر اشرف غنی اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہیں اور ان کی امن کو کوششوں کو
سراہتے ہیں۔ اور وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے ملک میں مکمل
اور پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب افغان مجاہدین کے ترجمان
مجاہد ذبیح اﷲ کے مطابق طالبان ملک میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی
میز پر بیٹھنے کو غالباً اب بھی تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات کو
منسوخ کر کے شاید غلطی کی ہے۔ جبکہ افغان مجاہدین کی جانب سے امن مذاکرات
کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ امن مذاکرات کو منسوخ کرنے سے امریکہ کو پہلے سے
زیادہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی
نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے امن مذاکرات کی دعوت حصوصی مندوب زلمے خلیل
زاد نے دی تھی لیکن مجاہدین نے اسے قطر امن معاہدے پر دستخط تک معطل کر دیا
تھا۔
پاکستان نے ہمیشہ امن کوششوں کو سراہا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے
دھشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور وہ بطور ایک امن پسند ملک کے کسی
بھی طرح دہشت گردانہ کارروائیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ افغان امریکہ امن
مذاکرات کا یوں اچانک منسوخ کردیا جانا پاکستان کے لیے بھی تشویش کا باعث
ہے۔ پاکستان دونوں فریقین کی جانب سے برداشت اور تحمل کا مظاہرہ چاہتا ہے۔
کیونکہ اتنے سالوں کے تجربات کے بعد یہ تو طے ہے کہ افغان مسلے کا حل صرف
اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خطے میں پاکستان کی پوزیشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جس طرح سے پاکستان نے
گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اس کا اعتراف پوری دنیا
کرتی ہے۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ ساتھ بے شمار قربانیاں بھی پاک افواج کے
بورڈ پر ہیں۔ان تمام تر تجربات سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے کہ خطے میں مستقل
اور پائیدار امن کے واحد راستہ مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہے جبکہ طاقت کے
استعمال سے امن قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی
چاہیے کہ جس طرح افغانستان کئی دہائیوں سے اپنے بقا کی جنگ لڑی رہا ہے اسی
طرح کشمیر بھی گزشتہ بہتر سالوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑی رہا ہے۔ ایک عظیم
سپاہی سمیت کئی دوسرے لوگوں کی اموات نے امریکی صدر کو ہلا کر رکھ دیا ہے
اور انہوں نے افغان امن مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے جبکہ ستر سالوں سے
قربانیاں دے رہی کشمیری قوم کی جانیں، مال اور عصمتیں کسی گنتی میں نہیں
آتیں۔ اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کہ صدر ٹرمپ نے مسلح کشمیر پر ثالثی کی
واضح پیشکش کی ہے مگر عملی طور پر تو درکنار ، اخلاقی طور پر بھی کشمیریوں
کے لیے کوئی بیان نہیں دیا۔ کیا ایک امریکث فوجی کی جان لاکھوں کشمیریوں کی
جانوں اور عصمتوں سے بڑھ کر ہے۔
افغانستان، پاکستان اور کشمیر تینوں ہی امن چاہتے ہیں۔ پھر چاہے یہ امن
اپنے ہی ملک میں جنگ لڑی کر حاصل ہو، یا طالبان یا مجاہدین کی جنگ ہو یا
پھر کشمیریوں کی بے شمار جانی قربانیاں ہوں یا خواتین کی عصمت کی قربانیاں،
ان سب کی چاہت ، ان سب کا مقصد امن کاقیام ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک
پر امن معاشرتی دیا جا سکے۔ ان تمام قربانیوں اور اون قربانیوں کے مقاصد کو
سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کو امریکہ کو مذاکرات کی میز پر لانے کے
لیے ہر ممکن قدم اٹھانا ہو گا۔کیونکہ افغانستان ہو یا کشمیر یا پھر اپنے ہی
ملک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑتا ہوا پاکستان؛ یہاں کا ہر شہری امن کا
متلاشی ہے اور بطور ایک سپر پاور کے امریکہ کو امن کے قیام میں کردار ادا
کرنا ہی ہو گا۔
|