ملک کا سابق وزیر خزانہ فی الحال بدعنوانی کے الزام میں
تہاڑ جیل کی چکی پیس رہا ہے ایسے میں ایک کہانی یاد آتی ہے۔ کسی گاوں میں
ایک ایمان دارتحصیلدارآیا ۔ فائلوں کی کھوج بین میں اس نے ایک تالاب کی
کھدائی اور آرائش پر کافی رقم کے خرچ کا اندراج دیکھا۔ وہ تالاب دیکھنے کا
مشتاق ہوا اور اپنے منشی کو وہاں پر سیر کے لیے چلنے کا حکم دیا۔ اس پر
منشی بولا صاحب وہ رقم تو کافی عرصہ قبل تالاب میں نہیں بلکہ سابق تحصیلدار
کی جیب میں چلی گئی تھی ۔ نئے تحصیلدار نے لال پیلا ہوکر کہا کہ میں اسے
جیل بھجوا دوں گا تو منشی بولا یہ آپ نہیں کرسکتے اس لیے کہ وہ تو پرلوک
سدھارگئے ۔ اس پر نراش ہوکر تحصیلدار نے پوچھا کہ لیکن بعد والوں نے اس پر
کوئی اقدام کیوں نہیں کیا ۔ بوڑھا منشی بولا صاحب اس سے ان کا کیا فائدہ
ہوتا ۔ وہ تالاب کی دیکھ ریکھ کا نام لے کر سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرتے
رہے۔ ایماندار تحصیلدار بولا لیکن میں یہ نہیں کرسکتا ۔ منشی بولا تو آپ
خاموش رہیں ۔
تحصیلدار نے پھر سوال کیا لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں نے کیا
اقدام کیا تو میں کیا جواب دوں گا ؟ چالاک منشی بولا میرے پاس ایک ایسی
ترکیب ہے کہ ’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ‘۔ تحصیلدار نے پوچھا وہ کیا ؟ تو
منشی بولا آپ سرکار کو لکھیں تالاب گندہ ہوگیا ہے ۔ اس سے بیماریاں پھیل
رہی ہیں ۔ اس کو بھرنے کے لیے رقم درکار ہے۔ تحصیلدار بولا لیکن جب تالاب
ہی موجود نہیں ہے تو کس کو بھرا جائے گا؟ منشی فوراً بولا آپ کی جیب کو
اور ایسا کرنے سے آپ اورتمام سابق تحصیلدار وں کی پاپ اس غیر موجود تالاب
میں ڈوب جائیں گے اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائےگا ۔ اس طرح ایک
ایماندار تحصیلدار کی دیانتداری بھی بدعنوانی کے گندے تالاب کی نذر ہوگئی۔
اس لطیفے کا حقیقی پونر جنم دیکھئے۔ فروری ۲۰۰۹ میں حکومت مہاراشٹر نے
انڈیا بُل نامی تعمیراتی کمپنی کو ممبئی یونیورسٹی کے احاطے میں تقریباً
سولا ہزار مربع میٹر کےخطۂ اراضی پر ایک دارالمطالعہ تعمیر کرنے کا ٹھیکہ
بذریعہ ٹینڈرسونپا۔ اس تعمیر کے عوض متصل سات ہزار مربع میٹر کی زمین ۹۹
سال کے لیے ایک روپیہ مربع میٹر کے حساب سےتجارتی استعمال کے لیے ٹھیکیدار
کو دی گئی ۔ ۲۰۱۰ میں اس دارالمطالعہ کی تعمیر کا تخمینہ 88.90 کروڈ لگایا
گیا تھا۔ آگے چل کر اس سودے پر تنازع ہوا انسداد بدعنوانی کے محکمہ نے اس
وقت کے پی ڈبلیو ڈی وزیر چھگن بھجبل پر الزام لگایا کہ انڈیا بُل نے ان
کواعانت کے طور پر ڈھائی کروڈ روپئے رشوت دی ہے۔ یہ رقم بھجبل کے زیر
نگرانی چلائے جانے والے غیر سرکاری خیراتی ادارے کے کھاتے میں جمع کی گئی
تھی۔ بی جے پی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دسمبر ۲۰۱۵ میں چھگن بھجبل پر اس
معاملے میں فردِ جرم داخل کردی اور وہ فی الحال ضمانت پر ہیں ۔ دلچسپ بات
یہ ہے کہ اس معاملے میں کام تو روک دیا گیا لیکن رشوت دینے والے انڈیا بُل
کے کسی فرد کی گرفتاری نہیں ہوئی ۔
جولائی ۲۰۱۷ میں انڈیا بُل نے بمبئی ہائی کورٹ سے رجوع کرکے یہ معاہدہ ختم
کرواکرمعاوضہ دلوانے کا مطالبہ کیا۔ اس پر عدالت نے آپسی مفاہمت سے معاملہ
طے کرنے کا حکم دیا ۔ ان احکامات کو بجا آوری کے لیے پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ
نے تین نجی اداروں کو تعمیراتی کام کی تکمیل اور اس کا معاوضہ طے کرنے کی
ذمہ داری دی ۔ ان کے جائزے کی روشنی میں الیکشن کا ضابطۂ اخلاق نافذ ہونے
سے دو دن قبل موجودہ حکومت نے ٹھیکہ منسوخ کردیا لیکن اس کے بدلے انڈیا بُل
نامی کمپنی کو137 کروڈ معاوضہ ہرجانہ کے طور پر دینے کے لیے راضی ہوگئی ۔
یہ معاوضہ تعمیر پر ہونے والے خرچ اور ۹۸ کروڈ کی بنک گارنٹی کے سود کو ملا
کر طے کی گئی ۔ ویسے انڈیابُل کا دعویٰ تو دو سو انتیس کروڈ ساٹھ لاکھ کا
تھا لیکن پھر بھی وہ اس پیشکش پر غور کررہی ہے۔ یہ خرچ صرف عمارت کی بیرونی
تعمیر پر ہوا ہے ۔ پی ڈبلیو ڈی اندرونی حصے میں مزید چونتیس کروڑ پینتالیس
لاکھ کروڈ خرچ کرکے اسے قابل استعمال بنائے گا۔ حکومت کی دلیل یہ ہے کہ ایک
سو بہترّ کروڑ روپئے خرچ کرنے کے بعد انڈیا بُل سےمتصل زمین واپس ملے گی اس
کی قیمت موجودہ بازار بھاو سے دو سو پچاسی کروڈ ہے۔ اس خطۂ اراضی کو واپس
لینے کے بعد استعمال کی بابت سرکار از سرِ نو فیصلہ کرے گی ۔
تعمیراتی صنعت فی الحال ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے ۔ ملک کے بڑے شہروں
میں لاکھوں مکان اور دوکانیں بک نہیں رہی ہیں ۔ ایسے میں وہ زمین واپس لے
کر سرکار کیا کرے گی ؟ کون اس کو خرید کر اس پر تعمیر کرنے کی حماقت کرے گا
؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب آسان نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اسے
انڈیا بُل کے گلے مارکر مفت میں دارالمطالعہ کا کام مکمل کروایا جاتا اور
اگر وہ کوتاہی کرتا تو ہرجانہ وصول کیا جاتا لیکن حکومت نے زمین واپس لے کر
اس کافائدہ کردیا۔ انڈیا بل نے اٹھانوے کروڈ کا سودہ حاصل کرنے کے لیے تو
صرف ڈھائی کروڈ رشوت دی لیکن اب ایک سو سینتیس کروڑ معاوضہ وہرجانہ وصول
کرنے کے لیے کتنا دیا کوئی نہیں جانتا ؟ نیز اب جو دوسو پچاسی کروڑ کی زمین
ٹھیکے پر دی جائے گی اس کی کمائی راز میں ہے۔ اپنی پہلی مدت کار کے آخری
لمحات میں فڈنویس سرکار نے ایک طرف تو انڈیا بُل کے وارے نیارے کردئیے اور
یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ مہاراشٹر میں یہ پہلی حکومت ہے جس پر
بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں ہے ۔ یہ بدعنوانی کی حقیقی کہانی۔
|