جس طرح آج کے دور کا انسان مختلف مسائل سے دوچار ہے بالکل
اسی طرح یہ زمین بھی بہت سے مسائل سے بیک وقت دوچار ہے۔ اوزون لئیر کی
تباہی سے لے کر، جنگلات کی کٹائی، آلودگی جیسے بڑے بڑے مسائل اس کرۂ ارض کو
بیک وقت درپیش ہیں۔جن میں سے آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے جو زمین کی تباہی کی
وجہ بن رہا ہے۔ پچھلی صدی تک آلودگی کے معاملات اتنے سنگین نہ تھے۔لیکن وقت
گزرتے گزرتے یہ ایک سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کر گیا۔
یوں تو ہمارے اردگرد موجود آلودگی کی بہت سی اقسام ہیں لیکن اگر ہم اپنے آس
پاس نظر دوڑائیں تو پلاسٹک ہمیں اس کی ایک بڑی وجہ نظر آئے گا ۔جو کہ اگر
کچرے کے ڈھیر کی صورت اختیار کر لے تو زمینی ، پانی میں بہہ نکلے تو آبی
اور اگر جلا یا جائے تو فضائی آلودگی کا سبب ہے اور ان سے منسلک زندگیوں کے
لئے خطرہ بھی ۔یہاں تک کہ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں اس میں بھی پلاسٹک
کے ننھے ذرات شامل ہوتے ہیں۔
پلاسٹک تا دیر رہنے والا مادہ ہے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مادی انحطاط ممکن
نہیں ۔لیکن بعض مصنوعات ایسی بھی ہیں جو کہ صرف ایک ہی بار قابلِ استعمال
ہوتی ہیں جن میں منرل واٹر کی بوتلیں ، اسٹراز، مختلف اشیاء کے ریپرز وغیرہ
شامل ہیں۔ ان ہی قسم کا پلاسٹک سب سے زیادہ آلودگی کا سبب بنتا ہے جو کہ نہ
صرف ہمارا اردگرد کا ماحول آلودہ کرتا ہے بلکہ بہت سے سیاحتی مقامات بھی اس
وجہ سے کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں جوکہ ایک توجہ طلب بات
ہے کیونکہ یہ ہمارے خوبصورت و قیمتی اثاثوں میں گرہن کی طرح ثابت ہوتا ہے۔
پلاسٹک نہ صرف ہمارے اثاثوں کو آلودہ کرنے کا سبب ہے بلکہ ہمارے اردگرد
گلیوں ، سڑکوں اور شاہراہوں پر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں نظر آتی آلودگی کا
سبب ہے وہیں سیوریج لائنز کو بلاک کردیتا ہے جس کی وجہ سے سڑکوں پر سیوریج
کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔جس کے کئی دن صاف نہ ہونے کی وجہ سے کیڑے مکوڑے ،
مچھر جیسے دیگر حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں جو کہ مختلف بیماریوں جیسے کہ
ڈائریا ، ملیریا جیسی دیگر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
یہ ہی پلاسٹک جب تالاب ، جھیلوں اور دریا میں پہنچتا ہے تو انہیں چوک کر
دیتا ہے اور پانی کو آلودہ کردیتا ہے ۔جب یہ پانی ہمارے گھروں میں پہنچتا
ہے تو مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔اگر اسے جانور کھالیں تو یہ ان کے
معدے میں جاکر چپک جاتا ہے جو کہ ا ن میں بیماریوں سے لے کر موت تک کابھی
سبب بنتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پلاسٹک اتناخطرناک کیوں ہے اور اگر ہے تو ہم اس کا اتنا بے
دریغ استعمال کیوں کر رہے ہیں؟اس کیلئے ہمیں سب سے پہلے اس کی کمپوزیشن
سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پلاسٹک پہلی بار ۱۹۰۷ء میں ایک امریکی سائنسدان Leo Handrid نے لیبارٹری
میں تیار کیا جو سنتھیٹک اور نان سنتھیٹک مادوں کو پگھلا کر اپنی من چاہی
شکل میں بنایا گیا جو کاربن پر مشتمل تھے۔جو کہ کیمیائی طور پر خطرناک
ہیں۔اس میں ایک مادہ جو کہ بائیوسیفنل اے کہلاتا خطرناک ہے جسے شارٹ ٹرم
میں بی پی اے کہاجاتا ہے۔صحت کے لئے سخت مضر ہے۔جسے مدِنظر رکھتے ہوئے
امریکن اسٹینڈرڈ سیٹ کئے گئے ہیں جو کہ ہر پلاسٹک کی اشیاء پر ٹرائینگل کی
صورت میں بنے ہوتے ہیں جسے ۱ سے ۷ تک میں تقسیم کیا گیا ہے۔۵،۴،۲،۱ تک کے
ہندسوں کے ٹرائینگل محفوظ پلاسٹک کی طرف اشارہ کرتی ہیں جب کہ بقیہ خطرناک
پلاسٹک مادوں کی طرف ۔لہذا ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جو پلاسٹک
ہم گھروں میں سودا سلف لانے سے لے کر پانی کی بوتلوں تک میں استعمال کرتے
ہیں، کھانے کے برتنوں سے لے کر بچوں کے کھلونوں میں روزمرہ میں استعمال
کرتے ہیں وہ صحت کے لئے محفوظ ہے بھی یا نہیں۔
جہاں بات آتی ہے ڈی کمپوزیشن کی تو اس کی ڈی کمپوزیشن انتہائی سست ہے جو کہ
۱۰۰ سال سے بھی زیادہ کا وقت لیتی ہے۔اسے نہ ہم دریا برد کر سکتے ہیں
کیونکہ یہ آبی حیات کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ ہے، نہ ہی جلا سکتے ہیں کیونکہ
وہ فضائی آلودگی کا سبب بنے گا ، نہ ہی زمین میں گاڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہ
زمین کی ذرخیزی میں کمی کا سبب بنے گا۔الغرض یہ کہ پلاسٹک کسی بھی طرح ڈی
کمپوز نہیں کیا جاسکتا جس وجہ سے پوری دنیا پلاسٹک کے ڈھیر میں تبدیل ہوتی
جا رہی ہے جو کہ پورے ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
اس کا صرف واحد حل پلاسٹک کی روک تھام کرنا ہے کیونکہ اسے ریسائیکل بھی صرف
۷ سے ۹ بار کیا جاسکتا ہے وہ بھی مخصوص ریسائیکل پلانٹزمیں جو کہ بدقسمتی
سے پاکستان میں بہت کم تعداد میں ہیں۔
پلاسٹک کے خطرناک ہونے کے باوجود ہم اس کا بے دریغ استعمال کیوں کرتے ہیں
تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ پلاسٹک جیسے ہی متعارف ہوا فوراــہی انڈسٹری میں
پھیل گیاکیونکہ یہ قدرتی مصنوعات سے سستا اور تیاری میں آسان تھا جس سے بیک
وقت بہت سی کاپیاں تیار کی جاسکتی تھیں۔پلاسٹک انڈسٹری نے اس سے بہت منافع
کمایا اور لوگوں نے اسے بنا سوچے سمجھے استعمال کرنا شروع کردیا جس کی وجہ
سے اس کا سستا اور خوبصورت ہونا شامل تھا۔لیکن اس کی افادیت یا نقصان پر
لوگوں نے تب تک غور نہیں کیا جب تک اس کے بڑے نقصانات سامنے نہ آگئے۔
پلاسٹک کے بے دریغ استعمال سے پھیلنے والی آلودگی اور دیگر امراض پر غور کر
کے پوری دنیا نے اس پر پابندی عائد کردی ہے جو کہ اب پاکستان میں بھی
دیکھنے میں آئی ہے ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اگست کے مہینے میں اسلام آباد
میں پلاسٹک بیگز پر پابندی کی صورت میں دیکھنے میں آئی جس کے بعد سندھ
حکومت نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں پلاسٹک بیگز پر پابندی
کا اعلان کیا ہے لیکن کیا اس کا اطلاق ہوسکے گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
صرف حکومت ہی نہیں ہمیں بھی انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک
اور دنیا کو اس آلودگی سے بچانا ہوگا ۔جس میں سب سے ہی اپنا اپنا کردار ادا
کرنے کے خواہاں ہیں وہیں ایک برانڈ Sapphireنے اس سال اپنے بچے ہوئے فیبرک
اور بیج کو ملا کر seeds embeded bagsمتعارف کروائے ہیں ۔جنہیں آپ جب تک
چاہیں استعمال کر سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کے ٹکڑے کر کے زمین میں بو
دینے سے پودے نکل آتے ہیں۔یہ بے شک ایک خوش آئند اقدام ہے جسے سراہا نہ
جائے تو زیادتی ہوگی ۔اسی طرح اگر سب مل کر اس مشن پر کام کریں تو بہت جلد
اس آلودگی اور پلاسٹک جیسی مصیبت سے چھٹکارا پا لیں گے۔
|