چند روزپہلے سیالکوٹ کے ایک نجی ہسپتال اسلام سنٹرجو ایک
مقامی سیاستدان ڈاکٹر تنویراسلام سابق صوبائی وزیر صحت کی ملکیت ہے میں
ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میں ایک بیس سالہ طالبعلم ہلاک
ہوگیا بتایا جاتا ہے کہ مقتول والدین کا اکلوتا بیٹا اور چھ بہنوں کا بھائی
تھااس المناک واقعہ کے فوری بعد ہسپتال کے قریب ہی واقع کالج کے مشتعل
طلباء نے ہسپتال مالکان اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہسپتال میں
توڑپھوڑ کی طلباء کے احتجاج کرنے کے بعد ضلعی انظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے
ہسپتال کے مالک اور ڈاکٹر کیخلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا جس کے بعد ہسپتال
انتظامیہ نے مقتول طالبعلم کے ورثاء اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی
مقدمہ درج کرادیا اس کا مقصد تو یہ ہے کہ ہسپتال کے مالک اور ڈاکٹر وغیرہ
کیخلاف قتل کے مقدمے میں مقتول کے ورثاء کو بلیک میل کرکے صلح کی
جاسکے۔لیکن مسیحائی کا دعویٰ کرنے والوں نے اسی پر بس نہیں کیااگلے روز شہر
کے کلینکس اور ہسپتالوں میں ہڑتال کردی جس کے نتیجے میں مزید دو معصوم بچے
طبی امداد نہ ملنے کیوجہ سے ہلاک ہوگئے شہر کے عوامی اور سماجی حلقوں کی
طرف سے ڈاکٹروں کی بے حسی اور بلاجواز ہڑتال کی پرزور مذمت کی جارہی ہے لوگ
کہتے ہیں کہ کیا ڈاکٹروں کو غفلت اور لاپرواہی کی کھلی چھٹی دے دی جائے
تاکہ یہ ڈاکٹرزاپنی من مانیاں کرنے کیساتھ غریب اور لاچار مریضوں کیساتھ
جسطرح چاہیں سلوک کریں چاہے بندہ مرجائے انھیں کوئی پوچھنے ولا نہ
ہو۔مذکورہ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور غفلت کے نتیجے میں نوجوان کی
ہلاکت کے بعد ہسپتال کے مالک اور انتظامیہ کا فرض بنتا تھا تو کہ وہ مقتول
کے ورثاء سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داران کیخلاف کاروائی کرتے لیکن
اس کی بجائے انھوں نے مقتول کے ورثاء کو انتقامی کاروائی کے طور پر ان کے
خلاف بھی مقدمہ درج کرادیا اس سے بھی بڑھ کر ہڑتال کرکے مزید دو معصوم بچوں
کی جان لے لی جبکہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اپنے مریضوں کے علاج معالجے کے لیے
ذلیل و خوار ہوتے رہے۔یہ افسوسناک رویہ مسیحائی کے مقدس پیش کے لیے لمحہ
فکریہ ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک دو دہائیوں سے مسیحائی ایک مقدس پیشہ
کی بجائے ایک منافع بخش کارباربن گیا ہے جس میں کسی بھی کاروبار سے کئی گنا
منافع ہے ڈاکٹر تنویراسلام کا مہنگاترین اسلام سنٹر ہسپتال بھی اس منافع
بخش کاروبار کی واضح مثال ہے کہ انھوں نے چند سال پہلے یہ ہسپتال بنایا جس
سے روزانہ لاکھوں روپے آمدن ہوتی ہے دیکھتے ہی انھوں نے اس کاروبار میں
اتنی زیادہ ترقی کرلی کہ انھوں ہسپتال اور میڈیکل کالج کی چین بناکر ارب
پتی بن چکے ہیں یہ بہت ہی افسوس کن حقیقت ہے کہ مادیت پرستی کے دور میں
مسیحائی کا مقدس پیشہ بھی پوری طرح ملوث ہوچکا ہے بلکہ یہ ہوس زر میں کسی
بھی دوسرے شعبوں سے بہت آگے نکل گیا ہے جس کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ
وہ ہماری حالت پر رحم کرے۔ورنہ تو کچھ عرصہ پہلے تک مسیحائی کو بڑا مقدس
پیشہ خیال کیا جاتا تھا۔جب کسی طالبعلم سے میٹرک یا بی اے میں نمایاں
پوزیشن حاصل کرنے پر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو
عام طور پر وہ کہتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا اور دکھی انسانیت کی
خدمت کرے گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس شعبے کو ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا
ہے جس کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے ۔ لیکن افسوس کہ یہ بچے
بڑے ہو کرجب ڈاکٹر بن جاتے ہیں تو انھیں دکھی انسانیت کی خدمت کا مشن بھول
جاتا ہے اور وہ اسے دولت کمانے کا ذریعہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام خاص
طور پرغریب لوگوں کو ڈاکٹوں کے متعلق بہت زیادہ شکایات پائی جاتی ہیں۔آپ
کسی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں یا پرائیویٹ کلینک میں ہر جگہ آپ کو
مریضوں کے قطاریں لگی ہوئی نظر آئیں گی۔لیکن ڈاکٹرز ان کے علاج معالجے پر
توجہ نہیں دیتے۔سرکاری ہسپتالوں میں تو یہ صورتحال نہایت ہی ناگفتہ بیانی
ہے کہ وہاں ڈاکٹر سفارش اور تعلق کے بغیر مریض کو دیکھنا اپنی شان کیخلاف
سمجھتے ہیں اور خوش نصیبی سے کسی غریب مریض کو ڈاکٹر میسر آ بھی جائے تو
اسے دوائی نہیں ملتی مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بہتر علاج کے لیے
ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں جائیں ۔جہاں سے علاج کرانا عام غریب آدمی کے
بس کا روگ نہیں ہوتاکیونکہ وہاں ٖڈاکٹر زسے مشورے کی فیس اتنی زیادہ ہوتی
ہے کہ وہ غریب آدمی افورڈ نہیں کرسکتا ۔اگر کوئی قسمت کا مارا کسی طرح
پرائیویٹ کلینک پر ڈاکٹر سے مشورے کی جرات یا غلطی کر بیٹھتا ہے تو اسے
اتنی زیادہ اور مہنگی دوائیں تجویز کردی جاتی ہیں کہ مریض اس مہنگے علاج کے
نتیجے میں مقروض ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک تو ڈاکٹروں نے اپنی من
مانی فیسیں اتنی زیادہ مقرر کی ہوئی ہیں کہ اﷲ معاف کرے انھیں کوئی بھی
نہیں پوچھ سکتا دوسرا ڈاکٹر علاج کے لیے وہ مخصوص ادویات تجویز کرتے ہیں جو
بازار کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور وہ عام میڈیکل سٹورز
پر دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔یہ غیرمقبول اور غیر معروف ادویات صرف اس لیے
تجویز کی جاتی ہیں کہ ان میں میں صرف ڈاکٹرز کا مالی مفاد وابستہ ہوتا ہے
کہ ان ادویات کی فروخت میں غیر معروف کمپنیاں ڈاکٹروں کو سوفیصد سے زیادہ
کمیشن اور بہت زیادہ مراعات دیتی ہیں۔ جن میں غیرملکی دورے کرانے کے علاوہ
قیمتی گاڑیاں تک دی جاتی ہیں ۔اس طرح ڈاکٹرز جو دکھی انسانیت کی خدمت کا
جذبہ لے کر مسیحائی کے پیشے میں آتے ہیں عملی طور پر ان کی پریکٹس مین خدمت
نام کی کوئی چیز دور دور تک نظر نہیں آتی وہ اس مقدس پیشے کی آڑ میں دولت
اور مال کی ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کے انھیں انسانیت تو کجا اپنی
آخرت تک بھول جاتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ ایسے نام نہاد مسیحا دولت کی ہوس میں
راتوں رات بڑی بڑی کوٹھیاں اور قیمتی گاڑیاں تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن دنیا
کے سکون اور آخرت کے انعامات اور ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں۔مسیحائی کے نام
پر سرکاری ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس میں ڈاکٹروں کے کہ روپ یہ قصائیوں
کی طرح مریضوں کی الٹی کھال اتارتے ہیں ۔عدلیہ اور دیگر ادارے کرپشن کیخلاف
کاروائیاں تو ضرور کرتے ہیں لیکن مسیحائی کی پیشے میں چھپے بھیڑیوں کیخلاف
کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جو نادار مریضوں کیساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے
ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسیحائی کے مقدس پیشے سے وابستہ لوگوں کو اپنے
پیشے کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک نظم و ضبط کا پابند ضرور
ہونا چاہیے وہ مریضوں کیساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کریں اور علاج معالجے
کے نام پر کسی حد تک معاوضہ لیں اور اپنے پیشے کے احترام اور وقار کو بلند
کرنے کے لیے غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کریں۔سب سے بڑھ کر انسانیت کا
احترام لازم رکھیں۔
|