ڈائری کا ایک ورق۔۔۔ صبح اکتوبر کا انمٹ نقش

یہ زلزلے کا جھٹکا ہے یا ربّ نے کہا ہے
اس شہر میں جو کچھ بھی ہوا دیکھ رہا ہوں

انسان کس حد تک بے بس ہے ، کس حد تک غافل ہے اور کس حد تک حریص ہے اس کا عملی ادراک اس دن ہوا جب زمین کی ایک ہی جنبش نے آن ِ واحد میں ہزارہا انسانوں کی جان لے لی لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو گئے اور جو بچے ان کے دلوں میں اپنوں کی جدائی کا گھاؤ لگا دیا۔ وہ انسان جو اس سب سے غافل اپنے لیے بلند و بالا عمارات خوبصورت گھروندے بنائے جا رہا تھا وہ کس قدر غافل تھا اپنی ہی تباہی کا ساماں بنا رہا تھا۔انسان کی بے بسی اور اس کی غفلت تو آشکارا ہوئی ہی تھی لیکن یہ انسان کتنا حریص ہے اس وقت معلوم ہوا جب یہی انسان اپنے غم بھلا کر امدادی سامان اکٹھا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کرنے لگے ۔ قدرتی آفات ایک طرف تو مادی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہی ہیں تو دوسری جانب یہ معاشرتی تغیر کا باعث بھی بنتی ہیں ۔ گھروں کے درو دیوار نے انسان کی شرم و حیا ءبرقرار رکھی ہوتی ہے اللہ کی ستّار ذات انسان کے عیوب کو کس کس طرح چھپائے ہوتی ہے لیکن جب یہ حیاء کے قلعے مسمار ہو جاتے ہیں تو اس کے عیوب بھی بے حجاب ہو جاتے ہیں ۔ عمارتوں کے ساتھ ساتھ اس کی خودی، خودداری اور عزت نفس کا بھرم بھی زمین بوس ہو جاتے ہیں ۔ ؎
ضمیر نہیں کانپے یہاں
زمین کانپ جاتی ہے

یہ صبح 8 اکتوبر 2005 کی وہ دردناک صبح تھی جو طلوع بھی معمول کے مطابق ہوئی تھی، سورج کی کرنوں نے اندھیروں کے طلسم کو توڑ کر اجالا کیا تھا لیکن جوں ہی گھڑی کی سوئیوں نے آٹھ بج کر باون منٹ (8:52) کا اعلان کیا، مظفر آباد، بالاکوٹ اور باغ شدید زلزلے کی لپیٹ میں آئے اور پلک جھپکتے ہی ایک لاکھ کے قریب افراد لقمہ ٔ اجل بن گئے ۔ لاکھوں زخمی ہوئے اور لاکھوں ہی بے گھر ہو گئے ۔ یہ ایک قیامت صغری ٰ تھی جس نے اہل پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے درد مندوں کے دل دہلا دیئے۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے امدادی سامان سے لدے قافلے متاثرہ علاقوںکی جانب گامزن ہوئے ۔مالی ایثار کا یہ بہترین مظاہرہ تھا ۔ تکلیف کی اس گھڑی میں اہل پاکستان نے ہر وہ چیز جو متاثرین کے کام آ سکتی تھی ان کے لئے روانہ کر دی ۔ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی متاثرین کے لیے اپنے خزانے کھول دیئے۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا نظام موجود نہیں جو آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی رکھتا ہو ۔ مالی ایثار سے آنے والا امدادی سامان بد انتظامی کی نذر بھی ہوا اور بدعنوانی کی نذر بھی ہوا۔ بحر حال متاثرین کو بھی حکومتی سطح پر بھی اور نجی تنظیموں کی جانب سے بھی امدادی سامان کسی نہ کسی طرح فراہم ہوا ۔ ؎
یہ زلزلے کا جھٹکا ہے یا ربّ نے کہا ہے
اس شہر میں جو کچھ بھی ہوا دیکھ رہا ہوں

اس سے قبل میں نے افغان مہاجرین کے کیمپ بھی دیکھے تھے ، کشمیری مہاجرین کے کیمپ بھی دیکھے تھے اور اپنے ہی علاقے میں ان خانہ بدوشوں کو بھی دیکھا تھا جو ریوڑ لیئے کبھی ایک علاقے تو کبھی دوسرے علاقے کی جانب محو سفر ہوتے تھے ۔ان لوگون کو بے گھر اور بے در تو ضرور دیکھا تھا لیکن ان کے دکھ سے اسی دن واقف ہوا جب اپنے ہی گھر کے شکستہ درودیوار کے سامنے خود کو بے بس پایا ۔ میں اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے HOPE (Health Orientation & Poverty Eradication) Foundation Islamabadمیں بطور کو آرڈینیٹر کام کر رہا تھا ۔ چونکہ یہ تنظیم تحصیل باغ میں رفاہی کام کر رہی تھی اسلئے میری دلچسپی کا باعث بھی تھی ۔ تنظیمی امور کی بجا آوری کے لئے میں بھی اس دن باغ کی جانب محو سفر تھا ۔ اس شدید زلزلے کے جھٹکے میں محسوس نہیں کر پایا ۔ گاڑی باغ کی جانب رواں دوان تھی اور میں دیگر ہمسفروں کی طرح بے خبر رہا ۔ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہونے کے بعد جب ہم کھڈ بازار بہنچے تو ہمیں اس تباہی کے بارے میں علم ہوا ۔ لیکن ذہن میں یہی آیا کہ کچے مکانات اس کی نذر ہو چکے ہیں ۔ گاڑی میں بیٹھا ہر شخص اپنے پیارون کے لئے فکرمند ہوا ۔ گاڑی جب ماہل کا پل پار کر کے باغ کی حدود میں داخل ہوئی تو چیخ و پکار سنائی دینے لگی ۔ عمارتیں زمین بوس نظر آئیں اور بازار ویران نظر آئے تو ہر شخص کے دل میں اضطراب بڑھ گیا ۔انسان کی بے بسی اس دن دیکھی جب لاشوں کو دفنانے کے لئے کفن دستیاب نہ تھے ، قبر کاٹھ کے لئے اوزار دستیاب نہ تھے ، مسیحاؤں کے پاس زخم پہ رکھنے کے لئے مرہم اور درد کشائی کے لئے دوا موجود نہ تھی ، ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے کے لئے کوئی چارہ ٔ کار نہ تھا ۔اسی آہ و بکا کے مناظر سے ہوتا ہوا میں اپنے گاؤں پہنچا تو وہاں بھی آہوں اور سسکیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اگرچہ میرے انتہائی قریبی رشتہ داروں میں کوئی موت واقع نہیں ہوئی تھی لیکن میری دادی جان اور تایا جان سمیت کچھ لوگ زخمی ضرور ہو گئے تھے ۔ رات کو ہم پانچ گھروں کے افراد ایک کھیت میں کھلے آسمان تلے جمع تھے بادلوں نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو ہم نے ایک ترپال اور چند کمبلوں سے اپنا بچاؤ کرنے کی ٹھانی ۔ جو کسر زمین سے رہ گئی تھی وہ آسمان بے برس کر پوری کر دی بارش اور اولے بھی جی بھر کر برسے ۔جن کمبلوں نے ہمیں گرمی مہیا کرنا تھی وہ ٹھنڈے برفانی پانی سے بھیگ کر ہمیں موسم کی شدت کا احساس دلانے لگے ۔ دن کے مہیب مناظر نے آنکھوں سے نیند اڑا ہی دی تھی لیکن بارس اور ژالہ باری نے تو طبعی طور پہ ہمیں نیند سے بیدار رکھا ۔ اللہ کا شکر ہے اس دن ہمارے ہاں سحر و افطار کا بندوبست تھا ۔لیکن ہمارے ارد گرد کچھ لوگ تو اس سے بھی محروم تھے ۔ہمارے گردوپیش میں لوگوں کے زخمی اور ان کے پیاروںکی لاشیں بارش میں بھیگتی رہیں ۔ دن بھر بے بسی اور رات کو بے گھری و بے دری کا ایسا سبق ملا کہ زندگی بھر بھلائے نہ بھولے گا۔

ہم نے صبح کا آغاز سحری سے کیا اور اپنے ٹوٹے ہوئے گھروندوں سے کچھ نہ کچھ اشیاء ضروریہ نکالنے لگے ۔ ہمارا گھر کم تجربے کے حامل مستریوں نے تعمیر کیا تھا اس لئے اس میں اعلی ٰ قسم کی کاری گری کا فقدان تھا ۔ کاریگروں نے نا تجربہ کاری کی وجہ سے جستی چادروں کی چھت دیواروں پہ کھڑی کرنے کے بجائے دیوارون میں لکڑی کے ستون لگا کر ان پہ کھڑی کر دی اور بعد میں دیواریں اٹھا کر چھت تک لے گئے ۔ ان کی یہی ناتجربہ کاری ہمارے لئے رحمت ثابت ہوئی ۔دیواریں تو گر گئیں لیکن چھت انہی ستونوں کے سہارے کھڑی رہی ۔ البتہ ایک طرف برامدے کی چھت گر گئی تھی ۔ میرے والد صاحب نے گھر سے استعمال کے برتن ، بستر اور منہدم برامدے کی جستی چادروں کو بھی اپنے متاثرہ بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیا تاکہ عارضی طور پہ ان کے سر چھپانے کا انتظام ہو سکے۔ انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ گھر کی صفائی کر کے اس میں قیام کریں اور اپنے گھروں کی ازسر نو تعمیر کا بندو بست کریں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ میرے پھوپھی زاد بھائی نے اس پیشکش کو قبول کیا اور دو برس وہ اسی شکستہ گھر میں ہی مقیم رہے ۔

ریلیف اور بحالی کا کام شروع ہوا تو میں نے بھی اپنے علاقے کی بحالی اور تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اپنی رفاہی تنظیم کے پلیٹفارم سے ہم نے بحالی کے متعدد پراجیکٹ سرانجام دیے جن میں تین سو گھروں کی تعمیر، جستی چادروں کی تقسیم ، کمبلوں ،خیموں ، ادویات اور اشیائے خورونوش کی تقسیم اور مزید پانچ مراکز فنی تعلیم کا قیام شامل ہے ۔ اس کے علاوہ چار یونین کونسلوں سے یتیم بچوں کے کوائیف جمع کر کے ہم نے کتب ، بستے اور نقد رقوم تقسیم کیں ۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے جہاں ایک طرف تو میں نے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو نکھارا وہیں میں نے ضرورت مندوں کی خدمت اور مدد کے وژدان کو بھی بڑھایا۔مرشد اقبالؒ کا یہ شعر زندگی کی مقاصد میں شامل ہو گیا ۔
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

جوں ہی امدادی سامان متاثرین تک پہنچنا شروع ہوا لوگوں کا خوف حرص میں بدل گیا ۔لوگ امدادی سامان کے حصول کے لیئے بھاگ دوڑ کرنے لگے ۔ زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرے کے لئے مسابقت کا رجحان پیدا ہوا۔لوگوں نے خودداری چھوڑ کر امدادی سامان کے لئے ہاتھ پھیلانا شروع کر دیے ۔گھرون کی تعمیر نو میں ایک طویل عرصہ لگ گیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے فی گھرانہ پونےدو لاکھ روپے کی رقم کا اعلان کر دیا تھا جو مرحلہ وار ادا کی جانا تھی ۔ بیورو کریسی نے یہاں بھی اپنا کام دکھایا ۔ لوگ ایک مرحلے کی تکمیل کے بعد اس انتظار میں رہتے کہ حکومتی نمائندے آئیں اور پڑتال کے بعد اگلی قسط کی منظوری دیں ۔اس سے کرپشن کا نیا باب کھلا اور حکومتی نمائندوں نے حتی المقدور جیبیں گرم کیں ۔ تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں اور دفاتر کی تعمیر کے لیئے آنے والے فنڈز بھی خردبرد کا شکار ہوئے ۔ اس سے چند حقائق سامنے آئے ۔امدادی سامان مفت کا مال ہوتا ہے اسلئے دل بے رحم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ۔امدادی سامان وصول کر لینے کے بعد خودی اور خودداری پہ ضرب پڑتی ہے اور لوگ ہاتھ پھیلانے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے بلکہ تفاخر کا باعث گردانتے ہیں ۔جب عزت نفس مجروح ہو جاتی ہے تو لوگ کسی بھی برائی کے ارتکاب میں عار محسوس نہیں کرتے ۔ لوگوں کے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں اور وہ مادہ پرست ہو جاتے ہیں ۔ مال مفت پہ پلنے والے نوجوان بے کار اور نکمے پن کا شکار ہو جاتے ہیں اور قومیں اخلاقی پستی کا شکار ہوتی ہیں ۔ غیرملکی نجی تنظیموں نے ریلیف کے کاموں کے ذریعے اپنےاھداف بھی حاصل کئے ۔اس کے اثرات زلزلے کے بعد تعلیمی اداروں کے نصاب ، اور علاقہ مکینوں کے طرز زندگی میں تبدیلی سے بخوبی آشکار ہوتے ہیں ۔میدان نرم دیکھ کر انہوں نے مادیت کے جو بیج بوئے ان کا شاخسانہ ہے کہ ہماری اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں ۔

آج میرے علاقے کا نقشہ ہی بدل چکا ہے کچے گھروں کی جگہ پختہ یا نیم پختہ عمارات نے لے لی ہے ۔سکول کالج اور یونیورسٹی اور ہسپتال کی بہترین عمارات تعمیر ہو چکی ہیں ۔ سڑکوں کے نظام میں بہت بہتری آئی ہے ۔اعلی ٰ تعلیم کا رجحان بڑھا ہے ۔لیکن لوگوں کی معاشرتی حالت ابتر ہوئی ہے ۔ جرائم میں اضافہ ہوا ہے ۔ اخلاقی معیار میں گراوٹ آئی ہے ۔لوگ جو ایک امداد باہمی سے کام کیا کرتے تھے وہ نفسا نفسی کا شکار ہو گئے۔خاندانی نظام میں دراڑیں پڑیں ۔ خاندان پر سے بزرگوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔نوجوانوں میں بے راہ روی زیادہ ہوئی ہے اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔اس سانحے سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے ہم نے اس سے لطف اٹھایا ۔اب اللہ رب العزت نے ہماری رسی تو ڈھیلی کر دی ہے لیکن نہ جانے کب تک ۔ہم ہیں کہ اپنے انجام سے بےخبر اور غافل ہیں ۔زندگی کے اس موڑ پہ میں یہ سوچتا ہوں کہ کوئی ایسا طریق کار یا ایسی مشینری وجود میں لائی جائے جو دفن شدہ اقدار کو ڈھونڈ کر واپس نکال لائے ۔ جو خلوص و محبت کو ملبے تلے سے نکال لائے ۔جو معاشرے کو امن محبت بھائی چارے کی بنیاد پہ کھڑا کر دے ۔پھر سوچ بھول بھلیوں سے ہوتے ہوئے ایک روشنی پہ آ کر رکتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن عظیم الشان کی صورت میں وہ تعلیمات بھیجی ہیں جن پہ عمل پیرا ہو کر ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جو امن محبت بھائی چارے کی مجسم تصویر ہو ۔قرآن پہ عملدرآمد سے وہ شخصیات(سیدنا عمر ؓ) تیار ہوتی ہیں جو مرتعش زمین پہ قدم رکھ کرکہہ دیں ٹھہر جا تو زمین حرکت کرنے کی جرأت نہیں کرتی ۔وہ دریاؤں کو معمول کے مطابق بہنے کا حکم صادر فرما دیں تو وہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔اگر آج بھی قرآن کی تعلیمات کے مطابق معاشرے کو اٹھا یا جائے تو ہم قابل فخر اقدار کی حامل قوم بن سکتے ہیں ؎
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار
اللہ تعالیٰ آٹھ اکتوبر کے مقتولین کو جنت میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو ہدایت سے بھرپور زندگی عطا فرمائے ۔ آمین

Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105272 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More