سوچ کی طاقت

ہم سب انسان سارا دن بہت کچھ سوچتے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے بڑے بڑے خوابوں کے بارے میں، کبھی اپنے، کبھی اپنے پیاروں کے بارے میں۔ مگر ہم کبھی بھی سوچ کی طاقت کو نہیں سمجھ پائے کہ ایک سوچ کیا کچھ بدل سکتی ہے۔ سوچ کا تعلق ہمارے شعور اور لا شعور دونوں سے ہوتا ہے۔ ہماری observations سے ہماری سوچ کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جب تک انسان سوچتا ہے زندگی بہتری کی طرف جاتی ہے مگر جب ہم سوچنا سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر چیزیں اور زندگیاں سب تباہی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں ۔
ہماری سوچ، ہماری زندگی میں ہونے والے بہت سے واقعات کی وجہ ہوتی ہے۔ پتہ ہے کسی کام کو کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچنا کتنا ضروری ہے۔ انسان اور جانور میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ صرف اسی چیز کا ہے کہ انسان سوچ سکتا ہے سمجھ سکتا۔ اپنا اچھا برا، سہی غلط سب۔ جب انسان ایک پل کے لئے سوچنا چھوڑتا ہے تو پھر وہ جنت سے نکل دیا جاتا ہے، جب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا استعمال چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر انکھوں پر غروہ کی پٹی باندھ جاتی ہے۔ پھر سجدے سے انکار ہوتا ہے۔ انسانیت کے باپ حضرت آدم کی سوچ بھی کچھ پل کے لیے پھسلی تھی۔ اور اس کی وجہ سے جنت سے نکلے گئے۔

سوچ کی طاقت پتہ کیا ہوتی ہے؟ انسان کی سوچ چیزوں کو حقیقت بنا دیتی ہے۔ ہم جو سوچتے ہیں ہمیں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم برا گمان کرتے ہیں تو برا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اچھا گمان کرتے ہیں تو اچھا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس بارے میں تو اللہ تعالی نے خود فرما دیا ہے کہ
"انسان کے لئے وہی ہے جیسا وہ گمان کرتا ہے"

کشش کے قانون ( law of attraction ) کے مطابق ہماری سوچ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ "Thought become things". ہمارے دل میں پیدا ہونے والی فیلنگز کے پیچھے بھی سوچ ہوتی ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہ اس کے جذبات اور احساسات بن جاتے ہیں۔ اور پھر ان احساسات سے، ان جذبات سے ہمارے روائے جنم لیتے ہیں۔ ہمارے جذبات، ہمارے احساسات کی بنیاد ہماری سوچ ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں ان سب کے پیچھے ہماری سوچ ہوتی ہے۔ انسان کی سوچ اس کے زندگی، دنیا اور لوگوں کے بارے میں اچھے برے perceptions بناتی ہے۔

انسان روٹی کے بغیر تو رہ سکتا مگر سوچے بغیر نہیں۔ جس دن انسان نے سوچنا چھوڑ دیا اس دن اس کی زندگی کو بھی بریک لگ گیا۔ انسان سوچتا ہے روٹی کیسے کمائی جائے، زندگی کیسے گزاری جائے، جب وہ کسی خطرے میں ہوتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ خود کی جان کیسے بچائی جائے۔ یہ سب کام سوچنے کی مدد سے ہی ہوتے ہیں۔ ایک سوچ دنیا بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ہماری سوچ کا ہماری زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ ہماری سوچ اس بات پر بھی اثر ڈالتی ہے کہ ہم اپنے کسی منصوبے کو پورا کریں گے یا پھر بےدل ہو کر اسے بیچ میں ہی چھوڑ دیں گے، ہم زندگی میں آنے والی مشکلوں سے سیکھیں گے یا پھر ان سے بیزار ہو جائیں گے۔‏

انسان کی خوشی اور غم کا تعلق بھی اس کی سوچ کے ساتھ ہے۔ اگر انسان سارا دن خود کو مظلوم اور بیچار سمجھتا رہے گا تو وہ سچ میں بھی دماغی اور جسمانی طور کمزور ہوتا جائے گا۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان سے ہار منا لے گا۔ مگر جب انسان یہ سوچتا ہے کہ اس نے ہی کرنا ہے۔ اور اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا تو پھر انسان مشکلات کا سامنا اکیلے ہی کر گزارتا ہے۔ اگر آپ یہ سوچے گے کہ دنیا کے سارے غم آپ کی ہی زندگی میں ہے، تو پھر وہ وقت دور نہیں جب آپ کو یہ لگنا بھی شروع ہو جائے گا۔ انسان کی مایوسی کا تعلق بھی اس کی سوچ سے ہے اور اس کی بہتری کا تعلق بھی اس کی سوچ سے ہے۔

جو طاقت سوچ رکھتی ہے وہ دنیا کی کوئی چیز نہیں رکھ سکتی۔ ہم دنیا کی ہر چیز کو چورا سکتے ہیں۔ مگر کسی انسان کی سوچ کو چرانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ انسان اپنی سوچ سے اپنی زندگی کو جنت بھی بنا سکتا ہے اور جہنم بھی۔ بڑی بڑی ڈگریز ہونے کے باوجود بھی پتا ہے ہم لوگ جاہل کیوں رہ گئے ہیں۔ ہماری ڈگریز ہماری سوچ نہیں بدل سکی۔ سوچ کا تعلق کسی کتاب، کسی ادارے یا کسی ڈگری سے نہیں۔ میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کا کسی سکول، کسی کتاب سے کوئی تعلق نہیں رہا اتنی عمدہ اور خوبصورت سوچ کا مالک پایا ہے کہ دل و دماغ حیران رہ جاتا ہے۔

انسان کی ترقی اور تنزلی کا تعلق اس کی سوچ کے ساتھ ہے۔ اس کی خوشی اور غم کا تعلق بھی اس کی سوچ کے ساتھ ہے۔ خوشی بھی انسان کی سوچ سے پیدا ہوتی ہے۔

خوشی کوئی چیز نہیں، جو ہمیں مل جائے تو ہم خوش ہو جائے گئے۔ یہ تو صرف اور صرف ایک احساس ہے اور ہر احساس کی بنیاد سوچ ہے۔ ہم لوگوں کو بس اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ حالات اور واقعایات خود بہ خود بدلنے لگ جاتے ہیں۔ اگر ہم دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور پھر دیکھئے گا دنیا کیسے بدلتی ہے۔

 

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.