وطن عزیز میں انتہائی نفرت ، بغض و عناد اور انتقام کا
ماحول تیارکیا جارہا ہے۔ سماج کے مختلف طبقات بشمول مسلمان اور دیگر
اقلیتیں اس کا شکار رہی ہیں ۔ کولکاتہ کے ہائی پروفائل سابق پولیس کمشنر
راجیو کمار جس کو بچانے کے لیے وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے ایڑی چوٹی کا زور
لگا دیا فی الحال مرکزی حکومت کے خوف سے روپوش ہیں۔ ان کی تلاش کرنے والوں
کو صرف اتنا پتہ چل پایا ہے کہ وہ ۹ ستمبر سے لے کر 71دنوں کے لئے چھٹی پر
چلے گئے ہیں۔ عام طور پر جب بھی کوئی سینئر آئی پی ایس افسر چھٹی پر جاتا
ہے تو اسے دورانِ تعطیل اپنے قیام کا مقام اور رابطے کے لئے موبائل نمبر
دینا لازم ہوتاہے لیکن ایسی کوئی معلومات محکمہ پولس کے اندر نہیں ہے ۔
شاردا چٹ فنڈ گھپلہ معاملے میں سی بی آئی نے ریاست کے چیف سکریٹری اور
داخلہ سکریٹری کو دو خطوط لکھ چکی ہے ۔راجیو کمار کو گرفتاری سے تحفظ دینے
والے حکم کو کولکاتہ ہائی کورٹ کے ذریعہ واپس لینے کے فوراً بعد سی بی آئی
نے سابق پولیس کمشنر کو حاضر ہونے کے لئے سمن جاری کیالیکن راجیو کمار گدھے
کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہے ۔ ایک ای میل کے ذریعہانہوں نے بیوی کی
بیماری کا حوالہ دے کر 25ستمبر تک راحت دینے کی اپیل کی تھی جس کو مسترد
کردیا گیا اس لیے کہ فی الحال رحم وکرم نامی چیزیں معاشرے میں عنقا ء ہوچکی
ہیں ۔
راجیو کمار تو دور سابق وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ چدمبرم بھی فی الحال
انتقامی سیاست کا شکار ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی بہانے سے ان کی حراست میں
اضافہ کردیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ان کو بستر اور تکیہ سے محروم کرنے کی بات
بھی سامنے آئی ۔ عدالت میں ان کی خاطر کپل سبل نے ایک کرسی رکھنے کی
درخواست کی تو جج صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ کیا وہاں کرسی موجود نہیں ہے۔
اس کا جواب رونگٹے کھڑے کرنے والاہے۔ چدمبرم نے بتایا کے ان کے بیرک کے
باہر دوکرسیاں تھیں جن پر بیٹھ کر وہ وارڈن سے گپ شپ کرلیا کرتے تھے ۔
انتظامیہ نے جب یہ دیکھا تو دونوں کرسیوں کو ہٹانے کا حکم دے دیا ۔ اس طرح
چدمبرم کے طفیل وراڈن کو بھی کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا مجھے نہ
صحیح اس کو کرسی دے دی جائے۔ اس غیر انسانی سلوک کی مذمت کرنے کے بجائے امر
سنگھ نے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہا اب انہیں پتہ چلے گا کہ جیل کی
زندگی کیسی ہوتی ہے؟ اس تبصرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے قومی سیاست کس
حدتک گر چکی ہے۔ یہاں لوگ علی الاعلان ایک دوسرے کی اذیت پر برملا خوشی کا
اظہار کرنے لگے ہیں ۔
کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ بنانے کی خاطر اپنی جان پر کھیل کر عزت و
ناموس کو داوں پر لگانے والے فاروق عبداللہ پر پی ایس اے جیسے بدنام زمانہ
قانون کے نفاذ کو حق بہ جانب ٹھہراتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی جموں وکشمیر
یونٹ کے سینئر لیڈر ڈاکٹر نرمل سنگھ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ
عبداللہ جیسے لوگوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرنا ضروری تھااس لیے کہ وہ
کشمیر کے حالات بگاڑنا چاہتے ہیں۔ریاستی اسمبلی کے سابق اسپیکر نے نامہ
نگاروں کو بتایاکہ 'پی ایس اے اس وقت لگایا جاتا ہے جب پبلک سیفٹی کو درہم
برہم کرنے کی کوششیں ہورہی ہوں۔ کشمیر میں ایسے حالات بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر
فاروق عبداللہ کے بیانات کو دیکھتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھانا ضروری تھا'۔
کاش کے ڈاکٹر رمن سنگھ یہ بھی بتاتے کہ جو لوگ اس طرح کے حالات پیدا کرنے
کے لیے ذمہ دار ہیں ان کے اوپر کس قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ ویسے
جب ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور دورہ ہو اس طرح کے سوالات بے
معنیٰ ہوجاتے ہیں ۔وادی ٔ کشمیر کی اندوہناک صورتحال خون کے آنسو رلاتی ہے
۔ معتبر سماجی کارکن خواتین انی راجہ، کنول جیت کور،پنکھوری ظہیر، پونم
کوشک اور سیدہ حمید صاحبہ کے وفد نے کشمیر سے واپس آکر جوتفتیشی رپورٹ پیش
کی ہے اس میں ۱۳ ہزار نوعمر لڑکوں کی حراست ایک ایسا جبر ہے کہ جس کی جتنی
مذمت ّ کی جائے کم ہے۔
حکومت جہاں بے قصور لوگوں کو معتوب کررہی ہے وہیں چنمیانند جیسے درندہ صفت
انسان کو عصمت دری کے معاملے سے بچا نے کی مذموم سعی کی گئی۔ اس ظلم کے
ارتکاب میں ریاست کے بھگوادھاری وزیراعلیٰ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس کے
بعد درندگی کا شکار ہونے والی دوسری دوشیزہ نے ٹھوس ثبوت جمع کر کے اس کو
سوشیل میڈیا پر پیش کرنے کی جرأت کی ۔ ایس آئی ٹی کوطالبہ نے ایک پین
ڈرائیو سونپا جس میں ثبوت کے طور پر تقریباً 43 ویڈیو کلپ ہیں۔اس دلیر لڑکی
کو اس قدر خوفزدہ کیا گیا کہ وہ فرار ہونے پر مجبور ہوگئی ۔ اس کی کردار
کشی کی گئی جب اس میں بھی ناکامی ہوئی اور چنمیانند کو بچانا تقریباً
ناممکن ہوگیا تو اسے گرفتار کیا گیا ۔ اس نے عصمت دری کے علاوہ سارے
الزامات کا اعتراف بھی کرلیا ۔ پولس نے متاثرہ کی بات ماننے کے بجائے
چنمیانند کی طرفداری کرتے ہوئے ایف آئی آر میں آبروریزی کا ذکر تک نہیں
کیا گیا اور اب یہ حال ہے کہ اس مظلوم لڑکی کو بلیک میلنگ کے الزام میں
گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ یعنی اب متاثرہ جیل کے اندر ہے اور آبروریزی کا
ملزم چنمیانند بیل پر باہر نکل چکا ہے۔کیا اس طرح کا ظلم و دھاندلی دنیا کے
کسی مہذب میں ممکن ہے؟ لیکن کمل چھاپ اترپردیش میں یہ کھلے عام ہورہا ہے
۔اس زیادتی کے خلاف عوام الناس میں کوئی غم وغصہ ہے نہ احتجاجی تحریک ہے
کیونکہ ہرکسی کو دیش بھکتی کے نشے میں چو کرکے پاکستان خلاف ایک خیالی جنگ
میں مصروف کردیا گیاہے۔
اس تناظر میں تبریز انصاری کا معاملہ ایک مختلف منظر پیش کرتا ہے ۔شروع میں
اس کے حملہ آوروں پر قتل کا مقدمہ تھا پھر ان کو بچانے کے لیے موت کی وجہ
دل کا دورہ بتایا گیا ۔ اس پر اگر امت رو پیٹ کر بیٹھ جاتی تو بات نہ صرف
آئی گئی ہوجاتی بلکہ سنگھ پریوار کا یہ پروپگنڈہ کہ اسے بدنام کرنے کی
خاطر اس طرح کی افواہیں اڑائی جارہی ہیں سچ ثابت ہوجاتالیکن ایسا نہیں ہوا
۔ ندیم خان جیسے لوگ ’انڈیا اگینسٹ ہیٹ‘ کا علم تھام کر میدان میں اتر
آئے۔ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو پریس والوں نے توجہ دی ۔ اس کے بعد
ڈاکٹرس سامنے آئے انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ببانگ
دہل کہا کہ ان کی رپورٹ کا غلط استعمال ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں پولس والوں
نے یہ بہانہ بنایا کہ ہمیں ویسرا کی رپورٹ کا انتظار ہے ۔ ویسرا کی رپورٹ
آئی تو اس کی بنیاد یہ بات تسلیم کی گئی کہ تبریز کی موت مارپیٹ کے نتیجے
میں چوٹ لگنے سے ہوئی ہے ۔
اس رپورٹ کے بعد پھر سے ان ظالموں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔ پولس
نے یہ بھی مانا کہ ویڈیو میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ سارے مجرم قابل گردن زدنی ہیں ۔ اس کامیابی میں سب سے اہم کردار
تبریز انصاری کی اہلیہ شائستہ پروین کا ہے۔اس کے شوہر کو شہید کردیا گیا
لیکن وہ خوفزدہ نہیں ہوئی اور اپنے خاوند کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک
پہنچانے کی خاطر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی ۔ اس طرح کی صبرو استقامت نصرتِ
الٰہی کو دعوت دیتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ جس کاحامی و ناصر ہو تودنیا
کی کوئی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی ۔ اس لیے ظلم و جبر کے خلاف سیسہ
پلائی ہوئی دیوار کی مانند جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ باطل کے دانت کھٹے
ہوجائیں اور جبر و استبداد صفحۂ ہستی سے مٹ جائے۔ اس فیصلے کے بعد شائستہ
پروین کی وہی کیفیت ہوئی ہوگی جس کا اظہار فیض احمد فیض نے اس طرح کیا ہے؎
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے |