آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین1974 کے آرٹیکل 11 کے
مطابق صدر آزاد ریاست ایک مشیر برائے استصوابِ رائیمقرر کر سکتے ہیں جو کہ
حکومت کو اقوام متحدہ(یو این سی آئی پی) کی قراردادوں کے مطابق جموں و
کشمیر میں استصواب رائے کے انتظام کے لیے مشورہ دے سکے۔ سابق سفارتکار عاقل
ندیم کا خیال ہے کہ آرٹیکل میں مشیر کی قومیت پر کوئی قدغن نہیں ہے، اس لیے
پاکستان اور اآزاد کشمیر کی حکومتوں کو باہمی مشورے سے کسی نمایاں اور بین
الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت کو تلاش کرنا چاہیے۔آئی ایس پی آرکے بیان کے
مطابق کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا
بھی کہنا تھا کہ بہادر کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت پر کوئی سمجھوتہ
نہیں کیا جائے گا۔کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں خطاب کے ذریعے دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو پوری قوت
سے اجاگرکرنے کی تعریف کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں سیشن
کی سب سے طویل 50منٹ کی یہ تقریر توجہ سے سنی گئی اور اس سے دنیا کے اہم
دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا احساس ہوا ہوگا۔ اس تقریر کے
بعدکئی ممالک نیمقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیوں کے خاتمے پر زور دیا
۔عاقل ندیم سمیت کئیسفارتکار سمجھتے ہیں کہ اس پُرجوش تقریر کے بعد یہ
ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر میں عالمی سطح پر جو آگاہی اور دلچسپی پیدا ہوئی
ہے اسے نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس میں مزید تیزی لائی جائے۔ اس سلسلے
میں کوششیں تخلیقی اور متنوع ہونی چاہییں تاکہ ایسا دباؤ پیدا کیا جا سکے
کہ بھارت اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور ہو جائے اور کشمیریوں کو حق خود
ارادیت دلانے کے لیے راستہ ہموار ہوسکے۔ کشمیر کو بین الاقوامی میڈیا کی جو
توجہ ملی ہے اس میں تھکاوٹ کے آثار نظر آنا شروع ہوگئیتو یہ منفی عمل ہو
گا۔ اگر اس تھکاوٹ میں اضافہ ہوا تو بھارت کامیابی سے کشمیری مزاحمت کو
مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سابق سفارتکاراس سلسلے میں کشمیری جدوجہد کی موثر مدد کے لیے چند اقدامات
تجویز کر رہے ہیں۔تقریباً تمام بین الاقوامی میڈیا اور دانشور بشمول
پاکستانی دانشور اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد حق
خودارادیت کی تحریکوں کو سخت نقصان پہنچا ہے اور ہر ایسی تحریک کو دہشت
گردی سے تعبیر کیا جانا عام ہو گیا ہے۔ اگر نائن الیون کے بعد حق خودارادیت
کی کوشش دہشت گردی کے مترادف ہے تو مغربی ممالک نے مل کر جنوبی سوڈان کی
آزادی کی مسلح جدوجہد کی حمایت اور اس کی مدد کیوں کی، جس کے نتیجے میں ایک
جائز اور قانونی طور پر قائم ملک سوڈان کو2011 میں دو حصوں میں تقسیم کر
دیا گیا اور یہ تقسیم اقوام متحدہ کی زیرنگرانی نائن الیون کے واقعے کے بعد
ہی ظہور پذیر ہوئی۔ اس لیے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ حق
خودارادیت کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔عاقل ندیم کے بقول اس سلسلے میں ہمیں
دانشوروں اور سفارت کاری کے ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو
مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں میڈیا، تھنک ٹینک، معاشرتی تحقیقاتی اداروں
اور دانشوروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور کشمیر کے مسئلے کے قانونی،
انسانی اور سیاسی پہلوؤں پر بین الاقوامی رائے ہموار کرے۔ بین الاقوامی
شہرت کے لکھاریوں سے رابطہ کرکے انہیں بھی اس مسئلے پر لکھنے کے لیے حوصلہ
افزائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اگر ہمیں تحقیقی مضامین، رسائل اور کتب
وغیرہ بھی تحریر کرانی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔جب کہ آزاد
کشمیر کے صدر مشیر برائے استصواب رائے مقرر کریں۔اس مشیر کے فرائض میں
مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ میں رائے عامہ کو ہموار کرنا اور فیصلہ سازوں
کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا اور انہیں مسئلہ کشمیر کی سنجیدگی اور اس کے
حل کی اہمیت کے بارے میں یاد دہانی کرانا شامل ہو۔ جیسا کہ وزیراعظم نے
جنرل اسمبلی میں بہت کھلے الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کا حل نہ ہونا
اس خطے کو نیوکلیائی تصادم کی طرف لے جا رہا ہے اور اس تصادم سے بچنے کے
لیے اور ساری دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت
دیا جائے۔ مجوزہ مشیر کی بھی یہی ذمہ داری ہوگی۔ وہ مغربی رائے عامہ کو اس
مسئلے کے حل کے لیے اپنے حکمرانوں پر زور ڈالنے پر مائل کریں گے۔اس سلسلے
میں مشیر کو خصوصاً امریکہ میں ایک بہترین شہرت کے حامل لابیینگ ادارے کی
مدد کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں کسی بھی ایسے ادارے کی خدمات حاصل کرنے میں
انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوگی جس میں تمام مقامی قوانین کی پابندی شامل ہو۔
اس سلسلے میں ہمیں بعض غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ ہمیں یہ بھی یقینی
بنانا ہوگا کہ اس مہم میں وسائل کے استعمال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔
مشیر کے موثر ہونے کے لیے ان کا پاکستان اور کشمیر میں اعلیٰ قیادت سے
مشورے کے لیے ہر وقت بلا کسی رکاوٹ کے رابطہ میں رہنا ضروری ہو گا۔استصواب
رائے مشیر اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان مرحوم جیسی کوئی
شخصیت یا ملالہ یوسفزئی ہو سکتی ہیں۔ اختلاف رائے اپنی جگہ ، مگر بین
الاقوامی طور پرملالہ ایک بڑا نام ہے۔ چونکہ وہ نوبیل انعام یافتہ بھی ہیں
، ان کی بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی پرزور وکالت اس دیرینہ مسئلے کو
حل کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
|